حال ہی میں وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام میں خونخوار تیندوے نے چار سالہ ادا یاسر نامی معصوم بچی کو اپنا شکار بنایا جس کی موت واقع ہونے کے بعد ہر طرف لوگوں میں غم و غصہ پایا گیا۔ آپ کی نماز جنازہ کے دوران بھی انتظامیہ اور محکمہ وائلڈ لائف کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ آپ کی موت پہ زور دار سراپا احتجاج کیا گیا جس میں نزدیکی نرسری کو فوری طور پر ہٹانے کی مانگ کی گئی ہیں۔
حالانکہ انتظامیہ اس واقع کے رونما ہونے کے بعد متحرک تو ہوئی اور متعلقہ ریج آفیسر وائلڈ لائف کی معطلی کے ساتھ ساتھ گھنے جنگل کو تنا بنانے، اس کی فینسنگ لگانے، انسان خور تیندوے کو مارنے، متعلقہ محکمے کی پیٹرولنگ لگانے کے جیسے احکامات فوری طور پر صادر کیے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات سے معصوم بیٹی ادا یاسر کو واپس تو نہیں لایا جا سکتا لیکن دوسری کوئی انسانی جان تیندوے کا شکار بننے سے ضرور بچائی جاسکتی ہے ۔
دیکھا جائے تو اس واقعہ سے پہلے بھی متعدد دفعہ تیندوے کو ضلع بڈگام میںکئی مقامات پر کھلے عام گھومتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور کئی دفعہ سی سی ٹی وی میں اس کی حرکات کو قید کیا گیا ہے۔ اِس سب کے باوجود بھی اْس وقت انتظامیہ اور متعلقہ محکمہ نے اس خونخوار تیندوے کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی عمل میں نہیں لائی تھی جس سے اس حادثہ کو کچھ حد تک ٹالا جا سکتا تھا ۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت میں ایک عورت کئی روز سے بھوکی بیٹھی تھی تو آپ ؓکو معلوم پڑا، تو بحیثیت خلیفہ بے حد غمگین ہوئے اور اللہ کے یہاں جواب طلبی ہونے کے خوف سے روتے رہے ۔آپ ؓنے فرمایا کہ اگر دجلہ کے کنارے بکری کا بچہ بھی پیاسا رہے تو اس کے متعلق بھی باز پرس ہوگی – یہ آپؓکو اپنی اْس ذمہ داری کا احساس تھا کہ آپؓ راتوں کو گشت لگایا کرتے تھے۔ یہ دردمندی، انسانیت پرستی، خیر خواہی اور جذبہ ایثار ہمارے اسلاف کے اندر موجود تھی ۔ کاش اس طرح کا احساسِ ذمہ داری ہمارے انتظامیہ میں پیدا ہو جاتا تو شاید ادا یاسر جیسی معصوم بیٹی تیندوے کی شکار نہیں بنتی۔ ہاں اللہ کے یہاں انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ تمام تر تدابیر کو اپنانے کی کوشش کرے باقی وہی ہوگا جو تقدیر میں لکھا ہوگا ۔ اللہ کو پورا حق ہے کہ وہ اپنی چیز جس سے چاہے، جب چاہے واپس لے سکتا ہے۔
لخت جگر ادا جان کے والدین پہ کیا گزری ہے یہ وہی جانتے ہوں گے۔ اس کرب و درد، غم کے پہاڑ اور مصیبت کی گھڑی میں ہم ان سے کیا مرہم پٹی کرے وہ بے سود ہوگا ۔اْن کے آنکھوں کا تارا چلی گئی۔یہ ایک المیہ اور دل دہلانے والے حادثے سے کم نہیں تھا لیکن اسلام اپنے ماننے والوں کو ہر وقت، ہر لمحہ اور ہر حالت میں خوب رہ نمائی کرتا آیا ہے۔ اس وقت ہر ایک کے ذہن میں یہی سوال پیدا ہو رہا ہے کہ رب العالمین نے اس ننھی منھی معصوم بچی کو کیوں بے انتہا محبت کرنے والے والدین سے جدا کیا؟۔
ایسے کسی بھی واقعہ کے وقت ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے جہاں ہمیں لگتا ہے کہ ایک معصوم کی جان بنا کسی خطا کے چلی گئی ہو۔ ایک مسلمان کا اللہ کے صادر کردہ فیصلوں میںبلا چوں و چراں ماننا ایمان کی علامت ہے۔ رب الزوجلال کے فیصلے کے سامنے ایک انسان کو عموماً اور مسلمان کو خصوصاً راضی بہ رضا رہنا چاہئے۔
اللہ کے نبی ؐ کا یہ ارشاد بچے کے فوت ہونے پر صبر کرنے میں خاص طور پر راہ نمائی کرتا ہے۔ امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیؐ نے فرمایا ’’جس مسلمان جوڑے کے تین بچے انتقال کر جائیں، اللہ رب العزت ان بچوں پر فضل ورحمت کرتے ہوئے ان دونوں کو جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘ صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا " اور دو بچے" ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا اور دو بچے بھی۔ صحابہ ؓ نے پھر عرض کیا " اور ایک" ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا " ایک بھی "۔ پھر آپ ؐنے فرمایا " اس ذاتِ پاک کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جس عورت کا کچا بچہ فوت ہو جائے اور وہ اس پر صبر کرے تو وہ بچہ اپنی ماں کو اپنی ناف کے ذریعے کھینچتا ہوا جنت میں لے جائے گا۔ (مسند امام احمد)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ ہماری آزمائش ہمارے مال، اولاد، بھوک، جان سے ضرور کرینگے ( البقرۃ؛ 155- 157 ) تاکہ صابرین کو پرکھا جائے۔ ایسے واقعات کے رونما ہونے پہ اسلام خودکشی جیسے حرام فعل کی اجازت قطعاً نہیں دیتا بلکہ صبر و صلواۃ سے مدد لینے کی ترغیب کرتا ہے۔ ایسے مواقع پہ اللہ رب العزت کے شان میں کفریہ الفاظ کے کہنے سے اجتناب کرنا چاہئے ،یہی مسلمان کا ایمان و یقین ہے۔
ہمیں چاہئے کہ ایسی صورت حال میں ہم اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ؐ کے طریقہ کو اختیار کریں اور مصیبت کی اس گھڑی کو یاد کریں جب ہمارے آقائے نامدار رسالت مآب سرور کونین حضرت محمد رسول اللہ ؐ کے پہلے لخت جگر قاسمؓ دو سال چھ ماہ کے ہوئے تو اْن کا انتقال ہو گیا۔ اِس کے بعد دوسرا لخت جگر عبداللہؓ جو مکہ مکرمہ میں نبوت کے بعد پیدا ہوئے، ۲ سال سے کم عمر ہی میں اْن کا بھی انتقال ہو گیا۔ اْن ہی کی موت پہ مشرکیں مکہ نے آپؐکو ابتر ( اولاد کے بغیر) کے طعنے دیے ، تو اِس پر سورہ الکوثر نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ؐ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔ اور اس کے بعد تیسرا لخت جگر ابراہیمؓ جن کی پیدائش مدینہ منورہ میں ۸ ہجری میں ہوئی، 10 ہجری میں16 یا 18 ماہ کی عمر میں بیماری کی وجہ سے انتقال کر گیا۔ ابراہیمؓ کے انتقال پر آپؐکافی رنجیدہ ہوگئے- چشمانِ مبارک سے آنسو جاری ہوئے لیکن بزبان درفشاں محمد ؐ پہ اللہ رب العزت کی حمد و ثنا اور عظمت و کبریائی ہی رہی ۔ اس طرح کے پے در پے اولادوں کے جانے کا غم یہاں ہی نہیں رکا بلکہ آپؐکی دختر نیک اختر سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا جو سب سے بڑی صاحبزادی تھیں کو ھبار بن اسود (جو بعد میں مسلمان ھوگئے تھے) نے مدینہ کی طرف جاتے وقت نیزے سے حملہ کیا شہزادی امام الانبیاء رحمت للعالمین پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰیؐکو اپنی سواری سے چٹان پر گرا دیا گیا جس سے وہ کافی زخمی ھوگئیں۔ مدینے میں اپنے ابا جان محمد رسول اللہؐ کی خدمت میں پہنچ کر سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے کفار کی طرف سے پہنچنے والے مظالم کا ذکر فرمایا تو نبی اکرمؐکا دل بھر آیا پھر ارشاد فرمایا "زینب میری سب سے بہترین بیٹی ہے جسے میری وجہ سے تکالیف سے دوچار کیا گیا " اور بعد میں آپؓ انہیں زخموں سے ۸ ہجری میں انتقال فرما گئی ۔
اس سے بڑھ کر اپنے لخت جگروں کی وفات پر صبر کی عظیم مثال کہاں مل سکتی ہے۔اسے کہتے ہیں صبر جمیل جس کے بدلے میں رب العالمین اپنے نیک بندے کو جنت کے اندر بیت الحمد یعنی ایک خوبصورت محل عطا فرمائے گا۔
اسلام نے صبر و ہمت کا دامن چھوڑ دینے اور واویلہ اور نوحہ کرنے کی جیسی حرکت سے باز رکھا ہے اور یہ سبق دیا ہے کہ انسان کو جب کوئی اچھی چیز مل جائے تو اس پر خوش کرے اللہ کا شکر بجا لائے اور کوئی چیز گم ہو جائے تو اس پر زیادہ رنج و ملال کا اظہار نہ کرے بلکہ اس سے اللہ کی رضا سمجھے۔
حضرت ام سلیمؓ نے اپنے لاڈلے اور پیارے بیٹے کے فوت ہونے پر کس طرح سے صبر و ہمت کا دامن تھامے کر رکھا۔ اور کس طرح سے سنجیدگی و متانت کا اظہار کیا۔ اس میں موجودہ زمانے کے مصیبت زدہ مسلمانوں کے لئے بہترین سبق و نصیحت حاصل ہوتی ہے ۔
مزید ہمیں مصیبت کے وقت نبی کریم ؐنے جو دعا سکھائی ہے اس کا ورد کر کے صبر و اجر کا طلبگار بن کر رہنا چاہیے۔ اس دعا میں بہت فضیلت اور اجر عظیم ہے۔ دعا اس طرح سے ہے کہ " اے اللہ میری مصیبت میں مجھے اجر دے اور اس کا نعم البدل عطا فرما" آمین یا رب العالمین۔
رابطہ ۔ہاری پاری گام، ترال کشمیر
فون نمبر۔ 9858109109