حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اور ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار حج لازمی قرار دیا گیا ہے اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں فرزندان توحید اس فریضے کی ادائیگی کے لیے مسلمانوں کے مقدس ترین شہر مکہ پہنچتے ہیں۔
حج کیا ہے؟
حج دراصل 8 ذوالحجہ سے 12 ذوالحجہ تک مکہ مکرمہ میں کی جانے والی مخصوص عبادات ومناجات کے مجموعے کا نام ہے جس میں احرام باندھنا، طواف کعبہ، سعی کرنا، شیطان کو کنکریاں مارنا ، منٰی میں خطبہ سننا، عرفات میں قیام شامل ہے ۔ مزیدبرآں مدینہ میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر باادب حاضری ایک اتنی بڑی سعادت ہے جس سے کوئی اُمتی محروم ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
حج کی فرضیت
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ اس میں کھلی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پالیا اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہلِ عالم سے بے نیاز ہے۔(آل عمران:۹۷ )
مناسک حج سے متعلق حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ (i) اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں (ii) نماز قائم کرنا (iii ) زکوٰۃ ادا کرنا (v i) رمضان کے روزے رکھنا اور (v ) حج ادا کرنا۔
مناسک حج:
حج کے دوران کی جانے والی عبادتوں کو مناسک حج کا کہا جاتا ہے جن کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اور کسی رکن حج کی عدم ادائیگی پر دم بھی واجب ہوجاتا ہے۔
منیٰ:
منیٰ خیموں پر مشتمل شہر کانام ہے جہاں آٹھ ذوالحجہ کو حاجی پہنچتے ہیں اور سِنتِ رسول آخر الزماں جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وا صحابہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے یہاں قیام کریں گے اور عہد نبوی ؐکی یاد تازہ کریں گے۔
عرفات :
نو ذوالحجہ کو توحید کے پروانے اللہ کی کبریائی بلند کرتے ہوئے عرفات کے میدان پہنچتے ہیں جہاں مسجد نمرہ میں خطبہ دیا جاتا ہے اور حاجی عرفات کے میدان میں یہ خطبہ سنتے ہیں جس کے بعد حاجی نماز ظہر اور نماز عصر مشترکہ طور پر ادا کی جاتی ہے اور پورا دن اللہ کے ذکر و عبادت میں گزارتے ہیں۔یہ حج کا لازمی رکن ہے جس کی عدم ادائیگی پر حج مکمل نہیں ہوتا۔
مزدلفہ:
مزدلفہ میں حاجی صاحبان ایک ساتھ نماز مغرب اور نماز عشاء ایک ساتھ ادا کر جاتے ہیں اور تمام رات یہی قیام کرتے ہیں، دعا، عبادت، آہ وزاری ، توبہ واستغفار کرتے ہیں اور پھر تین دن تک شیطان کو ماری جانے والی کنکریاں جمع کر تے ہیں۔ عازمین ِ حج مزدلفہ میں آسمان کی چھت کے نیچے فرش زمین پر ہی سوجاتے ہیں۔ بعد ازاں دس ذوالحجہ کو ایک شیطان کو کنکریاں مارنے اور سر منڈھوانے کے بعد حاجی قربانی کا جانور ذبح کرتے ہیں۔
جمرات:
اس مقام پر تین شیطانوں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ یہ بھی حج کا لازمی رکن ہے جس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔ یہ رُکنِ حج حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے شیطانوں کو کنکریاں مارنے سے ادا ہو تاہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اللہ کے حکم پر اپنے پیارے صاحبزادے جناب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے جا رہے تھے تو تین مقامات پر انہیں شیطان مردود نے مختلف بھیس بدلتے ہوئے بہکانے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے بیٹے کی قربانی نہ دے کر نعوذبا للہ حکم عدولی کریںلیکن ہر بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شیطان کو کنکری مار کر بھگا دیا تھا۔ بعد ازاں جن مقامات پر شیطان نے جناب ابراہیم کو بہکانے کی کوشش کی تھی وہاں ستون نما چیز بنا دی گئی ہے جسے بحکم اللہ حاجی کنکریاں مارتے ہیں۔