سرینگر// مرکزی زیرانتظام علاقہ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے اپنے گفتگو میں ٹھیٹ ہندی زبان کے بجائے اردو زبان کے الفاظ کا استعمال کرنا شروع کیا ہے۔انہوں نے ہفتے کو راج بھون میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنے خطاب میں نہ صرف آسان ہندی زبان کا استعمال کیا بلکہ اپنے خطاب کا آغاز بھی اردو زبان کے ایک شعر سے کیا اور اختتام بھی اردو زبان کے ہی ایک شعر سے کیا۔ منوج سنہا نے پریس کانفرنس کا آغاز بشیر بدر کے شعر،’’'ہم بھی دریا ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے۔۔۔جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہو جائے گا‘‘ جبکہ اختتام،’’بہت لمبا ہے سفر ابھی بہت دور جانا ہے۔۔۔۔ گر چلتے رہے تو پاس ہی منزل کا ٹھکانہ ہے‘‘ سے کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اردو زبان کے الفاظ کا بھی اچھا خاصا استعمال کیا جس سے صحافیوں کو ان کا خطاب سمجھنے میں کوئی دقت در پیش نہیں آئی۔قابل ذکر ہے کہ 14 ستمبر کو یہاں راج بھون میں ہی جب ایک نامہ نگار نے تجویز دی تھی کہ کشمیر جیسے خطے، جس میں لوگ اردو بہ آسانی سمجھ لیتے ہیں اور ہندی سے بالکل نابلد ہیں، میں ٹھیٹھ ہندی زبان کا استعمال نہ کیا جائے تو موصوف کا جواب تھا کہ وہ اردو سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا،’’میں اردو سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ہندی کے الفاظ کا استعمال کرنے پر میں معذرت چاہتا ہوں۔ زیادہ غلط اردو بولوں گا تو وہ بھی صحیح نہیں ہے‘‘۔مرکزی حکومت نے حال ہی میں جموں و کشمیر میں ہندی، ڈوگری، کشمیری اور انگریزی زبانوں کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دیا۔ اس سے قبل اردو کو کم از کم 130 برس سے یہاں کی واحد سرکاری زبان ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