مُلکِ مصر میں بنی اسرائیل

حضرت یوسف ؑ ملک مصر میں

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تمام بیٹے الگ الگ علاقوں میں جا کر بس گئے تھے اور صرف حضرت اسحاق علیہ السلام اُن کے ساتھ فلسطین میں رہ رہے تھے۔ اُن کے وصال کے بعد اُن کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام فلسطین میں رہے۔ اُن کی پہلی بیوی سے دس بیٹے ہوئے اور دوسری بیٹی سے دو بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام اور بن یامن ہوئے۔حضرت یوسف علیہ السلام کو اُن کے بھائیوں نے ایک کنویں میں پھینک دیا ۔ ملک مصر جانے والا ایک قافلہ اُس کنویں پانی لینے آیا تو اُسے حضرت یوسف علیہ السلام مل گئے۔ قافلے والے انہیں لیکر ملک مصر چلے گئے اور اﷲ تعالیٰ نے وہاں پر ایسے حالات پیدا کئے کہ حضرت یوسف علیہ السلام ملک مصر کے بادشاہ بن گئے۔ انہوں نے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کو اور تمام بھائیوں کو ملک مصر بلا لیا اور وہ سب وہیں بس گئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اور اُن کے گیارہ بھائیوں کی اولادیں ہوئیں جو آگے چل کر ’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائیں۔ بارہ بھائیوں کی اولادیں بارہ الگ الگ قبیلے بنیں اور اِن بارہ قبائل کے مجموعے کو’’بنی اسرائیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اُن کے زمانے میں اور بعد کے زمانے میں مصری لوگ بنی اسرائیل کی بہت عزت کرتے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے وصال کے بعد بھی بنی اسرائیل کی ملک مصر میں عزت وتکریم رہی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اُن میں بھی بہت ساری خرابیاں پیدا ہوگئیں اور وہ ’’دنیا کی محبت‘‘ میں مبتلا ہوگئے تو اُن کی عزت و تکریم کم ہوتے ہوتے ختم ہوگئی۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ مصریوں نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا لیا اور وہ غلامی کی زندگی بسر کرنے لگے۔  

حضرت یوسف ؑکے بعد ملک مصر میں بنی اسرائیل کے حالات

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ(۱۲) بیٹے ہوئے۔اُن کے نام روبیل ، یہو د ا ،شمعون ، لاوی ، ریالون یا زابلون ، یشجریا یسحر یا ایساخر،دان ، یفتالی یا نفتالی ، جاد،اشیر،حضرت یوسف علیہ السلام،اوربن یامین ہیں۔حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں یہ سب ملک مصر میں بس گئے تھے۔آپ علیہ السلام کی دعوت کو اچھے خاصے مصریوں (قبطیوں)نے قبول کر لیاتھااور اسلام میں داخل ہوگئے تھے۔آپ علیہ السلام کے بعد بھی مصری کافی عرصے تک اسلام پر قائم رہے لیکن ابلیس شیطان کی کاروائی لگاتار جاری رہی اور وہ مصریوں اور بنی اسرائیل کو مسلسل بہکاتا رہا۔ دھیرے دھیرے اُن کے ایمان میں کمزوری آتی گئی اور اچھے خاصے مصری کفر میں مبتلا ہو گئے۔مصریوں کو ’’قبطی‘‘ کہا جاتا ہے اس لئے آگے ہم مصریوں کو قبطی کہیں گے۔حضرت یعقوب علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے ’’اسرائیل‘‘کا لقب عطا فرمایا تھا۔اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ یے جس کے عربی میں معنی ’’عبداﷲ‘‘ہے،اور اردو میں’’اﷲ کا بندہ یا اﷲ کا غلام‘‘ہے۔حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ(۱۲)بیٹوں کی اولاد ملک مصر میں اس دوران خوب پھلی پھولی اور ان کی تعداد بڑھتی رہی۔ان بارہ(۱۲) بھائیوں کی نسل ’’بنی اسرائیل ‘‘کہلائی اور یہ سب کے سب اسلام پر قائم رہے اور ملک مصر کے انتظامی عہدوں پرفائز رہے اور اِن کا دبدبہ مصر پر رہا۔وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا اور کئی سو سال میں بنی اسرائیل تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ۔

