گیارہ سال پہلے نومبر کے ہی مہینے میں یکے بعد دیگرے جموں و کشمیر میں دنیائے صحافت کی دو بڑی شخصیات اس جہان فانی سے کوچ کرگئیں ۔پہلے صوفی غلام محمد اور اس کے بعد خواجہ ثناء اللہ بٹ صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں زندگی کی جنگ ہار گئے ۔دونوں ایک دوسرے کے پیشہ ورانہ حریف تھے لیکن ایک دوسرے کے دوست بھی تھے ۔ ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی دھن دونوں کے سروں پر سوار تھی لیکن دونوں ایک دوسرے کی ہر مشکل میں کام بھی آتے تھے ۔خواجہ ثناء اللہ بٹ کو کشمیر کا بابائے صحافت کہا جاتا ہے ،وہ اس لئے کہ انہوں نے عام کشمیریوں میں اخبار پڑھنے کی عادت ڈال دی ۔گزشتہ صدی کی پچاس کی دہائی میں انہوں نے بے سروسامانی کی حالت میں کشمیر کی وادی میں روزنامہ آفتاب کا اجراء کیا تھا ۔اس سے پہلے وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ہفت روزہ اخبار ’’کشیر‘‘شائع کرتے تھے ۔ چونکہ وہ خود مختار اور آزاد کشمیر کے حامی تھے اور اپنے اخبار میں کھل کر اس کا پرچار بھی کرتے تھے، اس لئے انہیں ایک روز سزا کے طورپر مظفر آباد میںاپنے گھر سے اٹھا کر کنٹرول لائن کے ِاس پار دھکیل دیا گیا ۔یہ وہ وقت تھا جب اِس پار شیخ محمد عبداللہ کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں قید کردیا گیا تھا اور بخشی غلام محمد کو اقتدار کی کرسی بخش دی گئی تھی ۔چونکہ انہیں پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے push backکیا گیا تھا ،اس لئے بخشی غلام محمد کی حکومت نے انہیں اخبار نکالنے کی اجازت دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی ۔ان دنوں کشمیر میں ’’خدمت ‘‘کے نام سے نیشنل کانفرنس کا روزنامہ اخبار شائع ہوا کرتا تھا جسے شیخ محمد عبداللہ نے شروع کرایا تھا اور مولانا محمد سعید مسعودی اس کے مدیر تھے لیکن اب نیشنل کانفرنس کے ساتھ اس کے آفیشل آرگن پر بھی بخشی صاحب کا ہی قبضہ ہوچکا تھا اور یہ اخبار ان کی حکومت اور ان کی اپنی تعریفوں کیلئے وقف ہوچکا تھا۔غلام رسول عرفانی ’’ نیا سنسار ‘‘کے نام سے ایک روزنامہ شائع کررہے تھے ۔’’مزدور‘‘ نام سے بھی ایک اخبار شائع ہور تھا۔اس کے علاوہ پنڈتوں کا ایک اخبار ’’ مارتنڈ ‘‘ بھی روزانہ شائع ہوا کرتا تھاجس کی ادارت کی ذمہ داری غالباً پنڈت کشپ بندھو نبھا رہے تھے ۔ دونوں اخبارو ں کا حلقہ اشاعت محدود تھا ۔مولانا مسعودی کے بعد خدمت کا شعبہ ادارت پنڈتوں کے ہاتھ میں آیا ۔ چونکہ مسلمانوں کی بہت قلیل تعداد تعلیم یافتہ تھی، اس لئے زیادہ تر صحافت کا میدان پنڈتوں کے ہاتھوں میں تھا ۔ ہندوستان کے بڑے صحافتی اداروں کیلئے بھی پنڈت ہی کشمیر میں کام کرتے تھے اور مقامی اخبارات میں بھی کئی پنڈت سرکاری ملازم چار بجے کے بعد کام کیا کرتے تھے تاہم رفتہ رفتہ تعلیم یافتہ مسلمان اس پیشے کی طرف راغب ہونے لگے تھے ۔پنڈتوں کے اور بھی کئی ہفت روزہ اخبار شائع ہوا کرتے تھے جن میں وتستا نام کا اخبار بھی شامل تھا لیکن عام لوگ اخبار نہیں پڑھتے تھے، اس لئے اخبارات خاص حلقوں تک ہی محدود تھے ۔
