۔2014 کی انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی نے ہندوستانیوں کے لئے حوروقصور کے وعدے کئے۔ملک کی شرح ترقی دوگنی ہوگی، کسانوں کی آمدن میں اضافہ ہوگا، ہمارے دور میں اقلیتیں سب سے زیادہ محفوظ ہونگی ،تعلم اور تجارت میں چار چاند لگ جائیں گے، کرپشن کا قلع قمع ہوگا، ایندھن کی قیمیں اعتدال پر رہیں گی، ہندوستان عالمی سطح پر ایک قابل اعتناء سپرپاور بن جائے گا، پاکستان کے دانت کھٹے کئے جائیں گے اور کشمیری سفید جھنڈی بلند کرکے مین سٹریم میں آجائیں گے۔مودی بھارت کے دلِتوں، عیسائیوں، پسماندہ اور نچلی ذات کے طبقوں ، لبرل ہندوؤں، مسلمانوں یا کشمیریوں کے لئے کوئی نوید لے کر آئے یا نہیں؟ اس بات سے قطع نظراہم سوال یہ ہے کہ جو وعدے انہوں نے کئے، اگر اُن کا ایفا نہ ہوا تو ملک میں کیا ہوگا؟ اس کا ذرا حقائق اور اعدادوشمار کی روشنی میں جائزہ لینا ضروری ہے۔
بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکے اعدادوشمار کے مطابق 2008تک دلِت اور پسماندہ طبقوں کے ساتھ ہوئی زیادتیوں کے 33000معاملات درج ہوئے تھے، لیکن صرف 2014سے 2016تک 85000سے زیادہ ایسے واقعات رونما ہوئے۔کسانوں کی زندگی بہتر بنانے کا دعوی کرنے والی اس حکومت کے پہلے ہی دو سال میں36420کاشت کاروں نے خودکشی کرلی۔فی الوقت بھارت کی 17ریاستوں میںفی کسان کی ماہانہ اوسط آمدن 1600روپے ہے۔
مودی کی انتخابی مہم کے وقت ملک کی شرح نمو7.93فی صد تھی جو اب 6.5فی صد تک گھٹ چکی ہے۔ نوٹ بندی کو ترقی کا راز بتانے والی حکومت نے کرنسی شفٹ کرلی تو بینکوں میں 16000کروڑ کی رقم واپس آئی لیکن نئے نوٹ چھاپنے پر 21000کروڑ کی رقم صرف ہوئی۔اسی فیصلے کی وجہ سے 2017کے پہلے چار ماہ کے اندر اندر 15لاکھ لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں۔اور اب حال یہ ہے کہ 99فی صد بلیک منی دوبارہ مارکیٹ میں ہے۔گائے رکھشا کے نام پر مسلمانوں کے اندر دہشت بٹھا دی گئی۔مودی کہتے تھے کہ ’’نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘‘، لیکن ان کے چارسالہ دورِ حکومت میں بینک دھاندلیوں کا حجم 17789کروڑ روپے تک پہنچ گیا جس میں سے ہیروں کے عالمی تاجر نیرومودی پنجاب نیشنل بینک کو 13000کروڑ روپے کا چونا لگا چکے ہیں۔ بیرون ملک رکھا گیا کالا دھن واپس لاکر ہر کسان کو پندرہ لاکھ روپے دینے کا بلند بانگ دعویٰ کرنے والے مودی کے بھارت میں وجے مالیا اور للت مودی سمیت 31ارب پتی صنعت کار ہزاروں کروڑ روپے کے گھپلوں کے بعد ملک چھوڑنے میں کامیاب ہوگئے۔
تعلیم کے شعبہ پر مصرف بڑھانے کا وعدہ کرنے والے مودی کی انتخابی مہم کے وقت جی ڈی پی کا4.5فی صد تعلیم پر خرچ ہوتا تھا، لیکن اب یہ شرح 2.9فیصدتک سمٹ گئی ہے۔بھارتی این جی او ’’پرتھم ‘‘ کی ایک سروے کے مطابق بھارت میں14سے18برس کی عمر کے سبھی نوجوانوں کی خواندگی کا عالم یہ ہے کہ 40فی صد لوگ گھڑی سے وقت بتانے کے اہل نہیں، 36فی صد کو معلوم ہی نہیں کہ ملک کا دارالحکومت کہاں ہے اور 62فی صد کا حال یہ ہے کہ خریداری کے وقت قیمت خریدپر دس فی صد چھوٹ کا حساب نہیں لگا سکتے۔اور پھر روزگار کا منظر تو ڈراونا ہے۔