 ملک مصر کے فراعنہ

حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں جو فرعون تھا اُسکا نام ریان بن ولید تھا۔یہاں ایک بات ذہن میں رکھیں کہ ملک مصر کے حکمرانوں کا لقب ’’فرعون‘‘ ہوتا تھا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کا فرعون الگ تھا۔ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مصر میں بادشاہوں کا ایک خاندان گزرا ہے جو ’’خاندانِ فراعنہ‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔اُس خاندان کا جو بھی شخص بادشاہ بنتا تھا وہ فرعون کہلاتا تھا۔مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں۔ملک مصر کے بادشاہ کا لقب فرعون تھاکیونکہ مصری زبان میں اس کے معنی بادشاہ ہوتے ہیں۔جیسے عربی زبان میں ’’سلطان‘‘فارسی زبان میں’’بادشاہ‘‘ہندی زبان میں ’’راجہ‘‘اور انگریزی زبان میں ’’کنگ‘‘کہتے ہیں۔اس بادشاہ (حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت کے فرعون)کا نام ولید بن مصعب تھا۔خیال رہے کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے کہ یہی حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں بھی فرعون تھا،مگر یہ غلط ہے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے کے فرعون کا نام ریان بن ولید تھا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کے درمیان کم سے کم چار سو(400) سال کا فاصلہ تھا۔لہٰذا یہ وہی فرعون کیسے ہو سکتا ہے۔(تفسیر نعیمی جلد  ۱؎ سورہ البقرہ )

بنی اسرائیل میں ساتھی قوم کے اثرات آگئے

حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں جو فرعون تھا اُس نے حکومت کے تمام انتظامات آپ علیہ السلام کو سونپ دیئے تھے۔اس طرح حکمراں کے طور پر نام تو اُس کا چلتا تھالیکن تمام احکامات آپ علیہ السلام ہی دیتے تھے۔بعد میں بھی یہی سلسلہ چلتا رہا اور حکمراں کے ساتھی اور منتظم کے طور پر بنی اسرائیل رہتے تھے ۔ اُنہوں نے لگ بھگ تین سو سال تک ملک مصر کا انتظام اچھے طریقے سے چلا یا بھی تھالیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بنی اسرائیل کی تعداد بڑھتی جارہی تھی اور وہ دنیا میں مبتلا ہوکر عیش پرستی میں مبتلا ہوتے جا رہے تھے۔ملک مصر میں قبطیوں یعنی مصریوں کی تعداد زیادہ تھی اور ان میں سے اکثر مشرک اور کافر تھے کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں جن قبطیوں نے اسلام قبول کیا تھا ان کی اولادوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ابلیس شیطان کے مسلسل وسوسوں کا شکار ہوکر اُس کے بہکاوے میں آکر شرک کرنا شروع کردیا تھااور قبطیوں کی اکثریت گائے کی پوجا کرتی تھی۔بنی اسرائیل حالانکہ مسلمان ہی رہے اور صرف اﷲ تعالیٰ کی ہی عبادت کرتے رہے لیکن کئی سوبرسوں میں قبطیوں یعنی مصریوں کے ساتھ رہتے رہتے اُن کے اندر بھی ساتھی قوم کے اثرات پیدا ہو گئے تھے اور لا شعوری طور پر بنی اسرائیل اپنے ساتھ رہنے والی قوم کے اثرات قبول کرتے جارہے تھے۔جیسے ہندوستان کے مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ رہتے رہتے اُن کے اثرات قبول کرتے جارہے ہیں۔غیر مسلم ہر خوشی کے موقع پر پٹاخے پھوڑتے ہیں اور آتش بازی کرتے ہیں۔اُسی طرح ہم مسلمان بھی نکاح بارات اور دوسری خوشیوں کے موقع پر پٹاخے پھوڑتے ہیں اور آتش بازی کرتے ہیں۔
 آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہر مسلمان یہ چاہتا ہے کہ اُس کا ایک اچھا سا گھر ہو ، ایک اچھی سی نوکری یا کاروبار ہو اور پوری زندگی آرام سے گزر جائے۔ اﷲ تعالیٰ نے اِس دنیا میں ہمیں اسلام کے مطابق زندگی گزارنے اور غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں بتانے اور سمجھانے کے لئے بھیجا ہے لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ ہم خود اسلام پر عمل نہیں کرتے ہیں تو دوسروں کو کیا بتائیں اور سمجھائیں گے۔