پوری دنیا سمیت جموںوکشمیر میں کورونا وائرس کے خونی پنجوں نے جب نوع انسانی کو اپنے شکنجے میں کسا ہے ،ایسے جاں گسل حالات میں مفاد پرستوں کا ایک ایسا ٹولہ حد سے زیادہ سرگرم ہوچکا ہے جو ان مخدوش اور نامساعد حالات کی آڑ میں انسانوں کو زہر بیچ کر اپنا الو سیدھا کرنے میں لگا ہوا ہے ۔بات منشیات کی چل رہی ہے ۔گزشتہ چند ہفتوں سے جس طرح ہر روز جموںوکشمیر کے کم وبیش سبھی علاقوں سے منشیات فروشوں کو گرفتار کرکے ان کے قبضہ سے بھاری مقدار میں نشہ آور ادویات ،چرس ،بھنگ ،افیون برآمد کرنے کی خبریں سامنے آرہی ہیں،اُن سے انسان دھنگ رہ جاتا ہے۔
ایک وقت جب جموں وکشمیر خاص کر وادیٔ کشمیر کے حوالے سے یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ کشمیری سماج اس خجالت سے مکمل طور ناآشناہے بلکہ یہاں تمبا کو کو چھوڑ کر دیگر انواع کے نشوں کے بارے میں سوچنا اور بات کرنا بھی گناہ عظیم تصور کیاجاتا تھا تاہم اب وہ صورتحال نہیں رہی ہے۔چینیوں کو تو اس لت سے نجات مل گئی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر اس دلدل میں پھنستے ہی جارہا ہے اور یہاں ہرگزرنے والے سال کے ساتھ ساتھ نہ صرف منشیات کا کاروبار فروغ پاجارہا ہے بلکہ منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔ 1980 میں 9.5 فیصد آبادی افیم او ر اس سے وابستہ اشیاء کا نشہ کرتی تھی، لیکن 2002 تک منشیات سے نجات حاصل کرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 73.1 فیصد ہوگئی ہے۔ 1980 کے دوران تک ہیروئن اور دوسری سخت نشہ آو ر چیزیں ممبئی سے آ یا کرتی تھیں، لیکن 1990 کے بعد جموںوکشمیر ہیروئن اور اس سے وابستہ اشیاء کی اسمگلنگ کا بین الاقوامی ٹرانزٹ پوائنٹ بن چکا ہے ۔
منشیات کی وباء بڑی تیز رفتاری سے آج کل کی نئی پود میں پھیل رہی ہے۔ اس بارے میں آئے روز دل کو مجروح کرنے والی خبریں گشت کرتی ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ پولیس اور دیگر ایجنسیاں اس وباء کو روکنے میں مکمل طور ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ اعلیٰ پولیس حکام خودمیاں مٹھو بن کرجرم اور منشیات کے خلاف پولیس کے کردار کو سراہتے رہتے ہیں حالانکہ حقائق کچھ اور ہی ظاہر کرتے ہیں۔باایں ہمہ اگر پولیس پوری سرگرمی او رتندہی کے ساتھ اس قبیح بدعت کے خلاف صف آراء ہوتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جموںوکشمیر میں منشیات کے بڑھتے ہوئے ناپاک قدم فوراً رک جائیں اور وہ انسان دشمن ایجنسیاں بے مثل و مرام ہو کراپنا شیطانی قافلہ واپس موڑ لیں جو منشیات کی ہلاکت آفرینیوں کو پھیلاتاہے تاکہ ایک تیردو شکار کے مصداق ان کی حرام کاریاں بھی چلتی رہیں اور دوسرے اُن قوتوں سے دادتحسین حاصل کریں جو اخلاقی بے روی روی کے آتش کدے اور منشیات کے تیزاب کو یہ اُلٹامعنی پہناتے ہیںکہ کشمیر میں نارملسی آگئی ہے اور یہاں چین کی بانسری بج رہی ہے۔بہرصورت اگر نشہ بازی کا بروقت اور موثر انداز میں قلع قمع نہ کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب خدانخواستہ روحانی اور مذہبی اقدار کی دلدادہ کہلانے والی کشمیری سوسائٹی ایک بدترین اخلاقی بحران کے نذر ہو کر رہ جائے۔ مغرب ہو یا مشرق منشیات کا چلن سماج کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر کے چھوڑتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سب کچھ سرکاری حکام کی ناک کے نیچے کیسے ہوتا ہے؟ بھنگ، پاپی اور ایسی دوسری نشہ آور فصلیں این ڈی پی ایس ایکٹ، 1985 کی دفعہ 18 کے تحت ایک قابل سزا جرم ہے اور اس کے لیے مجرم کو 10 سال قید با مشقت اور ایک لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ایسی منشیات کو خریدنا اور فروخت کرنا بھی اس قانون کی دفعہ 15 کے تحت جرم ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعے پاس کیے گئے اس قانون کو ریاستی حکومتیں اپنی زمینی حقائق کی بنیاد پر نافذ کرتی ہیں۔ اگرچہ اس قانو ن کی دفعہ 10 تمام حکومتوں کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ افیم، پاپی کے پودوں اور دوائوں میں استعمال ہونے والی افیم اور بھنگ کی کھیتی کی بین الریاستی حرکت پر روک لگا سکتے اور اسے ضبط کر سکتے ہیں تاہم عملی طور ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے بلکہ اگر حق گوئی سے کام لیاجائے تو حکومتی سطح پر صرف کاغذے گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں جبکہ عملی سطح پر کچھ کام نہیں ہورہا ہے جس کے نتیجہ میں ہماری نوجوان نسل اس دلدل میں پھنستی ہی چلی جارہی ہے اور اگر یہی رجحان جاری رہا تو کشمیری سماج کے مستقبل کے بارے میں کچھ وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔
اگر افیون زدہ چینی قوم اس خجالت سے نجات پاسکتی ہے توماضی قریب تک اس لعنت سے نامانوس کشمیری قوم کیوں نشے کے سمندر میں غرق ہوتی جارہی ہے،یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا ارباب حل و عقد اور اہل دانش کو دینا پڑے گاوگرنہ یہی کہاجائے گا کہ ارباب اختیار کشمیریوں کی بربادی کا تماشا دیکھنے پر تلے ہوئے ہیں جو کسی صدمہ عظیم سے کم نہ ہوگا۔