خواجہ ثناء اللہ بٹ نے کشمیر کے مسلمانوں میں اخبار پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لئے انتہائی جفا کشی کے ساتھ کام کیا ۔انہوں نے سب سے پہلے ہر ضلعے میں اخبار تقسیم کرنے والی ایجنسیاں قائم کیں اور سرینگر کے ہر علاقے اور محلے میں بھی دکانوں پر اخبار دستیاب رکھا ۔اس کے ساتھ ساتھ اخبار میںخبروں کے علاوہ عوامی دلچسپی کے کالم بھی پیش کئے۔ جن میں ایک کالم جوکافی مقبول ہوا تھا’’ خبر زینہ کدل ‘‘ تھا ۔بعد میں اس کالم کو بند کرکے اس کی جگہ ’’ خضر سوچتا ہے ولر کے کنارے ‘‘جیسے مقبول عام طنزیہ کالم نے لی ۔بتایا جاتا ہے کہ کالم کا یہ شاندار عنوان شمیم احمد شمیم نے تجویز کیا تھا ۔آفتا ب تیزی کے ساتھ ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے ایک مقبول اخبار بنا ۔ اس کے بعد غلام رسول عارف نے روزنامہ ہمدرد شائع کیا ۔اس اخبار کو بھی لوگوں کی اچھی خاصی تعدا پڑھا کرتی تھی لیکن آفتا ب کا مقابلہ کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی ۔اسی صدی کی ستر کی دہائی میں صوفی غلام محمد، جو اس سے پہلے خدمت اخبار میں کام کرتے تھے،نے ہفت روزہ ’سرینگر ٹائمز ‘شائع کیا جسے کچھ ہی شماروں کے بعد روزنامہ بنایا گیا ۔اس اخبار میں کارٹون کا اضافہ عوامی مقبولیت کا باعث تھا ۔ بشیر احمد بشیر جو عرف عام میں بی اے بی کے نام سے مشہور ہیں، نے نہ آرٹ کی کوئی تعلیم حاصل کی تھی اور نہ ہی کارٹون بنانے کی کوئی تربیت ۔ اپنے بڑے بھائی صوفی غلام محمد کے کہنے پر انہوں نے کارٹون بنایا اور کچھ ہی عرصے میں ثابت کیا کہ ان کے پاس ایک غیر معمولی کارٹونسٹ کی خدا داد صلاحیتیں موجود ہیں ۔ان کے کارٹونوں نے سرینگر ٹائمز کی مقبولیت میں زبردست اضافہ کیا ۔ اس کے ساتھ اخبار کا اداریہ اور مضامین بھی قارئین کی دلچسپی کا باعث بنے ۔ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ سرینگر ٹائمز کی مقبولیت نے آفتاب کے حلقہ اشاعت پر کوئی اثر نہیں ڈالا بلکہ اخبار پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اکثر لوگ دو دو اخبار خرید کر پڑھنے لگے ۔اخبار پڑھنے والوں کی تعداد جوں جوں بڑھتی رہی، نئے اخبار بھی منظر عام پر آنے لگے ۔اس کے بعد روزنامہ چنار ،جس کی ادارت کے لئے یوپی سے کسی صحافی کو لایا گیا تھااور معروف آرٹسٹ شجاع سلطان کو کارٹون بنانے کی ذمہ داری دی گئی تھی، شائع کیا گیا لیکن نہ غیر ریاستی صحافی کوئی کمال دکھاسکے نہ ہی شجاع سلطان ۔اس لئے اس اخبار کی زندگی بہت مختصر رہی ۔طاہر مضطر کی ادارت میں ’’ روزنامہ ’’پولٹیکل ٹائمز ‘‘ شائع ہوا لیکن وہ بھی دیر پا ثابت نہیں ہوا ۔غلام نبی خیال نے ہفت روزہ اقبال کو روزنامہ بنایا لیکن وہ بھی ٹک نہیں سکا۔’’ نیا کشمیر ‘‘ صدائے کشمیر ‘‘اور کئی دوسرے اخبار بھی شائع ہوئے لیکن ان میں سے کوئی اخبار زیادہ دیر زند ہ نہیں رہ سکا ۔نیشنل کانفرنس نے بعد میں ’’ نوائے صبح ‘‘نام سے روزنامہ جاری کیا جس کی ادارت صوفی غلام محمد کے برادر کے سپرد کی گئی، بعد میں اس کی جگہ الطاف حسین نے لی ۔
