اگر ہمیں ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرانا ہے تو اس کے لیے تعلیمی ماہرین کی نگہداشت میں تجارتی شعبے کے ساتھ اور سیاسی جوابدہی کے ساتھ ایک نئی حکمت عملی وضع کرنا چاہیے۔حالیہ عرصے میں جہاں کورونا وبا نے مختلف شعبہ جات پر گہرے اور مضمر اثرات چھوڑے ہیں، ان سے کسی حد تک نپٹا جاسکتا ہے، لیکن ایک خاص شعبے پر اس کے مضر اثرات سے نپٹنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ شعبہ ہے تعلیم کا۔ مہاتما گاندھی کا کہنا تھا کہ تعلیم کسی بھی قوم یا سماج کی روح ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ ڈیڑھ سال میں جس طرح ہمارے پالیسی سازوںنے ملک کی تعلیمی پالیسی کے تئیں جو بھی فیصلے کیے ہیں وہ نا صرف منفی بلکہ دور رس ہیں اور ان کا منفی اثر نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں پر بھی پڑے گا۔
اس کے علاوہ تعلیمی شعبے میں تعلیمی و تدریسی اداروں میں اور پورے ملک میں جس طرح فکر اور خیالات رائج کرنے کا رجحان بڑھا ہے، وہ بھی ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔ بالخصوص ہماری نوجوان نسل کے لیے کیوںکہ یہ فکر اور خیالات ہمارے تعلیمی و تدریسی اداروں سے نکل کر ہمارے سماج کے ہر فرد پر حاوی ہوتے چلے جارہے ہیں اور ایسے ماحول میں ملک کی اقلیتیں اپنے آپ کو بے یار و مددگار محسوس کررہی ہیں۔
تعلیم آخر کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ سوامی وویکا نند کے بقول تعلیم انسان میں موجود صلاحیتوں کو سنوارنے کا ذریعہ ہے۔ جس سے کہ اس کی شخصیت میں نکھار آتا ہے۔ لیکن اگر ہم گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے کا ایک طائرانہ جائزہ لیں تو یہ سچائی سامنے آئے گی کہ اس عرصے میں تعلیم سے جڑے تمام افراد چاہے وہ استاد ہوں، طالب علم ہوں یا ان کے والدین ،سبھی ایک ذہنی تناؤ کی حالت میں مبتلا ہیں۔ اساتذہ کو آن لائن طریقے سے پڑھانے اور طالب علموں کو آن لائن طریقے سے پڑھنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ ان سب میں ملک کے تعلیمی اداروں یعنی کہ NCERT یا CBSEکا کوئی رول نظر نہیں آرہا تھا بلکہ یہ احکام سرکاری افسروں اور وزراء کی جانب سے صادر کیے جارہے تھے اور ان میں مکمل طور پر عقل کا فقدان ظاہر تھا۔ملک کے ہر طالب علم کے پاس لیپ ٹاپ یا اسمارٹ فون ہونا ضروری نہیں ہے۔ اور اگر ایسا ہے تو وہ پڑھائی کیسے کرے گا، اس کے بارے میں کسی کو کوئی فکر نہیں تھی۔
حال ہی میں جس طریقے سے بارہویں کلاس کے امتحانات کے سلسلے میں فیصلہ لیا گیا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کس راہ پر گامزن ہے۔اس فیصلے کا اثر ان بچوں کے آنے والے کیریئر پر اگلے پانچ سال نہیں بلکہ پوری زندگی رہے گا۔کیونکہ ان کے اوپر ایک لیبل چسپاں رہے گا کہ وہ بغیر امتحان دیے ہی بارہویں کلاس پاس ہوگئے تھے جو کہ کسی بھی طالب علم کے تعلیمی زندگی کا ایک اہم سنگ میل ہوتا ہے اور اسی کے اوپر اس کی مستقبل کی تعلیمی کوششیں اور کیریئر کے آغاز کا انحصار ہوتا ہے۔
