گزشتہ کچھ برسوں سے ہم اچانک سُنتے ہیں کہ کوئی نوجوان یا جواں سال شخص اچانک مر گیا۔ اکثر اوقات موت کی وجہ ہارٹ اٹیک بتائی جاتی ہے۔افسوس کے کلمات کے بعد یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ کشمیر کی فضاؤں میں اس قدر تناؤ ہے کہ اب ہٹے کٹے جواں مرد بھی الل ٹپ دم توڑ دیتے ہیں۔پچھلے دو ہفتوں کے دوران وادی کے مختلف علاقوں میں ایسی دس اموات ہوئیں۔ان اموات کو مخصوص حالات کے ماتھے پر تھوپ کر ہم غم ہائے روزگار میں محو ہوجاتے ہیں جب تک ایسا ہی کوئی نیا واقع رونما نہیں ہوتا۔ میں نے اس بارے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر ارشد حسین سے استفسار کیا تواُن کے جواب سے میرے پاؤں تلے زمین کھسک گئی۔
ڈاکٹر ارشد کاکہنا ہے کہ کشمیر میں منشیات کا گراف گزشتہ تین سال میں15فی صد سے 90فی صد تک پہنچ چکا ہے اور اس کا شکار 16سے 46سال کی عمر کے کشمیری ہورہے ہیں۔تشویشناک پہلو یہ ہے کہ وادی کے نوجوان اب افیم، چرس ، گانجا، ہیروئین اور نہ جانے کن کن کیمیات کا نشہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ منشیات کی لت میں غرق نوجوان بظاہر اچھے بھلے دکھتے ہیں، کام کاج کرتے ہیں، ان کے بیوی بچے بھی ہوتے ہیں اور گھر میں ان کا رویہ بھی نارمل ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار وہ نشیلی اشیاء کا بھاری مقدار میں استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے دماغ کی نس پھٹ جاتی ہے اور وہ کبھی بھی دم توڑ دیتے ہیں۔اس مہلک رجحان سے متعلق سماج میں کسی طرح کی کوئی سنسنی نہیں پائی جاتی۔ میرواعظ عمر فاروق نے حالیہ دنوں اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا، لیکن یہ جان لیوا لہر وادی کے سیاسی یا سماجی بیانیہ کا حصہ نہیں بن پائی ہے۔ حکومتی سطح پر اس حوالے سے نمائشی تقاریب ہوتی ہیں، لیکن وادی کے حساس حلقوں کو اس باپت ہنگامی بنیادوں پر سوچ بچار کرنا ہوگا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جغرافیائی طور پر کشمیر منشیات کے عالمی مارکیٹ کی راہداری ہے۔ڈاکٹر ارشد کہتے ہیں: ’’1980کی دہائی میں ہمارے یہاں سے ہی چرس، گانجا اور افیم پوری دنیا تک پہنچتی تھی۔ ہم نے پوری دنیا کو منشیات چٹکائیں، لیکن ہمارے یہاں دس سال میں صرف دس افراد ہسپتال میں داخل ہوئے۔ ‘‘ اس حقیقت کا موجودہ صورتحال کے ساتھ موازنہ کریں تو لگتا ہے کہ ہم منشیات کے آتش فشاں پر بیٹھے ہیں جو کبھی بھی پھٹ جائے گا اور ہماری نوجوان نسل کو بھسم کرجائے گا۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟
ماہرین کہتے ہیں کہ جوانی کے دور میں ہر انسان فطری طور پر کوئی نہ کوئی ایڈونچر چاہتا ہے۔ کچھ کر گزرنے کی اس بھوک کو کھیل کود، مسابقتی امتحانات، تخلیقی مصروفیت یا سماجی ایکٹوازم کے ذریعہ تسکین ملتی ہے۔ لیکن زندگی جب متعدد مسائل سے عبارت ہو تو کچھ لوگ خود کو بھول کر اپنے آس پاس ایک مصنوعی دنیا دیکھنا چاہتے ہیں جس میں سب کچھ پرفیکٹ ہو۔یہیں سے ایک نوجوان کا رُخ منشیات کی طرف مڑتا ہے۔ اس میں والدین اور بچوں کے درمیان خلیج بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ اب چونکہ خاوند اور بیوی دونوں نوکری یا کاروبار میں مصروف ہوتے ہیں، بچوں کے ساتھ بیٹھ کر اُن کے غم اور خوشی بانٹنے کیلئے ان کے پاس وقت ہی نہیں۔نیز کسی تکلف یا تأمل کے بغیر ہم بچوں سے بات بھی نہیں کرتے، کجا کہ انہیں سن بلوغ کے مسائل، ماہواری یا منشیات کے خطرات کے بارے میں آگاہ کریں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جب کوئی ڈرگ ایڈِکٹ انتقال کرتا ہے تو اُس کے والدین منت سماجت کرتے ہیں کہ موت کی وجہ افشاء نہ کی جائے۔