خواجہ غلام محمد صادق کے دور میں اخبارات کا ایک سیلاب آگیا تھاجن میں زیاد ہ تر ہفت روزہ اخبارات تھے لیکن وہ بھی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے ۔ ہفت روزہ اخبارات میں ’’ رہبر ‘‘ کی ایک پہچان تھی ۔ رشید تاثیر کا ہفت رورہ اخبار’’ محافظ ‘‘ بھی مسلسل شائع ہوتا رہا لیکن عوام میں ان میں سے کسی اخبار کو مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی البتہ ایک ہفت روزہ نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ کر رکھ دئیے ۔یہ شمیم احمد شمیم کا ہفت روزہ’’ آئینہ ‘ ‘ تھا جس کا ایک شمارہ پڑھنے کے بعد لوگ دوسرے شمارے کا بے صبری کے ساتھ انتظار کیا کرتے تھے ۔اس اخبار کی مقبولیت کشمیر کی سرحدوں سے نکل کر برصغیر کے سیاسی ، صحافتی اور ادبی ایوانوں تک بھی پہنچی ۔اس اخبار نے صحافت کے نئے معیار قائم کئے ۔شمیم احمد شمیم بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے ۔وہ کشمیر کے پہلے اعلیٰ تعلیم یافتہ صحافی تھے جن کے قلم اور زبان میں خدائے برتر نے طلسماتی اثر رکھا تھا ۔کبھی کبھی وہ بس ایک جملے میں وہ بات کہتے تھے جسے کہنے کے لئے دوسروں کو ایک پوری کتاب کی ضرورت پڑتی ہے ۔انہوں نے پاکستان کے اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے کراچی میں ان کی کوٹھی پر انٹرویو لیا اوراسے آئینہ میں شائع کیا ۔ انٹرویو کے آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو سوشلزم اور مساوات کے فلسفے کے دلدادہ تھے اور جب وہ میرے سامنے سوشلزم کے گن گارہے تھے، ان کے پیروں تلے بیش قیمت ریشمی قالین تھا اور میں سوچ رہا تھے کہ اس شخص کو ریشمی قالین پر سوشلزم کی بات کرتے ہوئے کتنا مزا آتا ہوگا ۔آئینہ کا تیسرا صفحہ چراغ بیگ کے قلم سے لکھا جاتا تھا اور چراغ بیگ کے الفاظ آسمانوں میں اڑنے والوں کو زمین بوس کیا کرتے تھے ۔ان کے اور عامر عثمانی ،جو نئی دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامہ تجلی کے ایڈیٹر تھے،کے درمیان قلمی جنگ نے سب کو دیوانہ بنا رکھا تھا ۔ دونوں کے قلم کی کاٹ بہت تیز تھی ۔جماعت اسلامی جموں و کشمیر کا ترجمان ’’ اذان ‘‘ بھی اس قلمی لڑائی میں شامل تھا ۔عاشق صاحب اس کے مدیر تھے ۔ جماعت اسلامی میں اعلیٰ پایہ کے قلمکاروں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی جو اذان میں لکھتے تھے ۔آئینہ نے صحافت کے جس نئے دور کا آغاز کیا تھا، اس نے ان قلمکاروں کو تحریک دی اور وہ سرینگر ٹائمز میں مضامین لکھنے لگے ۔ان میں غلام قادر وانی سرفہرست تھے جو مختلف ناموں سے لکھتے تھے ۔ ش ۔م۔ احمد نے بھی اپنے وقت کے سیاسی حالات پر مضامین لکھے ۔اس سے سرینگر ٹائمز جماعت اسلامی کے حلقوں میں پڑھا جانے لگا ۔روزنامہ آفتاب نے ادبی صفحہ شائع کرنا شروع کیا ۔ عمر مجید کے افسانے مقبول عام ہونے لگے ۔طاہر محی الدین کے سیاسی تبصرے اور یوسف جمیل کے فلمی شخصیتوں سے انٹرویو بھی مقبول عام ہوئے ۔ آفتاب نے کشمیر کی صحافت کو طاہر محی الدین اور یوسف جمیل کے علاوہ بھی کئی صحافی دئیے ۔
