مشہور یونانی فلسفی ڈائجینیس نے اپنے اقربا کو وصیت کی تھی کہ جب وہ مرجائے تو اْس کی میت کو شہر کی بڑی دیوار کے اوپر سے گرا دیا جائے تاکہ لاش کو جنگلی جانور نوچ کھائیں۔ بعد میں افلاطون نے ڈائجینیس کے بارے میں کہا کہ وہ ‘‘پاگل ہوچکا سقراط’’ تھا۔ مہذب دْنیا میں ڈائجینیس کے بارے میں افلاطون کا خیال صحیح ثابت ہوچکا ہے، کیونکہ دس ہزار سال سے لوگوں نے بلالحاظ رنگ و نسل ، مذہب و ملت مْردوں کو بڑی تکریم کے ساتھ سپرد خاک یا سپرد نار کیا ہے۔ مْردوں کے ساتھ مختلف معاشروں کے رویوں پر تھامس لاقویر نے اپنی کتاب ‘‘دا ورک اوف دا ڈیڈ: کلچرل ہسٹری اوف مارٹل رِمینز’’ میں تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔
کورنا وائرس کی وبا کے بیچ بڑی تعداد میں لاشوں کو ٹھکانے کا عمل جس بے مروتی کے ساتھ جاری ہے، کبھی کبھار یہ لگتا ہے کہ اکیسویں صدی کے بیدار عہد میں بھی ہم ڈائجینیس کے منتشر خیال پر عمل کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کورنا کی وجہ سے اموات کی شرح میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کی ہی بات کریں تو مسلمانوں کو قبرستانوں کی قلت کا شدید مسلہ درپیش ہے۔ گویا مْردوں کی تدفین کیلئے زمین کی قلت کورنا وائرس کے خلاف لڑائی میں بڑی رکاوٹ کے طور سامنے ارہی ہے۔
پچھلے چند ماہ کے دوران دیکھا کہ کس طرح مختلف خانوادوں، بستیوں یا اداروں کے درمیان مْردوں کی تدفین کو لے کر تصادم ہوئے۔ مہاراشٹرا اور دوسری ریاستوں میں یہاں تک دیکھا گیا کہ مسلم مردوں کو سمندر میں بہایا گیا کیونکہ قبرستانوں میں یا تو جگہ نہیں ہے یا پھر مرنے والے کی قبرستان میں ملکیت پر سوال اْٹھائے گئے۔
اسی سارے پس منظر میں لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا سے میری گذارش ہے کہ کشمیر میں حکومت کی نگرانی میں باقاعدہ سرکاری تدفین اتھارٹی قائم کی جائے۔ حالانکہ نئی دلی وقف بورڈ نے مرکزی حکومت کو باقاعدہ تحریری تجویز پیش کی تھی کہ قبرستانوں کی دیکھ ریکھ کے لئے حکومت کے زیرنگرانی ایک انتظامی بورڈ تشکیل دیا جائے تاہم ابھی تک مرکزی سرکار نے اس تجویز پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
جموں کشمیر موجودہ قبرستانوں کی اس قلت کے بحران سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ہمارے یہاں قبرستان کے معاملے پر بستیوں اور خاندانوں میں جنگ چھڑ جاتی ہے۔ ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں فی الوقت مسلمانوں کو قبرستانوں کی قلت کا سامنا ہے۔ مسلہ یہ ہے کہ جب نئی بستیوں یا کالونیوں میں لوگوں کو قبرستان میں میت دفنانے کی اجازت نہیں دی جاتی تو وہ پہاڑیوں اور برلب سڑک بنڈ پر مقوضہ اہل اسلام کا جھنڈا لہرا کر اْس مقام کو قبرستان بنا دیتے ہیں۔ سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے ایسے عبوری مقبروں سے پورا علاقہ عفونت زدہ ہوجاتا ہے۔ کورنا وائرس جیسی خوفناک وبا کے درمیان جب تقریباً ہر علاقے میں قبرستانوں کی حالت یہ ہوگی تو جان لیجئے وبا ہمارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گی۔
کشمیرمیں روایتی طور پر مقبروں کا انتظام مقامی محلہ کمیٹیاں کرتی ہیں۔ وہی لوگ کاہچرائی ، سرکاری زمین یا عطیہ میں دی گئی زمین پر سبز پرچم لہراتے ہیں اور اس پر مقبوضہ اہل اسلام لکھ دیتے ہیں۔
یہ بے ہنگم تجاوزاتی مہم سرکار کی ناک کے نیچے مذہب کے نام پر ہورہی ہے۔ اور اس کی وجہ سے کشمیر میں جانائز تجاوزات کا ایک ایسا کلچر چل پڑا ہے جسے اب کوئی غلط بھی نہیں سمجھ رہا۔ ہمارے یہاں وقف بورڈ نام کا ادارہ تو ہے لیکن مقبروں پر اس ادارہ کا نفوذ نہیں ہے۔