ایک طرف تو ہم وشو گرو بننے کے دعوے کرتے ہیں، دوسری طرف ہمارے کیس بھی فیصلے یا پالیسی میں کوئی ذہنی یا فکری سوچ نمایاں نہیں ہوتی۔ کرونا وبا کے شروع ہونے کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ چین کی فیکٹریاں بند ہونے کے بعد، تمام صنعتیں اپنی مصنوعات ہندوستانی کارخانوں میں تیار کرائیں گی، لیکن کوئی بھی یہ سو چنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ کیا ہمارے ملک میں جدید مشینوں اور آلات سے لیس کارخانے موجود ہیں یا نہیں، دیگر یہ کہ ان جدید مشینوں کو چلانے کے لیے ہمارے پاس تربیت یافتہ عملہ ہے بھی یا نہیں، اس کی کسی کو کوئی فکر نہیں تھی۔ اسی طرح کمپیوٹر اور مصنوعی ذہانت(Artificial Intelligence) جیسے شعبوں کے متعلق بڑے بڑے دعوے کیے جارہے تھے، لیکن یہاں بھی ہم یہ بھول رہے تھے کہ گزشتہ دس سالوں میں جس طرح چینی کمپنیوں نے ان شعبوں میں اپنی گرفت مضبوط کی ہے اس کے پس پردہ حکومت اور صنعتی شعبوں کی ۲۰ سال کی مشترکہ حکمت عملی کارفرما تھی۔ اگر ہم Computer programmingاور coding کی بات کریں تو اس کے فروغ کے لیے چینی حکومت نے اپنی نوجوان نسل کی ہزاروں بچوں کو مختلف شہروں میں آباد کرکے انھیں یکسوئی سے اپنے پیشے میں مہارت حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ہندوستان میں اس لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں چین جیسے آمریت والے قانون نافذ نہیں کیے جاسکتے۔ لیکن ہم یہ سب حاصل کرنے کے لیے جمہوری نظام کے تحت ملک میں سازگار ماحول تو بناسکتے ہیں، جس کے تحت حکومت اور صنعتی ادارے ایک جامع حکمت عملی کے تحت ملک میں ایسے تکنیکی ادارے قائم کرسکتے ہیں جہاں ہمارے نوجوانوں کو Codingاور Software اور Hardwareکے مختلف کورسیز کروائے جاسکیں اور اس کے بعد انھیں اپنے خاص Skillکے شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے تمام تر سہولت فراہم کی جاسکتی ہیں، جس سے کہ ہماری ایک نسل ان شعبوں میں مہارت رکھنے اور ان سے منسلک صنعتوں کے فروغ کے لیے کام کرسکتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس کاروبار کے منتقل ہونے کی ہمیں امید تھی وہ ہندوستان کے بجائے ویتنام منتقل ہوگیا۔ ویتنام نے بھی چین کی طرح اپنی نوجوان نسل کو نئے موضوعات سے آراستہ کرکے انھیں ماہرین میں تبدیل کیا اور ساتھ ہی اپنے صنعتی شعبوں کو حکومت کے ذریعے امداد و فروغ دی ہے اور یہ سب اس نے محض گزشتہ پچیس سے تیس سال کے عرصے میں حاصل کیا۔
آزادی کے بعد تعلیم
سن ۱۹۴۷ء میں ملک کی آزادی کے وقت، ملک میں شرح خواندگی محض 12%تھی جبکہ سن۲۰۲۱ء میں بے شرح 75% ہے اور ملک کی چند ایک ریاستوں میں 100%بھی ہے۔ تاہم اگر ایک تجزیاتی جائزہ لیا جائے تو ثابت ہوجائے گا کہ آزادی کے بعد مختلف حکومتوں نے تعلیم کے بجائے دفاعی شعبے کے لیے ہتھیار خریدنے پر زیادہ پیسے خرچ کیے۔
زیادہ پرانی بات نہیں ہے، سن ۲۰۰۴ء میں حکومت نے ایک Education Cess نافذ کیا تھا جس کے تحت ہر ایک خرید یا بل پر آپ کو 2%ٹیکس دینا ہوتا تھا۔ تین سال کے عرصے میں اس ٹیکس کے ذریعے حکومت نے تقریباً32,000کروڑ روپئے جمع کیے لیکن ان کو کہاں خرچ کیا گیا اس کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ آج بھی یہ income taxدہندگان کو اپنے کل ٹیکس کا 1.5%تعلیمی ٹیکس دینا ہوتا ہے، لیکن اس کے خرچ کی بھی تفصیل موجود نہیں ہے۔ جبکہ اگر 2007تک جمع ہونے والے 32,000 کروڑ روپئے ٹھیک طریقے سے خرچ کیے جاتے تو آج ملک کے ہر گاؤں میں ایک باآراستہ مڈل اسکول تمام تر سہولیات کے ساتھ موجود ہوتا اور وہاں مامور استادوں کی تنخواہ بھی اسی پیسے سے ادا ہوجاتی۔
