پیٹرسن سیدھا کنٹین میں پہنچا اپنی مخصوص ٹیبل کی طرف دیکھا۔ اس کے سارے دوست وہاں بیٹھے تھے۔ بھاپ اُڑا رہی چائے ان کے سامنے رکھی تھی۔ آج کسی کے بھی چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی۔ سب کے چہرے اترے ہوئے تھے ۔ وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا دوستوں کی طرف بڑھتاگیا۔ آج اسے دیکھ کے کوئی کھڑا نہیں ہوا۔ کسی نے اسے خوش آمدید بھی نہیں کہا۔ وہ خاموشی سے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ سبھی اس کی طرف غمگین نگاہوں سے دیکھ رہے تھے لیکن کوئی کچھ بولا نہیں تھا۔ راکا نے چائے کی کیتلی اس کی طرف بڑھائی ۔ اس نے کیتلی اٹھا کر اپنے لئے چائے بنا ئی۔ جیب سے شوگر فری ٹکی نکالی اور اپنے کپ میں ڈال دی ۔ سبھی خاموش تھے۔ سر جھکائے ۔ کوئی آہستہ آہستہ چائے کی چسکی لے رہاتھا تو کوئی کپ پر نظریں گاڑھے بیٹھا تھا۔ آخر پیٹرسن نے کھنکار کر سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ سبھی دوست حیرانی سے اس کے چہرے کو تکنے لگے۔ لیکن سبھی کے چہروں پر تشویش ابھی بھی موجود تھی ۔۔۔
’’ ایسا بھی کیا ۔ اتنی خاموشی۔ ‘‘
’’ کچھ بولنے کے لئے کیاہے ہمارے پاس ۔۔۔ تمہارے پاس۔یا کسی اورکے پاس ‘‘ ڈیوڈ نے پلک جھپکائے بغیر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ لیکن یار ۔۔۔۔‘‘
’’ کیا تمیں یہ کوئی سانحہ ہی نہیں لگتا ہے ۔ اتنا بڑاواقعہ ۔۔۔ ‘‘ راکا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ پھر خود ہی سر ہلاکر رہ گیا اور چائے کا کپ ہونٹوں سے لگادیا ۔
’’ ایسی کیا بات ہے یار ۔ میں بھی اتنے بڑے حادثے سے کہاں بچا ۔ میرے دور کے چاچا کی بیٹی بھی اس میں جاں بحق ہوگئی ہے۔ ہمارے گھر میں بھی دو دن سوگ رہا ۔‘‘
’’ یہ کوئی حادثہ تھوڑی ہے۔ دہشت گردانہ حملہ ہے۔ ایک ساتھ اتنا بڑا حملہ ۔ پنٹاگن میں ہزاروں لوگ شہید ہوگئے۔ ابھی ساری لاشیں نکالی بھی نہیں گئی۔ نقصان کتنا ہوگیا ۔ابھی اس کا تخمینہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ۔ــ‘‘ ڈیوڈ بولا
’’ اتنا بڑا دہشت گردانہ حملہ ۔ وہ بھی ہمارے ملک پر ۔۔۔ ہمارا ملک جو سب کا باپ ہے۔ کسی کو بھی ایسے ایسے چٹکی میں ڈھیر کرسکتے ہیں۔ ہم پر بھی ایسا حملہ ۔۔۔ ناممکن ۔۔۔ ناممکن لگ رہا ہے ابھی بھی مجھے ۔‘‘ راکا چٹکی بجاتے دکھا رہا تھا
’’ اس دہشت گردانہ حملے میں جو نقصان ہوا ہے ۔ اس کا مجھے بھی بہت دکھ ہے ۔ پر ۔۔۔‘‘
’’ پر ۔۔۔۔ پر کیا ؟ جو وہاں مارے گئے وہ ہمارے ملک کے لوگ نہیں تھے۔؟؟ ہماری قوم کے لوگ نہیں تھے؟؟؟ ‘‘ پیٹرسن کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن راکا نے اس کی بات آدھے سے ہی چھین لی
’’ میرا مطلب ہے۔ یہ سب تو ساری دنیا میں روز ہورہا ہے۔ پھر کیا زندگی نہیں چلتی ۔ ہم کب تک سوگ مناتے بیٹھیں گے۔ ‘‘
’’ کیا مطلب ہے تمہارا ۔ کیا ہم اپنے دکھ کا اظہار بھی نہیں کرسکتے ۔ ‘‘ رومیو نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔ جو بڑی دیر سے خاموشی کے ساتھ اپنے چائے کے کپ پر نظریں گاڑھے بیٹھا تھا جیسے چائے کے کپ سے جہاز ابھر کر آنے والا ہو۔ ۔۔
