موسمی صورتحال : روایتی طریقوں پر ہی تکیہ کیوں؟

 وادی کشمیر سمیت ریاست کے بالائی علاقوں میں برفباری اور نچلے علاقوں میں بارش ہونے کے ساتھ ہی لوگوں کے مسائل میں اضافہ ہونا شروع ہوگیاہے ۔ اس دوران جہاں بجلی اور پانی کی سپلائی میں مزید ابتری آئی ہے وہیں جموں سرینگر شاہراہ سمیت کئی سڑکوں پر ٹریفک نظام متاثر ہواہے جس کی وجہ سے مسافروں کو مشکلات کاسامناہے ۔ خاص طور پر جموں سرینگر شاہراہ پر ٹریفک کے باربار معطل ہونے اور بحال ہونے سے اس پر سفر کرنے والے افراد خاص کر زخمیوں اور مریضوں، کو پریشانیوں سے دوچار ہوناپڑرہاہے اور وہ وقت پر اپنی اپنی منزل کو نہیں پہنچ پاتے ۔لگ بھگ 300کلو میٹر طویل یہ شاہراہ موسم سرما میں دونوں خطوں کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ ہے جس کے باربار بند ہونے اور کھلنے سے نہ صرف مسافروں بلکہ زندگی کے ہر ایک شعبے کو متاثر ہوناپڑتاہے ۔اگرچہ موسم گرما میں بارشوں کے دوران بھی اس شاہراہ کا یہی حال رہتاہے لیکن تب دونوں خطوں کے درمیان مغل شاہراہ کی صورت میں ایک متبادل ہوتاہے لیکن بدقسمتی سے مغل روڈ پر ٹنل تعمیر نہیں ہوسکا اور ایک بار پھر یہ شاہراہ اگلے تین سے چار مہینوں کیلئے ٹریفک کی نقل و حرکت کیلئے بندہوگئی ہے جس کی بحالی اب رواں موسم سرماکے خاتمے پر ہی ہوسکے گی ۔حالیہ برفباری کے باعث جموں سرینگر شاہراہ پر پچھلے دوروز  ٹریفک کیلئے بند رہی  اور وادی کشمیر کا فضائی رابطہ بھی درہم برہم ہوگیا۔ایسے حالات میں مسافروں کو کن کن پریشانیوں کاسامنا کرناپڑتاہے ، یہ بیان کرپانا مشکل ہے ۔ ریاست میں برفباری اور موسم میں خرابی کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ایسا ہر سال موسم سرما میںہوتا آیاہے اور آئندہ بھی موسمی صورتحال ایسی ہی رہے گی لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ حکام کی طرف سے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پیشگی کوئی اقدام نہیں کیاجاتا اور سڑکیں برف تلے دب جانے کے بعد ہاتھ پائوں مارنے کی کوششیں شروع ہوتی ہیں لیکن تب عوام تک بنیادی سہولیات کی رسائی مشکل امر بن چکاہوتاہے اور نتیجہ کے طور پر دوردراز اور پہاڑی علاقوں میں کئی کئی دن تک بجلی غائب رہتی ہے اور پانی کی سپلائی لائنیں بھی تباہ ہوجاتی ہیں جبکہ راشن اور تیل خاکی کی قلت تو ہمیشہ سے ایک معمول رہاہے ۔ہر سال موسم سرما سے قبل یہ تو سننے میں آتاہے کہ دور دراز علاقوں کیلئے راشن و دیگر اشیائے ضروریہ ذخیرہ کرنے کے اقدامات کئے گئے ہیں اور انتظامیہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پوری طرح سے تیارہے جس کیلئے ہیلپ لائن نمبر بھی جاری کئے جاتے ہیں اور کنٹرول رومز کا قیام بھی عمل میں لایاجاتاہے لیکن موسم میں خرابی آنے پران سب دعوئوں کی قلعی کھل جاتی ہے ۔موسمی صورتحال سے پیدا ہونے والے مسائل کو اس قدرغیر سنجیدگی سے نہ لیاجائے بلکہ ان سے نمٹنے کیلئے ایک کل وقتی جامع پالیسی مرتب کی جائے تاکہ جموں سرینگر شاہراہ اگر برف تلے دب بھی جائے تو کوئی متبادل باقی رہے اور گائوں دیہات کو جانے والی سڑکیں ہفتوں تک بند نہ رہیں اور نہ ہی پانی و بجلی کی سپلائی میں کٹوتی اور راشن و تیل خاکی کی مصنوعی قلت درپیش ہو ۔امید کی جانی چاہئے کہ گورنر انتظامیہ روایتی سطح کے اقدامات سے ہٹ کر ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے آج کے اس ترقیافتہ دور کے مطابق سوچ وچار کر ے گی اور آئندہ برس ریاستی عوام کو ایسے حالات کاسامنا نہیں کرناپڑے گا جو اس موسم میں دیکھے جارہے ہیں۔