مکرکی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہا ئے سادگی سے کھاگیا مزدور مات
(اقبال)
گجرات اور ہماچل پردیش میں اسمبلی انتخابات میں بھاجپا کو جو کامیابی ملی ہے۔ اُس پرنہ صرف بھاجپا کے لیڈراور کارکن ہی بغلیں بجانے کے علاوہ شادیانے اور جشن منارہے ہیں بلکہ بھاجپا کے ڈھنڈورجی میڈیا بھی اس غل گپاڑے میں شامل ہوکر نریندرمودی کا گن گان کرتے ہوئے انہیں آسمان کی بلندیوں پرپہنچا رہاہے، لیکن اگر سنجیدگی ،گہرائی اورغور سے ان انتخابی نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو صاف عیاںہوجاتاہے کہ یہ انتخابی نتائج اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ نریندرمودی کا اثر جو انہوںنے محاورے بازی، لفاظی کے زور پر غلط وعدے، دعوے اور عہدوپیمان کرکے قائم کیا تھا، اُس کا خمار کافور ہوتاجارہاہے اور عوام موجودہ مرکزی حکومت سے بیزار ہوکر نئی راہ یا متبادل تلاش کررہے ہیں۔
گجرات نریندرمودی کی آبائی ریاست ہے جہاںبائیس برس سے بھاجپا حکمران ہے اور خود مودی اِ س ریاست کے وزیراعلیٰ ہوکر وہاںحکمرا ن رہے ہیں۔ گزشتہ لوک سبھا کے عام انتخابات کے درمیان مودی نے کانگرس پارٹی کے سکینڈلوں، گھپلوں، گھوٹالوں، بدعنوانیوں اور غیر جمہوری اور عوام دُشمن پالیسیوں کو طشت از بام کرتے ہوئے بیکاری، مہنگائی، رشوت ، بھرشٹاچار کو ختم کرنے کی جادو ئی نعرہ بازی کے ذریعہ برسرِا قتدار آئے تھے۔ لیکن اپنی وزارت کا نصف سے بھی بہت زیادہ عرصہ گزرجانے کے بعد بھی حالات میں کوئی تبدیلی واقعہ نہیں ہوئی ہے بلکہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے عوام زیادہ پریشان ہوئے ہیں۔ گجرات ماڈل دکھا کر سارے ملک کو گجرات کی طرز پر وکاس کرنے کا خواب جو عوام کو دکھایاگیا تھا، اُس کا بھانڈہ خود گجرات میںپھوٹ گیاہے۔ بے شک بھاجپا اور نریندرمودی گجرات میں ایک بار پھر اقتدار کو محفوظ رکھ سکے ہیں لیکن انتخابی اعداد وشمار سے ظاہرہوتاہے کہ خود گجرات میںعوام ان کی سیاست کاری سے پریشان اور نالاںہیں۔ بھاجپا کو گجرات میں جو معمولی انتخابی کامیابی نصیب ہوئی ہے، وہ اس پارٹی کی کارکردگی اور عوامی خدمات کی بدولت نہیں بلکہ ’’ہندوتو‘‘ اور گجراتی شاونزم کے نام پر نریندرمودی کی مرکز میں کرسی بچانے کے نام پر حاصل ہوئی ہے جو مقامی ہندو شادنزم اور شاد نزم کا کرشمہ ہے، کسی مثبت کارکردگی کانتیجہ نہیںہے۔
گجرات میں کھلم کھلا ہندو تو کو بچانے کے نام پر، ایودھیامیں رام مندر بنانے کے نام پر،سومناتھ مندر بنانے کی جواہرلال نہرو کی طرف سے مخالفت کے نام پر ، سومناتھ میں تقریر کے دووران اندرا گاندھی کی طرف سے ناک پررومال رکھنے کے نام پر، گجرات کے انتخابات میں پاکستان کی مداخلت کے نام پر ، جس میں غلط بیانی سے کام لے کر ایک سوشل تقریب میں سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کی پاکستانی لیڈر کے ساتھ شمولیت کا شور مچا کر، پاکستان کی طرف سے احمد پٹیل کو وزیراعلیٰ بنانے کی کوشش کے نام پر، کچھ کانگرسی لیڈروں کی طرف سے ہتک آمیز الفاظ استعمال کرکے گجرات کے بیٹے (نریندرمودی) کو توہین کرنے کے نام پر، گجرات کے بیٹے سے مرکزی اقتدار چھیننے کے نام پر گمراہ کن پرچارکیاگیا اور اس طرح گجرات میں معمولی کامیابی حاصل کی گئی اور حاصل شدہ اقتدار بچایاگیا۔ گجرات کی انتخابی مہم کے دوران نریندرمودی نے کہیں وکاس کانام تک نہیںلیا۔ امت شاہ کے بیٹے کی کئی گنا دولت میںاضافہ کے انتخابی مخالفین کے الزامات تک جواب تک نہیںدیا۔ بعض بھاجپا لیڈروں نے مخالفین کو علاء الدین خلجی اور اورنگزیب کی اولاد تک کہنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی ۔
