اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۴ دسمبر ۱۹۹۰ء کی تاریخ پہ ایک قرار داد کے ذریعے یکم اکتوبر کو دنیا بھر میں معمر افراد کا عالمی دن یا بزرگوں کا بین الاقوامی دن ( International Day of Older Persons ) کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے ۔ حکومت ہند بھی، محکمہ سماجی انصاف کی طرف سے ہر سال یکم اکتوبر کو ایسے افراد کے اعزاز میں’’ ویو شریشٹھا سمان‘‘ جیسے قومی ایوارڈ سے نوازتی ہے۔ یہ قومی ایوارڈ نامور بزرگ شہریوں اور اداروں کو اس خاص موقع پر صدر جمہوریہ ہند کے ہاتھوں دیا جاتا ہے۔
بزرگ یعنی عمر رسیدہ،سفید ریش و بال عاقل عموماً جن کی عمر سیٹھ برس سے زائد ہو چکی ہے، بزرگ یا سینئر شہری ( Senior Citizens ) کہلاتے ہیں ۔بے شک آج ہم بچے اور جوان ہیں لیکن کل ہم بھی بوڑھے ہو جائیں گے اور معمر افراد ( Older Persons ) کہلائیںگے۔ آج کا یہ دن دراصل ہمیں یاد دہانی کرا رہا ہے کہ ان معمر افراد کے حقوق کی سب سے بڑی ذمہ داری ہم پرہی عائد ہے، جسے ہمیں قبل از وقت ادا کرنا چاہیے۔ نہیں تو کل ہمارے ساتھ بھی اسی طرح کا رویہ اختیار کیا جائے گا ۔
آج کل کےمعاشرے میں اگر کوئی بے بسی و بے کسی کی زندگی بسر کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں تو وہ زیادہ تر معمر افراد ہی ہوتے ہیں، جنہیں مختلف قسم کے مصائب و تکالیف سے گذرنا پڑتاہے۔ اس بات کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہمارے یہاں ایسے لوگ موجود نہیں، جو اپنے بزرگ والدین ،دادا، دادی یا نانا،نانی کے ساتھ ادب و احترام سے پیش نہیں آتے بلکہ ہمارے یہاں کئی افراد ایسے بھی ہیں جو حضرت اویس ؒ کرنی کی طرح اپنی والدہ کے ایک ایک لمحے کی فکر رکھتے ہیں اور اپنی نیندیں و دیگر خواہشات ان کے لئے قربان کرتے ہیں۔ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اُمت کے اس قصائی کی طرح اپنی ماں کے لئے تمام قسم کی سہولیات میسر رکھتے ہیں جو روزانہ شام کے وقت اپنی ماں کے لئے نرم گوشت لایا کرتا تھا۔ اللہ پاک ان سب کی اس خدمت کو قبول فرمائے۔ لیکن بیشترلوگ ایسے ہیںجو اکثر اپنے بزرگ والدین یا دوسرے معمر افراد کے ساتھ نہایت بے ادبی، بد سلوکی اور بے رحمی کا رویہ اختیار کرتے ہیں ۔
اس وقت پوری دنیا میں تقریباً سات سو ملین معمر افراد موجود ہیں اور خدشہ ہے کہ ۲۰۵۰ ء تک یہ تعداد دو بلین تک تجاوز کر ے گی۔ اس وقت بھارت میں ایسے افراد کی تعداد چودہ کروڑ ( 13.8) کے قریب ہے ،جس میں نصف سے زیادہ عورتوں کی تعداد ہے اور خدشہ ہے کہ ۲۰۵۰ ء تک یہ تعداد تین گنا بڑھ سکتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس میں سے ڈیڑھ کروڑ معمر افراد تنہائی کی زندگی گزر بسر کر رہے ہیں، جس میں سے تین چوتھائی تعدادعورتوں کی ہے جبکہ اکتالیس فیصدی سے زیادہ معمر لوگ ابھی بھی کام کاج کر رہے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق کیرالہ کی ریاست میں سب سے زیادہ ( ساڑھے سولہ فیصد) معمر افراد ہیں جب کہ بہار اور یونین ٹریٹری جموں و کشمیر میں معمر افراد کی تعدادسب سے کم (ساڑھے سات فیصدی ) ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے وجود کا سبب ہمارےوالدین ہیں ۔ اِن ہی کی پرورش اور نگرانی میں ہم پلے، بڑے اور شعورِ جوانی تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے جس غیر معمولی قربانی، بے مثل جان فشانی اور انتہائی شفقت سے ہماری سر پرستی کی ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ ہم ہمیشہ ان کے احسان مند رہیں اور ہمارے دل کا ریشہ ریشہ ان کےشکر گزار رہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ’’ ہم نے وصیت کی، میرا شکر ادا کرو اور اپنے ماں باپ کے شکر گزار رہو‘‘۔ (لقمان)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ماں باپ ہی تمہاری جنت ہیں اور ماں باپ ہی دوزخ ‘‘ (ابن ماجہ)
یعنی ماں باپ کی خدمت سے ہی دونوں جہاں کی بھلائی، سعادت مندی اور عظمت حاصل ہوتی ہے ۔ والدین کو ہمیشہ خوش رکھنا چاہیے، اگرچہ والدین ایسے تقاضے و مطالبے کرنے لگیں جو توقع کے خلاف ہو ،توبھی ان کی کسی بات سے اُکتا کر جواب میں جھڑکیاں نہ دو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو تم ان کو اُف تک نہ کہو، نہ اُنہیں جھڑکیاں دو ‘‘۔ (بنی اسرائیل)
دراصل بڑھاپے کی عمر میں سوچنے، سمجھنے، بولنے، سُننے و چلنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے اور انسان توقع کے خلاف تقاضے اور مطالبے کرتا رہتا ہے ۔ ہمارےکئی بزرگ ایک ہی بات کے متعلق بار بار پوچھتے رہتے ہیں، جس کے ردعمل میں انہیں واپس ڈانٹا جا رہا ہے۔ کیا ہمیں اس وقت اپنے بچپن میں کی گئی حرکتوں کا اندازہ ہوتا ہے، جب ہم اپنے والدین کو بار بار کسی چیز کا نام پوچھتے رہتے تھے۔ اس کے برعکس ان کا ہر دفعہ بڑے پیار و محبت، شفقت اور بے انتہا نرم لہجے سے بتانا کیا احسان مندی نہ تھی، وہ تھکتے اور نہ تنگ آجایا کرتے تھے ۔ کئی بزرگ حضرات بیماری یا کسی تکلیف میں مبتلا ہونے کے سبب رات بھر سو نہیں پاتے، لیکن عزیز فرزندوں میں وہ محبت و شفقت کہاں جو انہیں بھی سونے نہ دیں اور والدین کی خدمت کرنے کے لئے جاگیں ۔ چہ جائیکہ صبح انہیں اس پر طعنوں سے بھری داستان سننا پڑتی ہیں ۔ کاش! ہمیں بچپن کی وہ ایک رات یاد پڑ جاتی جب ہم اپنے والدین کے بستر پر روتے روتے پیشاب کیا کرتے تھے اور اس طرح ان کی نیند بھی اڑایا کرتے تھے، اُن کے کپڑے بھی گندہ کیا کرتے تھے لیکن اس سب کے باوجود بھی ان کی وہ بے انتہا محبت و شفقت سے پیش آنا پھر گلے لگا کر ہمیں خشک بستر پر سُلا دینا کیا احسان مندی نہ تھی ۔
والدین کا ادب و احترام کرنے کا سلیقہ قرآن کریم نے یوں فرمایا کہ’’ اور ان سے احترام کے ساتھ بات کیجئے‘‘ (بنی اسرائیل) اسی طرح سورۃ الاحقاف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا ہے‘‘۔
یہاں رب العالمین نے ان کی بزرگی و برتری اس حد تک عظیم و بالا کر دی کہ انسان کو ان دونوں کے ساتھ نرم مزاجی، محبت و شفقت، نہایت ادب و احترام سے پیش آنے کا حکم صادر فرمایا ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ اللہ کی خوشنودی والد کی خوشنودی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے ‘‘۔ ( ترمذی، ابن ماجہ)
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ انسان کس قدر اخلاقی طور گر چکا ہے اور آئے روز اس بات کا مشاہدہ ہوتارہتا ہے کہ ہم کس طرح اور کس انداز کے ساتھ اپنے بزرگوں سے پیش آتے ہیں ۔ معمر افراد کورشتہ داروں، دوستوں، ہمسایوں و دیگر رفیقوں سے گلہ نہیں بلکہ اپنے لخت جگروں سے شکوہ ہے کہ جن کے ایسے رویے نے انہیں بڑھاپے کی زندگی میں بے سہاراچھوڑا اور تنہائی کی زندگی گزارنے پہ مجبور کر دیا ہےاور وہ بادشاہ ہو کر دوسروں کے مدد کے محتاج بن کر رہ گئے ہیں، انہیں بے یارومددگار چھوڑا گیا ہے، اپنا گھر ہوتے ہوئے بھی انہیں سرکاری و نیم سرکاری خیراتی گھروں میں پناہ لینا پڑی ہے ۔
