حافظ میر ابراہیم سلفی
گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں
مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں
موسم سرما طلوع ہوچکا ہے ،سرد راتیں جہاں اہل ثروت کے لئے باعث تسکین ہوتی ہیں وہیں ایک مفلس کے لئے باعث عذاب۔یہ بات واضح ہے کہ سرمائی فضا اپنے ساتھ کئی ایک ضروریات ساتھ لاتی ہے ،جن کے اخراجات پورے کرنا ہر ایک کی بس کی بات نہیں ہوتی۔مزدور طبقہ اس موسم میںبُری طرح متاثر ہوتا ہے ،مختلف طبی امراض میں اضافہ ہوتا ہے، جس کے لئے ادویات کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ سال بھر کی کمائی بھی ان بنیادی ضروریات کی تکمیل نہیں کرپاتی۔مزدور باپ کے سامنے اس کا عیال ،اسکے بچے گرم لباس کا تقاضا کررہے ہوتے ہیں، لیکن کرے تو کرے کیا؟ مجبوراً یہ مجبور شخص قرض کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔گھر کا چھت پختہ نہ ہو ،کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہوں ،دیواروں میں دراڑیں ہوئی ہوں تو پریشانی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔مزدور طبقے کے لئے چاول خریدنا بھی انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔بعض گھر تو ایسے ہیں جن کا کوئی کمانے والا نہیں ،سال بھر تو کسی نہ کسی طرح گزارہ کرجاتے ہیں ۔لیکن جب زمین سفید چادر کے احاطے میں آجاتی ہے ،ان کا گزارہ کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ بہت سے گھر سرمائی راتوں میں بھوکے سوتے ہیں ،بہت سے افراد سرمائی دنوں میں اپنے نصیب کو کوس رہے ہوتے ہیں ۔اس لئے موسم سرما کے شب و روز ہر ایک کے لئے یکساں نہیں ہوتے۔بقول واسطیؔ
عذاب ہوتی ہیں اکثر شباب کی گھڑیاں
گلاب اپنی ہی خوشبو سے ڈرنے لگتے ہیں
راقم نے سرمائی دنوں میں بہت سی آنکھوں کو نم دیکھا ہے۔بہت سے لہجوں کو خاموش ہوتے دیکھا ہے۔بہت سے ارمانوں کو چور ہوتے دیکھا ہے۔مجبوریاں اب کسی سے بانٹی نہیں جاسکتی ،کیونکہ مداوا کرنے والے زیر زمین مدفون ہیں۔بہت سے بے مَعاش نوجوان بھی سرمائی راتوں میں شرمندگی کی سانسیں لے رہے ہوتے ہیں ،حالانکہ رزق کی تقسیم پروردگار عالم نے کی ہے جس پر قناعت کا اظہار کرکے راضی رہنا چاہئے۔اہل ِ دل اس بات سے واقف ہیں کہ ایک مغلوب انسان راتوں کی طوالت کی تمنا کرتا ہے ،وہ اپنے مصائب کو رات کی تاریکی میں چھپانا چاہتا ہے۔صبح طلوع ہوتی ہے ،باد صبا اپنے ساتھ ذہنی اُلجھنوں کی برسات لاتی ہے۔صبح کا ناشتہ ہو یا دن کا کھانا ،فکر اس بات کی رہتی ہے کہ شام کا گزارہ کیسے ہو۔! اب ہمسائیگی میں جاکر کسی سے مدد بھی نہیں لے سکتے کیونکہ ہمسائیگی کے حقوق سے ہم آشنا نہیں،خوف رہتا ہے کہ کہیں مجھے ذلیل نہ کرے ،کہیں میری حالات کا مذاق نہ اڑائیں۔یقین کریں کہ گھر کے بڑوں نے زہر کے یہ گھونٹ کئی بار پئے ہوتے ہیں ۔بقول احمد امیٹھویؔ
زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت
آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے
موسم سرما کے ان ابتدائی دنوں میں تلاش کریں ایسے گھروں کو، جو محتاج ہیں اور آپکی مدد کے منتظر ہیں ۔تلاش کریں ایسی آنکھوں کو جو ایک امید سے کسی کی راہ دیکھ رہی ہیں ۔سرمائی ایام میں برف کی سفید چادر کھڑکی کے باہر ہی اچھی لگتی ہے ،اُن افراد کا سوچیں جو سرمائی ستم سہہ رہے ہیں۔سلف ِ صالحین موسم سرما کی آمد پر ایک دوسرے کو خوشخبری دیا کرتے تھے ۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ،الشتاء غنيمة العابدين۔یعنی ،’’موسم سرما عبادت گزار بندوں کے لئے نعمت عظمیٰ ہے‘‘۔(حلية الأولياء) نعمت اس طرح کہ بندہ مومن حقوق اللہ و حقوق العباد بکثرت ادا کریں۔سیدنا حسن بصریؒ کا فرمان ہے کہ ،’’سردی کا موسم بندہ مومن کے لئے کتنا ہی خیر والا ہے ! راتیں طویل ہوتی ہیں ،قیام اللیل کرسکتا ہے،ایام مختصر ہوتے ہیں،نفلی روزوں کا اہتمام کرسکتا ہے ۔‘‘(لطائف المعارف) جہاں ان عبادات میں کثرت کرنا سلف کا طریقہ رہا ہے وہیں ان سخت سردیوں میں انسانیت کی خیر خواہی سلف کا شیوہ رہا ہے ۔
فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
رب العزت ہمیں کسی کا محتاج نہ رکھے اور ہمارے قلوب کو درد انسانیت سے مزین کرے۔آمین
رابطہ 6005465614
<[email protected]>