الیکشن کمیشن کی ساکھ دائو پر لگا کر گجرات کے انتخابی کو ہماچل پردیش کے انتخابات سے الگ کیاگیا تاکہ حکمران پارٹی اس طوالت سے فائدہ اُٹھاسکے۔ الیکشن کمیشن کے خلاف انتخابی پیٹیوں میں گڑبڑ کے الزامات بھی لگے ہیں اورالیکشن کمیشن اس کا خاطر خواہ جواب نہیں دے سکا ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخاب والے دن بھی نریندرمودی کے روڈ شو کرنے پرکوئی کاروائی کرنے سے انکار کرکے اپنے آپ کو مشکوک اور جانبدار بنالیاہے۔المختصر سب کچھ کرنے کے بعد بھی ڈیڑھ سو سے اوپر دعویٰ کرنے پر بھاجپا مہارتھیوں کو 99؍کے ہندسے پر اکتفاکرناپڑاہے اور وہ سینچری بنانے سے بھی معذور رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں کانگرس نے اپنی پوزیشن بہتر بنائی ہے اور وہ 80کے ہندسے تک پہنچ گئی ہے جوکہ پہلے سے زیادہ ہے یعنی گجرات انتخابات میں بھاجپا کو سابقہ انتخابات کی نسبت نہ صرف سیٹیں کم ملی ہیں بلکہ ووٹ بھی کم ملے ہیں۔ حتیٰ کہ وزیراعظم کے آبائی قصبہ کے حلقہ انتخاب میں بھاجپا کو شکست کا سامنا کرناپڑاہے۔ اس صورت حال میں توکہا جاسکتاہے کہ بھاجپا اور مودی صاحب نے ناک تو بچالی ہے لیکن ان کاجادوئی اثر کا فور ہوتاجارہاہے۔ بظاہربے شک بھاجپا لیڈر کتنی ہی شیخیاں بگھاریں لیکن اندرونی طورپر گجرات انتخابات کے نتائج سے گھبراہٹ کاشکار ہیں۔
اب اگلے سال 2018میںکرناٹک ، راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے انتخابات ہیں اور اس کے بعد 2019 میں لوک سبھا کے انتخابات بھی ہیں۔ وزیراعظم نریندرمودی اور اُن کی بھاجپا قیادت اِن انتخابات میں کامیابی کے لئے گجرات کے انتخابات کی روشنی میں سخت پریشان اور فکر مند ہیں۔ ہماچل پردیش میں کانگرس کو بے دخل کرکے بھاجپا کو اقتدار ملاہے۔ اِس سے ان کا حوصلہ کچھ بڑھاہے لیکن وہاں بھی اُن کے وزیراعلیٰ کے عہدے کا بھاجپا اُمیدوار پریم کمار دُھومل اور ریاستی بھاجپا کے صدر کو بھی شکست کا منہ دیکھا ہے۔اندریں حالات بعض سیاسی مبصرین کا اندازہ ہے کہ اب نریندرمودی اور اُن کا ہائی کمانڈ اِس امر پر غور وخوض کررہے ہیں کہ لوک سبھا اور ساری ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ 2018میں ہی کروا کر اپنا جادوئی اثر مکمل طورپر ختم ہونے سے پیشتر ہی دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرلیا جائے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم نے متعدد بار اشارے بھی دئیے ہیں اور الیکشن کمیشن کو ایسی صورت میں اخراجات کا اندازہ لگانے کے لئے بھی کہاگیاتھا۔ چنانچہ اُس اندازہ کے مطابق مرکزی سرکار نے الیکشن کو یہ اخراجات برداشت کرنے کی رضامندی بھی ظاہر کردی ہے اور الیکشن کمیشن نے یہ کہابھی ہے کہ ایسی صورت میں الیکشن کمیشن لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ 2018میں کرانے کی مکمل پوزیشن میں ہے۔ باخبر اور باوثوق سیاسی مبصرین کی رائے میں وزیراعظم نریندرمودی اور اُن کے مرکزی مشیروں کے سامنے یہ تجویز اولیت رکھتی ہے لیکن ایساکرنا بین الاقوامی حالات اور اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے اس تجویز کی مزاحمت پر بھی منحصر ہے۔ البتہ یہ امر بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی کے ذہن میں یہ تجویز ترجیحات میںشامل ہے۔آگے حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں، وہ دیکھنا ابھی باقی ہے لیکن اس قدر واضح ہے کہ نریندرمودی کی جادوگری اور سپنوں کی سوداگری کافور ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اِس جادوگری نے ہندوستان کو پہلے سے ہی موجود سامراجی، گماشتہ سرمایہ داری اور لینڈ لارڈازم کی گرفت میں لے کر زیادہ مضبوط کیاہے جس کے باعث مہنگائی بڑھی ہے۔ بے کاری میںاضافہ ہورہاہے۔ رشوت اور بھرشٹاچار میںبڑھوتری ہوئی ہے۔ بھرشٹاچار کے خلاف زبردست شور وغل مچانے کے باوجود مودی سرکار منموہن سنگھ سرکار کے دورمیں بنایاگیا لوک پال قانون بھی عمل میں نہیںلاسکی اور ناقص کارکردگی کے باعث جن گھوٹالوں کے مقدمات کانگریسی دورمیں شروع ہوئے تھے، اُن میں بھی ملزموں کی بریت شرو ع ہے۔ فرقہ واریت زوروں پر ہے۔ اقلتیں خوف زدہ ہیں۔ ہندو تو کے جنونی عناصر کہیںگائے کی حفاظت کے نام پر بے گناہوں کو نشانہ بنارہے ہیں، کہیں لو جہاد کے نام پر بے رحمی دکھاتے جارہے ہیں۔ مزدور، کسان، درمیانہ طبقہ سبھی نالاںہیں۔ اِس لئے ہمارے سمیت سبھی صحیح ا لخیال لوگ اس انحطاط کا خیر مقدم کرتے ہیں۔البتہ لٹیرے حکمران طبقوں کی انتخابی جادوگری کے باعث جو نیا ستارہ نمودار ہورہاہے، وہ قابل ستائش یا لائق بھروسہ نہیںہے ۔ نریندرمودی کے مقابلہ میںکانگرس کے راہل گاندھی جواب اس جماعت کے صدر بن گئے ہیں ، کو متبادل کے طورپرپیش کیاجارہاہے۔ عوام کو ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ راہل گاندھی اورکانگریس جماعت بھی اُن ہی طبقوں کی نمائندگی کرتی ہے جن کی مودی اوربھاجپا ترجمانی کرتے ہیں۔ مدتوں اس پارٹی کااقتدار سارے ملک پر بھی اور مختلف ریاستوں میں بھی رہاہے لیکن یہ پارٹی ترجمانی اور نمائندگی سامراجیوں، گماشتہ سرمایہ داروں اور لینڈلارڈوں کی ہی کرتی رہی ہے۔ مزدور، کسان، درمیانہ طبقہ ، سرکاری ملازم، دبے کچلے طبقے اور اقلیتیں اِس پارٹی کے دورِ اقتدار میں بھی ظلم وستم کا شکار رہی ہیں، بیکاری، بھوک، افلاس، غربت، مہنگائی، کنبہ پروری، رشوت، بھرشٹاچار، گھپلے، گھوٹالے اور سکینڈل اِس پارٹی کے دور ِ حکومت میںبھی رواں دواںرہے ہیں۔ اب اگر نریندرمودی کی جادوگری ختم ہوکر راہل گاندھی کا ستارہ چمکتا ہے تو عوام کے حق میں کسی بہتری کی اُمید ہرگز نہیںکی جاسکتی، کیونکہ گزشتہ ستر برس کے عرصہ میں یہی پارٹی مرکزمیں بھی اور ریاستوں میںبھی زیادہ تر عرصہ میںبرسر اقتدار رہی ہے۔ اِس کا کردار اپنے گزشتہ دورے ہرگز مختلف نہیں ہوسکتا۔ غرض یہ کہ سامراجیوں، گماشتہ سرمایہ داورں اور لینڈلارڈوں کی یہ چال بازی ہے کہ جب اُن طبقوں کی ایک پارلیمانی پارٹی بدنام ہوجاتی ہے تو وہ اپنی دوسری پارٹی کومتبادل بنا کر پیش کردیتے ہیں اور سادہ لوح عوام ہیں کہ وہ فریب کاری کاشکار ہوجاتے ہیں۔ اب ایک بار اسی فریب کاری کو دوہرایا جارہاہے اور نریندرمودی و بھاجپا کے مقابلے میں راہل گاندھی اورکانگرس کا متبادل پیش کیا جارہاہے۔ اس لئے لازمی ہے کہ عوام اس فریب کاری کو بخوبی سمجھیں اور بورژوا پارلیمانی پارٹیوں کے چنگل سے آزاد ہوکر عوامی دور انقلابی جدوجہدوں کے ذریعہ عوامی جمہوری انقلاب کرکے اِس ملک میں عوامی جمہوریت کاقیام عمل میںلائیں جس میں سامراج گماشتہ سرمایہ داری اور لینڈلارڈازم کا اقتدار ختم کرکے عوامی اقتدار قائم کیا جائے۔ جب تک عوام بورژوا انتخابی بھول بھلیوں میں پھنسے رہیںگے، اُن کو مصائب، مشکلات اور دُکھ درد، ظلم وستم سے ہرگز نجات نہیں مل سکتی۔ ہماری شوئی قسمت ہے کہ عوام انتخابی گورکھ دھندے سے آزادہوکر انقلابی و جمہوری جدوجہدوں کا راستہ اختیار کرنے سے ابھی تک اجتناب کررہے ہیں اور ہمیں علامہ اقبال کے الفاظ میں واویلا کرناپڑتاہے ؎
وائے ناکامی متاع ِکارواں جاتارہا
کارواں کے دِل سے احساس زیاں جاتارہا
عوام سے ہماری گزارش ہے کہ وہ بورژوا انتخابی، پارلیمانی بھول بھلیوں سے باہر نکل کر اِنقلابی صراطِ مستقیم اختیار کریں۔