سرینگر //3سال کے بعد جموں کشمیر میں معیشت کا پہیہ دوبارہ چل پڑا ہے لیکن 5اگست 2019 کے بعد ہوئے نقصان کی بھرپائی کیسے ممکن ہو پائے گی اسکے لئے کوئی حکومتی پالیسی موجود نہیں ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ جب تک حکام اس کیلئے کوئی پالیسی ترتیب نہیں دیتے، نقصان کی بھرپائی ممکن نہیںہوسکتی ۔ماہر اقصادیات کا کہنا ہے کہ حکومت کو کچھ تجاویز پیش کی گئی ہیں کہ روزگار کے مواقع کیسے بڑھا ئے جاسکتے ہیں، اور تجارت کو کیسے دوبارہ بحال کیا جاسکتا ہے لیکن فی الحال ایسے کوئی اشارے نہیں مل رہے ہیں کہ ان تجاویز پر کوئی غور کیا جاسکتا ہے۔پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے ہر ایک چیز مہنگی ہوگئی ہے اور کورونا سے نہ صرف بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے بلکہ تاجروں کو بڑے پیمانے نقصان ہوا ہے۔تاجروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو سب سے پہلے ٹیکس میں کمی پر غور کرنا چاہئے،جی ایس ٹی ، بجلی اور پانی کی بلیں معاف کی جانی چاہئیں ۔کشمیر چیمبر آف کامرس وانڈسٹریز کے سربراہ شیح عاشق نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ہم پہلے سے ہی یہ کہتے آئے ہیں کہ وادی کے لوگوں نے جموں کے مقابلے میں 2019سے ہی مکمل لاک ڈائون دیکھا ہے اور وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہم اب تھوڑا بہت بحالی کی جانب گامزن ہو رہے ہیں،تو ایسے میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تین برسوں کے دوران ہوئے نقصانات کی بھرپائی کیلئے اقدامات کرے ۔انہوں نے کہا کہ تاجر فی الوقت بجلی فیس ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔جی ایس ٹی کی ادائیگی بھی ممکن نہیں ہوئی ہے۔انکا کہنا تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ بینکوں سے لیا گیا قرضہ ہے۔تاجر قرضوں کے تلے ڈوب گئے ہیں کیونکہ تین سال سے وہ کاروباری بندش کی وجہ سے صرف قرضوں پر سود ادا کررہے ہیں اور اب وہ دیوالیہ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ جموں وکشمیر کے معروف ماہر اقتصادیات شکیل قلندر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سرکار کو الگ الت سیکٹر کیلئے الگ الگ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا’’ انڈسٹریل سیکٹر کیلئے کچھ ایسی پالیسی ہو، تاکہ مقامی سطح پر ہی مال تیار ہو جسکی مقامی سطح پر ہی خرید وفروخت ہو ،سرکاری سطح پر جس مال کی ضرورت ہوتی ہے، وہ فی الحال مقامی تاجروں سے ہی خریدا جائے۔‘‘انہوں نے کہا کہ معیشت کی بحالی کیلئے ہر سیکٹر میں پالیسی بے حد ضروری ہے کیونکہ پچھلے پانچ برسوں سے ہم نے دیکھا کہ لاک ڈائون کے بیچ بھی سرکار نے مال گجرات ، دہلی اور دیگر ریاستوں سے خریدا ۔انہوں نے کہا کہ مال کو یہاں کے انڈسٹریل اسٹیٹس سے خریدنا ہو گا ۔جموں وکشمیر میں سیاحت کو بڑھاوا دینے کے متعلق انہوں نے کہا’’ حکام کو سیاحوں کیلئے مقامی سطح پر مناسب رعایت دینے کی ضرورت ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ سیاح وادی کی طرف راغب ہو سکیں اور انہیں سستی سہولیات میں یہاں کی سیر نصیب ہو سکے ۔انہوں نے ہارٹیکلچر سیکٹر کے حوالے سے بتایا کہ حکومت کو سی گریڈ سیبوں کو مارکیٹ انٹرونشن سکیم کے تحت خرید کر مقامی سطح کی فرموں کو دینا چاہئے، تاکہ وہ جام ، جوس اور جلی بنا کر اُن کو بیرون ریاستوں میں فروخت کر سکے اور اپنا روزگار کما سکیں ۔ اے اور بی گریڈ سیبوں کو منڈیوں میں اچھے داموں میں فروخت کرنے کیلئے بھی اقدمات کرنے کی ضرورت ہے اور اس سے بھی یہاں کی معیشت کو پٹری پر لانے کے حوالے سے مدد مل سکتی ہے ۔ہنڈی کرافٹس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ابھی تک انٹرنیشنل ڈیمانڈ کافی کم ہے، اس کو بڑھانے کی ضرورت ہے ۔شکیل قلندر نے مزید بتایا کہ ایگریکلچر سیکٹر کی جانب لوگوں کو زیادہ سے زیادہ راغب کرنے کی ضرورت ہے اور مقامی طور پر نوجوانوں کو دودھ ، پولٹری کی طرف راغب کرنا ضروری ہے، تاکہ مقامی طور پر پیداوار کو بڑھایا جاسکے۔
صنعت و تجارت اور ایل ای اے ڈی
مفاہمت نامے پر دستخط
نیوز ڈیسک
جموں//مرکزی کے زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر میں اقتصادی ترقی ، روز گار کے مواقع پیدا کرنے ، تجارتی مواقع اور جی ڈی پی میں اضافہ کرنے والے شعبوں میں سرمایہ کاری کو متحرک کرنے کیلئے پرنسپل سیکرٹری صنعت اینڈ کامرس ( آئی اینڈ سی ) رنجن پرکاش ٹھاکر نے جموں و کشمیر ٹریڈ پروموشن آرگنائیزیشن ( جے کے ٹی پی او ) کے درمیان صنعت و تجارت محکمہ اور لداخ جموں و کشمیر اکنامک گروتھ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈائیلاگ ( ایل ای اے ڈی ) کی جانب سے منیجنگ ڈائریکٹر جے کے ٹی پی او انکیتا کار اور ڈائریکٹر لیڈ سنیل شاہ کی موجودگی میں ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے گئے ۔ ایم او یو کے مطابق جموں کشمیر یو ٹی میں سیکٹر وار مواقع کو ممکنہ سرمایہ کاروں کے سامنے پیش کیا جا سکے گا اور مختلف اسٹیک ہولڈرز سے سیکٹر کے لحاظ سے سرمایہ کاری کو آگے بڑھایا جا سکے ۔ اس مفاہمت نامے کا مقصد دوسروں کے درمیان اور جموں و کشمیر کے مرکزی علاقے کو سرمایہ کاری کیلئے پرکشش بنانے کیلئے زراعت ، ٹیکسٹائیل ، دستکاری ، فارماسیوٹیکل ، دیہی ترقی ، آئی ٹی ، آئی ٹی ای ایس ، فوڈ پروسیسنگ ، ڈیری پروڈکٹ ، انجینئرنگ اور مشین ٹولز وغیرہ کے متعدد شعبوں کیلئے پروگرام کی سہولت فراہم کرنا ہے تا کہ مختلف ریاستوں کے اثر و رسوخ رکھنے والے اداروں کے درمیان وسیع دائرہ کار اور توجہ حاصل کی جا سکے۔