خطہ پیر پنچال کو وادی کشمیر سے ملانے والی تاریخی مغل شاہراہ پچھلے لگ بھگ پانچ ماہ سے بند ہے اور آئندہ دو ہفتوں تک اس کی بحالی کے آثار نظر نہیں آرہے کیونکہ پہلے ہی تاخیر سے شروع ہوئے برف ہٹانے کے کام کو ٹھیکیداروں کی ہڑتال اور بار بار پسیاں گرآنے کے سلسلے نے مزید تعطل کاشکار بنادیاہے۔گزشتہ ماہ حکام نے یقین دلایاتھاکہ اپریل کے تیسرے یا چوتھے ہفتے شاہراہ کو ٹریفک کیلئے بحال کردیاجائے گالیکن اب ایسا کہاجارہاہے کہ 30اپریل تک اس کے بحال ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔ اگرگزرے دو برسوںکی ہی بات کی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ جہاں 2018کو یہ شاہراہ 30مارچ کو ٹریفک کیلئے کھول دی گئی تھی وہیں2017میں اسے اس سے بھی ایک ہفتہ قبل یعنی 22مارچ کو ہی بحال کردیاگیاتھا تاہم اس مرتبہ مارچ تو دور اپریل کا مہینہ بھی گزرتاجارہاہے اور کام کی رفتار کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتانہیں کہ اس مہینے کے اواخر تک بھی خطہ پیر پنچال اور وادی کشمیر کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ بحال ہوسکے گا۔ بفلیاز سے شوپیاں تک 84کلو میٹر طویل اس شاہراہ کاابھی بھی لگ بھگ 14کلو میٹر حصہ برف سے ڈھکا ہواہے جسے ہٹانے میں کم ا ز کم دو ہفتے لگیں گے ۔بے شک اس مرتبہ برفباری بھی بہت زیادہ ہوئی اور پیر گلی و اطراف و اکناف میں ہنوز کئی کئی فٹ برف جمع ہے لیکن بدقسمتی سے وقت پر بحالی کاکام شروع ہی نہیں کیاگیا۔ اول تو کام ہی تاخیر سے شروع ہوا اور پھر2014کے تباہ کن سیلاب کے بعد مرمت کاکام کرنے والے ٹھیکیداروں نے آج تک واجب الادا رقوم نہ ملنے پر چندی مڑھ کے مقام پر احتجاج شروع کردیا جس کی وجہ سے بھی کام میں رخنہ پڑا اور اب باربار پسیاں گرآنے سے بھی برف ہٹانے میں مشکلات درپیش آرہی ہیں ۔ساتھ ہی یہ بھی بتایاجارہاہے کہ برف ہٹانے کے کام کیلئے کم تعداد میں مشینیں اور دیگر سامان استعمال کیاجارہاہے ۔مغل شاہراہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا اور نہ ہی اسے نظرانداز کیاجاسکتاہے ۔یہ شاہراہ جموں اور صوبہ کشمیر کے درمیان رابطے کا ایک بہترین متبادل ہے، جس نے ہر مشکل وقت میں سہارادیاہے ۔اس روڈ پر ٹنل کب بنے گا اور اسے قومی شاہراہ کادرجہ دینے کا وعدہ کب پورا ہوگا، اُس سے قطع نظر فی الوقت ا س پر ٹریفک کی فوری بحالی کی ضرورت ہے کیونکہ جموں سرینگر شاہراہ کو بھی ہفتے میں دودن سیول ٹریفک کیلئے بند رکھ کر لوگوں کیلئے بہت بڑی پریشانی پیدا کر دی گئی ہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغل شاہراہ پچھلے سال دسمبر سے ٹریفک کیلئے بند پڑی ہے جس کے نتیجہ میں راجوری او رپونچھ کے عوام ،خاص طور پر کشمیر میں تعینات ملازمین ، طلباء اور مریضوں کو سخت مشکلات کاسامناہے اور انہیں کشمیر پہنچنے کیلئے پہلے جموں کاسفر کرناپڑتاہے، جو انتہائی تکلیف دہ ہے ۔اسی طرح سے کشمیر سے خطہ پیر پنچال کا سفر کرنے والے لوگ بھی پریشانی سے دوچار ہوتے ہیں ۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر پچھلے دو برسوں میں مارچ کے مہینے میں ہی شاہراہ پر ٹریفک بحال ہوگیا تو اس مرتبہ کیوں یہ اپریل میں بھی بند پڑی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تاریخی شاہراہ سے برف ہٹانے کے کام میں تیزی لائی جائے اور اسے جلد سے جلد ٹریفک کیلئے بحال کیاجائے ۔