گزشتہ سال کے بجٹ میں ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنے کے پروگرام کے تحت Ind-SATنامی ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ جس کے ذریعے دیگر ایشیائی اور افریقی ملکوں کے طالب علموں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بڑھاوا دینا تھا۔ آج ایک سال بعد اس پروگرام کے تحت ہندوستان نے کیا کامیابی حاصل کی ہے، اس کی جانکاری کسی کو نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات افسوسناک ہے کہ حکومت نے ٹیکس رعایتیں دیتے ہوئے بڑے کھلاڑیوں، یعنی کہ کارپوریٹ تعلیمی اداروں کے لیے ترغیبات اور ٹیکس فوائد کی پیشکش تو کی تھی لیکن تعلیمی ٹیکنالوجی اور ہنرمندی کے شعبوں کے لیے کوئی فوائد نہیں رکھے تھے۔ وزیرخزانہ نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ریاستی تعلیمی وزارتوں کے ساتھ بہت جلد ایک نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا جائے گا۔ یہاں یہ نوٹ کرنا اہم ہے کہ ڈاکٹر کے کستوری رنگن کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے National Education Policy کا ایک مسودہ مرکزی حکومت کو پیش کیا تھا، جس کے لیے حکومت نے 2017سے ہی میدان تیار کرنا شروع کردیا تھا۔ اس مسودہ کو مرکزی حکومت نے NEP-2019 کے نام سے اپنی منظوری دے دی تھی۔
اس پالیسی کا مقصد طالب علموں کو ضروری صلاحیتوں اور علم سے لیس کرتے ہوئے ہندوستان کو ایک نالج سوپر پاور بنانا تھا۔ اس پالیسی میں سائنس و ٹکنالوجی، تکنیکی تعلیم اور انڈسٹری میں افرادی قوت کی قلت کے خاتمہ پر بھی توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ پالیسی کا مسودہ رسائی، مساوات، معیار، دستیابی اور احتساب کے بنیادی ستونوں پر تیار کیا گیا تھا۔ این ای پی 2019کو عوامی رائے کے لیے پیش کرنے کے ساتھ ہی اس پر تنازعہ پیدا ہوگیا تھا۔ بنیادی طور پر تنازعہ این ای پی کی اس سفارش پر تھا کہ اسکولوں میں ہندی کو لازماً ذریعہ تعلیم کی تین زبانوں میں سے ایک زبان کے طور پر رکھا جائے۔ جنوبی ہندوستان بالخصوص ریاست تاملناڈو میں اپوزیشن کا احتجاج اس قدر مضبوط تھا کہ این ای پی کو اگلے سال یعنی کہ 2020 میں دوبارہ نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 کے نام سے پیش کیا لیکن ایک سال کا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ابھی تک کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس پالیسی کے تحت ملک کے تعلیمی نظام میں کیا نئی تبدیلی آئی ہے۔