ستر اوراسی کی دہائی کا دور اس لحاظ سے کشمیر کی صحافت کا ایک روشن دور کہا جاسکتا ہے ۔یہ سفر اگر یوں ہی جاری رہتا تو کشمیر میں اردو صحافت آج عروج کے کس مقام پر ہوتی کہنا مشکل ہے ۔ نوے کی دہائی شروع ہونے کے ساتھ ہی یہ سفر ختم ہوا ۔ صحافت متحارب قوتوں کی کشمکش کا بری طرح سے شکار ہوگئی ۔سیاسی تجزیوں اور تبصروں کا دور بھی ختم ہوا ۔ادبی اور صحافتی کالم بھی بند ہوئے ۔قارئین کی دلچسپی کے لئے اس کے علاو ہ کچھ بھی باقی نہیں رہا کہ کہاں کتنی لاشیں گریں ۔ کہاں کتنے بم پھٹے اور کہاں کتنے لوگوں کاقتل ہوا ۔ کریک ڈائونوں کی روئیداد ، کرفیو ، قدغنوں اور ہڑتالوں کی خبریں ۔پابندیوں کے احکامات سے اخبار بھرے ہوتے تھے ۔ صوفی غلام محمد اور ثناء اللہ بٹ دونوں اس دل برداشتہ صورتحال سے ٹوٹ کررہ گئے ۔وہ جانتے تھے کہ اس طرح کا اخبار انسانی ذہنوں کے لئے کتنے برے اثرات پیدا کرسکتا تھا ۔اردو اخبارات کا معیار رفتہ رفتہ گرنے لگا ۔انگریزی صحافت نے صحافت کے معیار کو بہتر بنانے کی کامیاب کوشش کی ۔گریٹر کشمیر نے اس میں قایدانہ کردار ادا کیا ۔اس کے بعد انگریزی میں کشمیر اوبزرور شائع ہونے لگا ۔وید بھسین کی ادارت میں کشمیر ٹائمز گریٹر کشمیر سے پہلے وادی کے انگریزی دانوں کی پہلی پسند تھا ۔کشمیر میں ظفر معراج اس کے بیورو چیف تھے ۔ سید ملک جیسے اعلیٰ پایہ کے صحافی اس اخبار سے مستقل طور پر وابستہ تھے۔ ظفر معراج نے شبیر شاہ کا ایک انٹرویو شائع کرکے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا ۔ لیکن اسے اکثر بار عسکری حلقوں کے غم و غصے کا بھی شکار ہونا پڑا اور ایک دن اسے نیم مردہ حالت میں ایک سڑک کے کنارے چھوڑ دیا گیا ۔ ان کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا ۔یہ پراسرار حملہ آج بھی ایک معمہ ہے ۔کشمیر امیجز بشیر منظر کی ادارت میں ہفت روزہ شائع ہونے لگا جو بعد میں روزنامہ ہوگیا ۔اس اخبارنے پیشہ ورانہ صحافت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا اور آج بھی کررہا ہے ۔ اس کے بعد بہت سارے انگریزی روزنامے شائع ہوئے جن میں قابل ذکر’’ کشمیر مانیٹر ‘‘ اور ’’رائزنگ کشمیر ‘‘ہے جو شجاعت بخاری کی ادارت میں شائع ہوا ۔ شجاعت بخاری کو اس کے دفتر کے باہر گولیوں سے چھلنی کردیا گیا ۔اردو کے بھی بہت سارے نئے اخبار جاری ہوئے لیکن جتنے زیادہ اخبارات شائع ہوئے ،اتنا ہی اردو صحافت کا معیار گرتا گیا ۔اخبارات کا سیلاب کیوں اورکیسے آیا اور اردو صحافت کا معیار کیوں گرگیا ،یہ بھی ایک الگ کہانی ہے ۔