حال ہی میں ۱۹ ستمبر کو ممبئی ہائی کورٹ نے نوے سال کے بزرگ شہری اور اس کی نواسی سالہ بیوی کو راحت دیتے ہوئے ان کے خلاف ان کے بیٹے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اس سے’’ غم زدہ کیس‘‘ قرار دے دیا۔ عدالت ِعظمیٰ نے سینئر شہری ٹربیونل کی ہدایت برقرار رکھتے ہوئے ’’بیٹے صرف شادی تک بیٹے ہیں جب کہ بیٹیاں ہمیشہ بیٹیاں ہیں ‘‘ حکم صادر کرتے ہوئے اپنی منفرد انداز کا فیصلہ ایسے بزرگوں کے حق میں سنایا ۔
حالانکہ دین اسلام نے بزرگوں کی عزت و تکریم، ادب و احترام اور حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین ابتدا سے فرمائی ہے ۔ اسلام نے جہاں اللہ کے حقوق بیان فرمائے ہیں وہاں والدین کے حقوق بھی واضح انداز میں بیان کیے ہیں ۔ قرآن پاک نے ماں باپ کے حقوق کو خدا کے حق کے ساتھ ساتھ بیان کیا ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے:’’ اور آپ کے رب نے فیصلہ فرما دیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ ‘‘ (بنی اسرائیل)
اللہ رب العالمین نے غیر مسلم ماں باپ ہوتے ہوئے بھی اُن کے ساتھ حسن سلوک، ادب و احترام اور خدمت کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ البتہ اگر وہ شرک و معصیت کا حکم کریں تو اسے انکار کرنا (سورۃ العنکبوت) لازم ہے۔ قرآن کریم نے اولاد کے کمائے ہوئے مال کا اولین حقدار والدین (البقرہ) کو ٹھہرایا ہے نہ کہ انہیں بزرگ ہونے پر گھر سے باہر کرنے اور اولڈ ایج ہوم میں بیجھنے کی تعلیم دی ہے ۔ اس کے برعکس آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے والدین کے کمائے ہوئے مال کو خود تقسیم کرنے بیٹھتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض اوقات والدین کو بھی دو بھائیوں میں تقسیم کیا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ چھوٹی فیملی بڑا محل کا نعرہ بلند کر کے الگ تھلک زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں ۔
ایک دفعہ ایک اولاد نے اپنے باپ کی شکایت دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں لائی۔ شکایت سننے پر رسول اکرم ﷺ نے اس کے باپ کو بلاوا بھیجا ۔ جب لاٹھی ٹیکتا ہوا وہ کمزور بوڑھا بزرگ صحابی چل پڑا تو دل میں رنجیدگی پیدا ہوئی، دل ہی دل میں درد کی داستان بھرے شعر پیدا ہونے لگے۔ ادھر جبرائیل ؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اللہ کا حکم لے کر حاضر ہوتے ہیں کہ پہلے اس بزرگ کے دل کا وہ حال سنا جائے جو وہ دل ہی دل میں سوچتا رہا۔ جب حاضر ہوا تو اس نے یوں عرض کیا۔’’ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک زمانہ تھا، جب یہ میرا اولاد کمزور اور بے بس تھا اور مجھ میں طاقت تھی، میں مالدار تھا اور یہ خالی ہاتھ تھا۔ یہ روتا تھا تو ہم سو نہیں سکتے، بیمار ہو جاتا تو طبیب کے پاس دوڑ پڑتے کہیں مر نہ جائے، گرمی سے بچا کر چھاؤں میں لے جایا کرتے تھے، میں نے کبھی اس کو اپنی چیز لینے سے نہیں روکا، آج میں کمزور ہوں اور یہ تندرست اور قوی ہے۔ میں خالی ہاتھ ہوں اور یہ مالدار ہے، اب یہ مال مجھ سے بچا بچا کر رکھتا ہے۔ زندگی کی آخری سانسیں اس کی چھاؤں میں گزرنا چاہتا تھا ۔ اب جوانی آتے ہی اس کے تیور بدل گئے ‘‘۔ اس بزرگ والد کی یہ باتیں سن کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے اور اس شکایت دہندگان لڑکے کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا :’’ جا تو بھی اور تیرا مال بھی، سب تیرے باپ کا ہے‘‘۔ قربان ہو جائیں ایسے فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر، جنہوںؐ نے بے سہارا کو سہارا دیا، بے گھروں کو گھر دیا اور درد کے ماروں کو مداوا کیا۔
یہاں میں محکمہ سماجی بہبود، جموں و کشمیر کی ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں ،جنہوں نے ۱۹۹۵ ء سے معمر افراد کی خدمت کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہےاورایسے افراد کو ماہانہ طور پر ایک خاص قسم کا پنشن دیا جا رہا ہے ،جس کے تحت اس وقت تقریباً 67060 رجسٹرڈ معمر افراد ماہانہ وظیفہ حاصل کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جموں میں ایسے افراد کے لئے’’ ڈے کئیر ہوم ‘‘ بنایا گیا ہے جہاں وہ دوسرے معمر افراد کے ساتھ بیٹھ کر محو گفتگو رہتے ہیں اورایک دوسرے کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہیںاور اپنے تجربات بھی آپس میں بانٹتے رہتے ہیں ۔
الغرض ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو بر وقت سمجھنا چاہئے اور اپنے بزرگوں کا ادب و احترام کرنا چاہئے اُن کے ساتھ حسن سلوک اور نہایت ہی نرم لہجے میں گفتگو کرنا چاہئے۔ علماء کرام کو بھی چاہیے کہ عوام الناس کو اس ضمن میں پوری طرح سے بے دار کریں۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ ایسے سبھی افراد کے حق میں ملنے والا ماہانہ وظیفہ مزید بڑھایا جائے تاکہ و ہ مہنگائی کے اس دور میںکسی حد تک اپنی ادویات و دیگر ضروریات پوری کرسکیں ۔ عدلیہ و قوانین نافذ کرنے والی ایجنسیوں کا بھی یہ اہم فریضہ ہے کہ وہ معاشرے کےاُن معمر افراد کو بھی جو عرصۂ دراز سے بے سہار اور بے آسرا پڑے ہوئے ہیں،کے حق میں وظایف اجراکریںاور سینئر شہری قوانین کو ٹھوس بنیادوںپر نافذ العمل بنائیںاور بزرگوں کے ساتھ گھریلو تشّدد کرنے والوں کے خلاف انتباہی کاروائی عمل میں لائیں تاکہ معمر افراد کو راحت کا سانس نصیب ہو جائے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں چاہئے کہ قرآن کریم اور اُسوہ رسول ﷺ کے رنگ میں رنگ جائیں تاکہ ہمارے بزرگوں کو اپنے حقوق مل جائیں اور انہیں در در کی ٹھوکریں کھانا نہ پڑیں۔نوجوانو ! یاد رکھو کہ تم پر جو تکلیفیں آتی ہیں وہ زیادہ تر تمہیں اپنے ہی کرتوتوں سے آتی ہیںوگر نہ خدا تعالیٰ تو تمہارے بہت سے قصور درگذر فرماتا ہے۔اگر آج تمہیں اپنے بزرگوں کے لئے تکالیف بھی اٹھانے پڑیں تو کل تمہارے آنگن خوشیوں سے بھر جائیں گے کیونکہ خلقت سے تکلیف دور کرکے خود تکلیف اٹھالینا حقیقی سخاوت ہے۔جوانمردی اور حقیقی سخاوت یہ ہے کہ آدمی دوسروں کی تکلیف اپنے سَر لے لیں اور تکالیف انسان کی اصول پروری اور استقلال کا امتحان ہیں۔آج کی تکلیفوں کا سامنا کرنے والے کے پاس آنے والے کل کی تکلیفیں آتے ہوئے گھبراتی ہیں۔ اللہ پاک ہمیں اپنے بڑوں کی عزت و تکریم اور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ہاری پاری ، گام ترال۔رابطہ – 9858109109)