ہندوستان ٹائمز سے وابستہ خاتون صحافی سنیگدا پونم کی کتابDreamers: How Young Indian are Changing The World کے مطابق بھارت کو ہر ماہ دس لاکھ نئی نوکریاں واگذار کرنے کی حاجت ہے، لیکن ابھی تک صرف ساڑھے تین لاکھ سے چار لاکھ تک نوکریاں فراہم کی جارہی ہیں۔گزشتہ چار برس کے دوران ہر سال پیڑولیم کی مصنوعات پر محصولات کے طور پرحکومت نے ساڑھے چار لاکھ کروڑ روپے کمالئے، ایک تو اس پیسے کا حساب نہیں دوم یہ کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں۔اور یہ سب ایسے وقت ہورہا ہے جب 195ملکوں کے صحت عامہ کی رینکنگ میں بھارت کا نمبر145یعنی سری لنکا اور پاکستان سے بھی نیچے ہے۔پریس کی آزادی سے متعلق 180ممالک کے انڈیکس میں بھارت کا درجہ 177ہے اور دوسری طرف ملک کے غیرفعال بینک کھاتوں(NPA)کا حجم اڑھائی لاکھ کروڑ تھا جبکہ 2017میں یہ حجم ساڑھے نولاکھ کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق بھارت کی آبادی میں 2050تک 50کروڑ نفوس کا اضافہ ہوگا، جس میں اکثریت نوجوانوں کی ہوگی۔اس طرح اُسوقت بھارت عالمی آبادی کا ایک چوتھائی ہوگا۔آبادی میں اس اضافہ کی وجہ تیزرفتار شہرکاری اور ہر سال جاب مارکیٹ میں قدم رکھنے والے کروڑوں نوجوانوں کو بتایا جارہا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق بھارت میں فی الوقت شہرکاری اور آبادی میں اضافہ کی رفتار روزگار کے وسائل کی پیداوار سے تشویشناک حد تک زیادہ ہے، جسکا مطلب ہے ہر سال کروڑوں بے روزگار بھارت کے جاب مارکیٹ میں دھکے کھارہے ہونگے۔سنگدا پونم کے مطابق اب نوجوان سرکاری نوکریوں کو بنیادی وسیلۂ روزگار سمجھنے لگے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس صرف 350اسامیوں کے لئے 23لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں، لیکن پچھلے بیس سال کے دوران سرکاری محکموں میں نوکریوں کا امکان حد درجہ گھٹ گیا ہے۔تربیت اور Skill Development کا حال یہ ہے کہ ایک امریکی ادارے کے مطابق گزشتہ برس ڈیڑھ لاکھ انجینئرنگ طالب علموں کو مختلف اداروں میں کھپا دیا گیا لیکن اِن میں سے مناسب اور مطلوب ہنر کے اہل صرف 20فی صد تھے جبکہ 13000انجینئر لائق کار نہیں تھے۔
ہم یہاں خارجہ پالیسی یا ملٹری قوت کا تجزیہ نہیں کریں گے کیونکہ وہ الگ موضوع ہے۔اس قدر ہیبت ناک معاشی صورتحال کے بیچ مودی سرکار نے ممبئی میں شیواجی کا دیوہیکل مجسمہ تعمیر کیا جس میں 2500کروڑ روپے کا سرمایہ خرچ کیا گیا، اسی طرح گجرات میں سردار پٹیل کے مجسمہ پر 3000کروڑ روپے کا مصرف ہوا۔مودی حکومت نے چار سال کے دوران اشتہارات اور پبلسٹی پر 4343کروڑ روپے کی رقم خرچ کرڈالی ہے۔مودی کے اس چار سالہ سرسری رپورٹ کارڈ سے بی جے پی کے حریف بہت خوش ہونگے۔ لیکن یہ مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے لئے اچھی خبر نہیں ہے۔سیاسیات اور عمرانیات کے ماہرین کا عالمی سطح پر اجماع ہے کہ عوام بے روزگاری، غربت اور اعلیٰ تعلیم کے باوجود مناسب مواقع کی عدم فراہمی کے بھنور میں جب خود کو بے پس پاتے ہیں تو اُن کی توجہ شناخت کی طرف مبذول کرنا بے حد آسان ہوجاتا ہے۔بھارت میں جس طرح کا ماحول سالہاسال سے تیار کیا جارہا ہے خاص طور پر شناخت کے رجحان کو جس طرح گزشتہ چار سال کے دوران ہوا دی گئی ہے، وہ گویا فرقہ واریت کے ایک ہولناک اور خونین دور کے لئے زمین کی ہمواری ہے۔
ظاہر ہے جب جنگ عظیم اول کے بعد جرمنی معاشی بدحالی سے دوچار ہوا تو ہٹلر کا عروج معیشت ٹھیک کرنے کے نعرے پر نہیں بلکہ شناخت اورنسل پرستی کی پکار پر ہوا۔ذرا سوچئے اگرمودی کے وِکاس کا نعرہ پِٹ گیا تو کیا ہوگا؟ ۔کیایہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا کہ بھارت کی غالب اکثریت کو اچھے دنوں کا خواب دکھا کر بہکایا جائے اور جب وہ فرسٹریٹ ہوجائیں تو ان کی توانائی فرقہ واریت کی طرف موڑ دی جائے؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں ، تاہم یہ طے ہے کہ اگر مودی کی ترقی کا خواب ایک سراب نکلا تو فرقہ واریت اور نسل پرستی کا بھیانک سیلاب آسکتا ہے جس کی خشمناک موجیں کشمیر کو بھی متاثر کریں گی۔
( بشکریہ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)