سرینگر // صدر ہسپتال سرینگر میں قائم انسداد منشیات مرکز میں ایسے مریضوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کیساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو نشے کے عادی ہیں ۔انسداد منشیات مرکز کے معالجین کا کہنا ہے کہ اگر منشیات پر روک نہ لگائی گئی تو نہ جانے کتنی زندگیاں ضائع ہوں گی کیونکہ نوجوان نسل اس میں غرق ہو رہی ہے ۔ حال ہی میں حکومت نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جموں وکشمیر میں 6لاکھ افراد منشیات کے عادی ہیں جو اس کی ایک کروڑ 36لاکھ 50ہزار آبادی کا تقریباً 4.6فیصد ہے اور منشیات کا استعمال کرنے والوں میں 90فیصد 17سے35سال کی عمر کے نوجوان ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں گذشتہ 6برسوں کے دوران ہیروئن اور برائون شوگر کا نشہ کرنے والوں کی تعداد میں 85فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ نیشنل انسٹی چوٹ آف مینٹل ہیلتھ ونیرو سائنس کے ایسوسیٹ پروفیسر ڈاکٹر یاسر راتھر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ منشیات ہمارے نوجوانوں کو کھا رہی ہے اور نوجوان بنا کسی خوف کے اس کا استعمال کر رہے ہیں ۔یاسر کے مطابق ہسپتالوں میں ایسے مریضوں کا رش بڑھ رہا ہے، جو اس لت میں مبتلا ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آج سے 6سال قبل 100لوگ سال میں علاج ومعالجہ کیلئے آتے تھے لیکن گذشتہ سال صدر ہسپتال کے انسداد منشیات مرکز میں 8000لوگوں کا علاج ومعالجہ کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ کئی سال قبل دن میں 6سے8افراد ہسپتال میں علاج ومعالجہ کیلئے آتے تھے لیکن اب دن میں 50سے60ایسے مریض آتے ہیں جو نشے کے عادی ہوتے ہیں اور ان 50میں 40ایسے ہوتے ہیں جو ہیروئن اور برائون شگر کا استعمال کرتے ہیں ۔ڈاکٹر راتھر نے کہا کہ انسٹی چوٹ نے حال ہی میں ایک سروے کی تھی جس میں نشہ کرنے والے افراد میں سے 60فیصد نوجوانوں کی تعلیمی قابلیت 10+2تھی جبکہ 20فیصد گریجویٹ اور 10فیصد پوسٹ گریجویٹ بھی شامل ہیں۔ڈاکٹر یاسر نے کہا کہ اس کا استعمال زیادہ تر انجکشن کے ذریعے ہو رہا ہے اور اس سے ایڈس اور ہپاٹاٹس سی نامی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسے مریضوںکا علاج کرنا کافی مشکل بن جاتا ہے کیونکہ ان کو پسینہ آتا ہے جسم میں درد محسوس ہوتا ہے ، مرگی آنے لگتی ہے کیونکہ ان کو اس کی طلب رہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک تو مریض کو دوائیوں سے ٹھیک کیا جاتا ہے اور دوسرا ان کی کونسلنگ کی جاتی ہے اور اس سے ان کے اعتماد میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے عادی نوجوانوں کو ایسی ادویات دی جاتی ہیں جس سے انہیں نشہ کی طلب نہیں رہتی اور یہ دوائی انہیں ایک سال تک دی جاتی ہے ۔