484صفحات پر مشتمل این ای پی کا سب سے زیادہ زیرِ بحث بننے والا موضوع یہ بھی تھا کہ اس پالیسی میں کہیں بھی ’’سیکولر‘‘ یا ’’سیکولرازم‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں کیے گئے تھے۔ اب تک کی سبھی تعلیمی پالیسیوں کے برخلاف جن میں سیکولرازم کو ہندوستانی تعلیم کے لیے ایک اہم ہندوستانی قدر کے طور پر اجاگر کیا گیا تھا۔ این ای پی 2020سے سیکولر اور سیکولرازم کے الفاظ کا غائب ہوجانا بہت ہی عجیب و غریب بات ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ این ای پی میں بار بار تعلیم میں دستوری اقدار کو فروغ دینے کے مقصد پر زور دیا گیاجس کی وجہ سے یہ تضاد اور بھی عجیب محسوس ہوتا ہے۔ اگرحکومت کو واقعی ملک کے نوجوانوں میں اپنے ملک کے لیے محبت پیدا کرنی ہے تو وہ تاریخ کو مسخ کرکے اپنی کاوش میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
اس کے بجائے اگر حکومت نوجوانوں میں اپنے ملک کے لیے محبت پیدا کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے ایک دوسرا ذریعہ بھی موجود ہے جس کے تحت گریجویٹ کورسس کے لیے درخواست دینے سے قبل اسکولی تعلیم کی تکمیل پر تین سال یا پانچ سال کی مدت کے لیے لازمی فوجی تربیت کو متعارف کرسکتی ہے۔ یہ چیز ان کے اندر نظم و ضبط اور ملک کے لیے محبت پیدا کرنے کے علاوہ ان لوگوں کے چھانٹنے میں معاون ہوگی جو پیشہ وارانہ ڈگری کورسس کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ یہ کام فوجی انٹرن شپ کے دوران مسلسل جائزوں کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سے ایک محدود مدت کے لیے بے روزگاری کے مسئلہ پر کنٹرول کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ غرض سیکولر اصولوں کے تئیں ایک واضح عہد کی عدم موجودگی اس بات کی ضامن نہیں ہے کہ تکثیریت اور تنوع کے دیگر اصول شرمندہ تعبیر ہوں گے جن پر کاربند رہنے کی بات این ای پی 2020میں کی گئی ہے۔
معاصر ہندوستان میں جس طریقے سے طبقاتی اور مذہبی تشدد میں تیز تر اضافہ رونما ہورہا ہے،اس کی چھاپ ہندوستانی کلاس روموں کے علاوہ تعلیمی نصاب اور تدریسی طریقوں پر بھی پڑ رہی ہے۔ اور جس نے مزید طبقاتی اور مذہبی تعصب پیدا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ کوئی بھی قوم اپنی تاریخ کو مسخ کرکے یا اسے نئے طریقے سے پیش کرکے کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ تاریخ اپنی اصل حیثیت میں ہمیشہ موجود رہتی ہے اور وقت کا پہیہ انسان کو اس کے تاریخی پس منظر سے حقائق سے وقتاً فوقتاً متعارف کراتا رہتا ہے۔ ملک کے موجودہ حالات میں اصل چیلنج مشکل سماجی حقائق کو نوجوان کے ذہن نشین کرانے کے لیے تازہ اور اختراعی طریقے تلاش کرنے کی ہے نہ کہ ان کو کسی مخصوص قوم یا اقلیت کے خلاف ان کی ذہن سازی کرنا، اپنے مذہب کو دوسرے مذہب سے بہتر ثابت کرنا اور جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنا ہے۔ اگر ملک کے تعلیمی شعبے میں اس طریقے کی بے جا ، غیر ضروری اور ناقص ترمیمات کری جائیں گی تو اس کا منفی اثر ہماری آنے والی نسلوں پر پڑے گا۔تاریخ کبھی بھی تاریخ کو مسخ کرنے والوں کو معاف نہیں کرتی ہے۔
اگر ہمیں واقعی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو نئی تعلیمی و تدریسی طریقوں و صلاحیت کے ساتھ اس میں ترمیم کرنا ہوگی جس میں تحقیق اور آزاد خیالات کی عکاسی کرنا سب سے اہم نکات ہونے چاہئیں۔
(کالم نگاردہلی میں مقیم ہیں، اس سے پہلے وہ بی بی سی اردو اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
ای میل۔[email protected]
������