پائین شہر میں واقع ‘ ملہ کھاہ ’ وادی کشمیر کا قدیم ترین اور سب سے بڑا قبرستان ہے جسکے لئے زمین میر سید علی ہمدانی نے خریدی اور مسلمانوں کو وقف کی تھی۔ گزشتہ چند صدیوں میں یہ قبرستان 1300 کنال سے سکڑ کر صرف سات سو کنال رہ گیا ہے۔
کشمیر میں کورونا کی وبا سے زیادہ اب تشویش یہ ہے کہ مْردے کہاں جائیں؟ کیونکہ یہاں وبا کے علاوہ اور بھی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے شرح اموات میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سال جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائیٹیز نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ 2018 میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں، سیکورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کی تعداد 586 تھی اور اس طرح وہ نہایت خونین سال ثابت ہوا۔ پچھلے سال خودمختاری کے خاتمے سے پہلے یعنی سال کے پہلے تین ماہ کے دوران مارے جانے والے افراد کی تعداد 160 تھی۔ شورش کے علاوہ بھی وجوہات ہیں۔ کشمیر میں صحت عامہ کا شعبہ بہتری کا محتاج ہے۔ ہسپتالوں میں مرنے والوں کی تعداد پر کسی کا محاسبہ نہیں ہوتا۔ چند سال قبل بچوں کے ہسپتال میں چار سو بچے چند ہفتوں کے اندر فوت ہوئے اور کسی سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔
متذکرہ بالا مقدمات کے پس منظر میں میری تجویز کہ یہاں باقاعدہ تدفین اتھارٹی قائم کی جائے جو باضابطہ سرکاری کوڈ کے مطابق سرکار کی نگرانی میں کام کرے بے حد متعلق اور ازبس ضروری معلوم ہوتی ہے۔ اور اب حکومت کو ایسی کوئی اتھارٹی قائم کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ بھی درپیش نہیں ہے۔ یہی اتھارٹی قبرستانوں کی دیکھ ریکھ، مردوں کی تدفین، کالونیوں اور بستیوں میں نئے بسکینوں کی رجسٹریشن وغیرہ کا کام دیکھے گی۔
قابل ذکر ہے جموں کشمیر مسلم وقف بورڈ کی سالانہ امدن تیس کروڑ روپے ہے اور وسیع و عریض زمینیں اس کے تصرف میں ہیں۔ یہ ادارہ کشمیر میں ایک یونیورسٹی (جسے حکومت سے مالی امداد ملتی ہے)، سینکڑوں سکول اور تین نرسنگ کالج چلاتا ہے۔ دہائیوں سے یہ ادارہ کشمیر میں قبرستانوں کے لئے سکڑتی زمین کا مسلہ حل نہ کرسکا اور اس کی ناک کے نیچے ناجائز تجاوزات کی مہم چلتی رہی۔
ارباب اختیار کو پہلے ہی معلوم ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جو شہرکاری ہوتی ہے اس کی وجہ سے لوگ ابائی گھروں کو چھوڑ کر نئی کالونیوں میں اباد ہورہے ہیَںَ۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ، پھر لوگوں کو محلے والوں کے اعتراضات کا سامنا رہتا ہے اور چاروناچار وہ بنڈ پر، برلب سڑک یا کسی پہاڑی پر مقبوضہ اہل اسلام کا جھنڈا لہرا دیتے ہیں۔
لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کی انتظامیہ کو کشمیر میں تدفین اتھارٹی کے قیام کی ضرورت پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ اس ادارہ میں جموں کشمیر کے سبھی اضلاع سے مستند اور مسلمہ مذہبی انجمنوں کے نمائندوں کو مبصرین کے طور شامل کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر میں جس رفتار سے شرح اموات بڑھ رہی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یونانی فلسفی ڈائجینیس کی طرح ہمیں بھی اپنے اقربا کو یہ وصیت کرنا پڑے کہ ہم مرجائیں تو جہلم میں بہا دینا یا پہاڑ سے نیچے پھینک دینا۔
رابطہ ۔9469679449