کوئی بھی ڈرگ ایڈِکٹ مجرم نہیں بلکہ متاثر یعنی وِکٹم ہوتا ہے اور وِکٹم کے تئیں سماج کا رویہ ہمدردانہ ، مصلحانہ اور مشفقانہ ہونا چاہیے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کسی کے بارے میں یہ عیاں ہوجائے کہ وہ منشیا ت کا عادی ہے ، اگر اُس کے ساتھ بات کرکے اسے بتایا جائے کہ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں بلکہ وہ ایک متاثر ہے جسے رہبری کی ضرورت ہے تو پچاس فی صد کیسوں میں متاثرین اس لت سے پیچھا چھڑانے پر آمادہ بھی ہوجاتے ہیں۔
حکومت نے Drug Deaddiction Policy تو ترتیب دی ہے، لیکن اس سلسلے میں کام عوامی سطح پر ہی ہوسکتا ہے۔ اکثر حلقے اس لت کو مذہب سے دُوری کا نتیجہ کہتے ہیں اور اس کا علاج بھی بے جا وعظ و پند سے کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ مذہب سے قربت انسان کو فاحشات اور منکرات سے دُور رکھتی ہے، لیکن جو متاثر ہوچکا ہو وہ بھاری بھرکم وعظ سے چڑ جاتا ہے۔ یہ معاملہ نفسیات کا ہے اور اس کو علم نفسیات کے اصولوں سے نمٹا جائے تو بات بنے گی۔جب ہمارے وعظ و تبلیغ کا پہلا ہدف ہی نوجوان نسل ہو اور ہم نے بولنے سے پہلے ہی یہ فتوہ دے رکھا ہو کہ نوجوان نسل بے راہ رو ہے، تو متاثرین کے ساتھ وعظ کی سطح پر کمیونکیٹ کرنا قدرے مشکل لگتا ہے۔اول تو والدین کا کردار کلیدی ہے، اور اس کے ساتھ اساتذہ کا۔ نوجوان سپیس چاہتے ہیں، فرینک بات چیت چاہتے ہیں۔ بچے کا تجسسس پسند ہونا فطری ہے، وہ ہر طرح کے رجحان کے بارے میں جاننا چاہتا ہے، اُسے یہ جانکاری فرینک ماحول میں دیجئے۔ اگر آپ نے کسی چیز کو ’’غلط‘‘ یا ’’گندی‘‘ کہہ کر بچے کا استفسار ٹال دیا تو جان لیجئے کہ وہ اُسے عملی طور پر جان جائے گا۔
ایک صاحب نے مجھے اپنے بچپن کا قصہ سنایا۔ کہا جب وہ سکول ایام کے دوران تین روز تک سمر کیمپ پر گئے تو وہاں انہیں ایک دوست نے سگریٹ تھما دی اور کہا کہ لے لو دو چار کش۔ انہوں نے یہ پیشکش ٹھکرا دی تاہم ان کے بعض دوستوں نے قبول کرلی۔ آج وہ سگریٹ نہیں پیتے ، لیکن اُن کے جن دوستوں نے وہ پیشکش قبول کی تھی وہ عمر بھر کے لئے سموکر بن گئے۔ ان کا بیٹا نویں جماعت میں ہے۔ بیٹے نے جب کہا کہ سمر کیمپ پر جانا ہے تو انہوں نے اپنا وہی قصہ اُسے سنایا اور کہا کہ پکنک پر پیشکش قبول کرلی تو زندگی بھر پیچھا نہیں چھوٹے گا۔ بیٹا واپس لوٹا تو باپ سے کہنے لگا کہ واقعی ایک لڑکے نے چرس سے بھرا سگریٹ تھمایا تھا، مگر میں نے انکار کردیا۔ کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ بچوں کے ساتھ بات کیجئے تو منشیات کی وبا کے خلاف جنگ کے پہلے محاذ پرجیت کشمیر کی ہی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ ہفت روز ہ نوائے جہلم سرینگر‘‘