’’ دکھ کا اظہار کرنا الگ بات ہے اور دکھ منانا الگ بات ۔۔۔‘‘
’’ کیا فلسفہ مارا ہے ۔۔۔ دکھ کا اظہار کرنا الگ بات ہے اور دکھ منانا الگ بات ۔ اس کا مطلب بھی بتا دیں گے آپ مسٹر پیٹرسن ‘‘ راکا نے کچھ کچھ برہمی سے کہا۔ باقی لوگ بھی جواب طلب نظروں سے پیٹر سن کی طرف دیکھ رہے تھے ۔
’’ مطلب ۔۔۔۔ مطلب تو کوئی بھی نہیں میری بات کا ۔ بس ہم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جو کچھ شئیر کرتے ہیں یا دوستوں کے ساتھ بانٹ لیتے ہیں وہ الگ ہوتا ہے۔مطلب کہنے کی بات کوئی اور ہوتی ہے اور جو ہم کرتے ہیں اسے کہنے کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں ہوتی ہے ۔۔۔ یعنی ی ی۔۔۔ یہ کہو کہ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہیــ‘‘ پیٹرسن کہتے کہتے خودبھی الجھ رہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔
ـ’’ جیسے ۔۔۔ ‘‘ ڈیوڈ نے تُکا مار دیا ۔
’’ ہاااااں ۔۔۔ جیسے تم ۔۔۔ خیر ۔۔۔ تم بتائو راکا ۔ کل تم نہیں ملے ۔ کیا کررہے تھے تم ۔
’’ کل چھٹی کا اعلان کیا گیا تو مجھے لاسٹ سنڈے کو بیٹے کا یونیفارم لینا مس ہوگیاتھا۔ کل ہم دونوں میاں بیوی مارکیٹ گئے اوربیٹے کا یونیفارم‘‘
’’ لنچ کہاں کیا ۔۔۔‘‘ پیٹرسن نے راکا کی بات کاٹ کر کہا
’’ لنچ ہم نے پیراڈائذ ریسٹورانٹ میں کیا۔ دراصل بہت دنوں سے ہمیں باہر کھانا کھانے کا موقعہ نہیں ملا تھا تو کل وہ بھی ہوگیا۔‘‘
’’ رومیو۔ تم بھی تو نہیں ملے کل ۔ کہاں گئے تھے تم ۔ ‘‘
’’ وہ کل ۔۔۔ یار میری گرل فرنڈ سے فکس تھا۔ وہ مس تو نہیں کر سکتے تھے نا۔ کل تو پورا دن انجیوائے کیا ۔ ‘‘
’’ اور ڈیوڈ ۔ تم ۔۔‘‘
’’ یار ۔۔۔ میں اس حادثے سے پہلے ہی بیوی کے ساتھ فارم ہاوس چلاگیا تھا۔ دراصل جب ہمارے بچے گھر آجاتے ہیں تو ۔۔۔ یو و نو ۔ گھر میں ۔۔۔۔ تم سمجھ گئے نا میری بات ۔ تو ہم میاں بیوی فارم ہاوس چلے جاتے ہیں ۔۔۔‘‘ ڈیوڑ نے مسکرا کر اور آنکھ دباکر کہا ۔ سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’ اچھا جس دن یہ خوفناک حملہ ہوا ۔ اس رات تم نے بھابی کے ساتھ کتنی بار پیار کیا۔‘‘
’’ ارے وہ پوچھو ہی مت۔ فارم ہاوس جانے کا مطلب ہی تو ہوتا ہے ۔ پیار ہی پیار ۔۔۔ مزا آجاتا ہے یار ۔۔۔‘‘ ڈیوڑ مزہ لے لے کر اپنی کہانی سنانے لگا۔ اور سبھی لوگ مزہ لے لے کر سن بھی رہے تھے۔
’’ اچھا پتا ہے ۔ میں اپنی بات بتاتا ہوں ۔ جب کبھی کوئی خوف یا ڈر مجھ پر حملہ کرتا ہے تو مجھے بار بار باتھ روم جانے کی ضرورت پڑتی ہے ۔‘‘ پیٹرسن نے بڑی معصومیت سے کہا ۔ اور سبھی لوگ زور زور سے ہنسنے لگے۔
’’ اور مجھے بیوی کی ۔۔۔‘‘ ڈیوڈ نے زور دار قہقہہ مارا اور سبھی لوگ اس کی ہنسی میں شامل ہوگئے ۔ سب قہقہے پر قہقہے مارتے رہے۔
پھر چائے کے کئی دور چلے ۔مخدوش حالات سے فرار اور رلیکس ہونے کے لئے کسی صحت افزا مقام پر جانے کا پروگرام بنا۔ وہاں پر ہی کسی اچھے ریسٹورانٹ میںلنچ کا بھی بندوبست کرایا گیا۔۔۔
اور اتنا بڑا سانحہ کسی کو یاد بھی نہیں رہا ۔۔۔
رابطہ؛اسلام آباد اننت ناگ، موبائل نمبر؛9419734234