پیلٹ فائرنگ کی تازہ ترین متاثرہ انیس ماہ کی حِبہّ جان، جس کی ایک آنکھ کی روشنی لوٹ آنے کے بارے میں اس کے معالجین پُر امید نہیں ہیں، مہذب اور جمہوری دنیا کےلئے ایک سوال ہے کہ اس معصومہ کی خطا کیا تھی؟ جو اُسے ایسی بیدردانہ صورتحال سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ بھلے ہی ہمارے سیاستدان اورمنتظمین لمبے چوڑے دلائیل پیش کرنے کی کوشش کریں مگر حقیقت یہی ہے کہ تصادم آرائیوں کے بدترین نتائج اب ہماری اُس نسل کی جانب منتقل ہو رہے ہیں، جو ابھی اپنی آنکھیں کھولنے کے عمل سے بھی ناواقف ہے اور یہ سب ایسے حالات میں ہو رہا ہے، جب صاحبانِ جلالت کی جانب سے نت نئے مہلکات استعمال کرنے کی کھلے عام وکالت ہو رہی ہے۔بھلے ہی عام انسان کو اس کے کیا کیا نتائج بھگتنا پڑیں، جیسے حبّہ جان کے ساتھ ہو ا ہے، جو کمرے کے اندر ماں کی گود میں اٹھکھیلیاں کر رہی تھی کہ سڑک پر متصادم مظاہرین پر چلائے گئے پیلٹ کمرے کےدروازے کو چیرتے ہوئے اسکی آنکھ میں پیوست ہوگئے۔ پیلٹ گن کو جموں وکشمیر میں متعارف کرتے وقت ہی درد دل رکھنے والے سنجیدہ فکر حلقوں نے اسکے بدترین مضمرات سے آگاہ کیا تھا ،مگر کوئی سننے والا نہ تھا۔پیلٹ فائر، جسے پہلے ہی دنیا بھر کی رائے عامہ نے ایک غیر انسانی اور بہیمانہ ہتھیار قرار دیا ہے، کا بار بار استعمال کشمیر میں صورتحال کو سنگین بناتا جا رہا ہے اگر چہ حکومت نے کئی مرتبہ اس کے محدود استعمال کی یقین دہانیاں کرائی ہیں مگر اسکے باوجود سیکورٹی فورسز اس ہتھیار کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے سے گریز کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہیں۔ جس بڑے پیمانے پر اس انسانیت کش ہتھیار کا استعمال عمل میں لایا جا رہا ہے،اب تک سینکڑوں لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ جن کے لئے کلی یا جزوی طور پر آنکھوں کی بینائی سے محروم ہونے کا خطرہ پیداہوگیا ہے۔ اس طرح حکومت کی جانب کم مہلک قرار دیئے جانے والے اس ہتھیار نے کتنے گھرانوں میں اندھیرا برپا کر دیا اس کے لئے حکومت بہر حال دنیا کے سامنے جوابداہ ہے۔ اگر چہ عدالت عظمیٰ ایک عرضی، جو کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے دائر کی تھی، پر اپنے فیصلے کے دوران مرکزی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ پیلیٹ گن کا مؤثر متبادل اختیار کرے، لیکن اس کے باوجود مرکزی و ریاستی حکومتیں اس پر عمل آوری میں نہ صرف ناکام ہوئی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حکومتی حلقوں کی سوچ میں اس خیال کی رمق بھی کہیں نظر نہیں آتی تو غالباً غلط نہ ہوگا۔ عدالت عظمیٰ نے پیلٹ کے استعمال کا معاملہ حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا اور یہ فیصلہ مرکزی حکومت کو کرنا تھاکہ وہ کیا متبادل اختیار کرے گی اور یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پیلٹ چھروں کے متبادل استعمال کرنے کی باتیں پہلے بھی ہوئی تھی اور 2016ایجی ٹیشن کے دوران ہی مرکزی وزیر داخلہ نے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی اور اُس کمیٹی نے واضح الفاظ میں پیلٹ بندوق کے استعمال کی ممانعت کرکے اس کا متبادل متعارف کرنے پر زور دیا تھا ۔چنانچہ اس کے بعد ہی پاوا شل کو پیلٹ گن کے متبادل کے طور متعارف کیاگیالیکن زمینی صورتحال یہ ہے کہ پیلٹ بندوق کا استعمال مسلسل جاری ہے اور یہ بندوق پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کا پسندیدہ ہتھیار بن گیا ہے اور وہ اسی ہتھیار کا استعمال کرکے احتجاج کی لہر کودبانے پر تلے ہوئے ہیں۔دلّی اور سرینگر میں اقتدار کے سنگھاسن پر براجماں لوگوں کو یہ ناقابل تردید حقیقت قبول کرنے میںکوئی ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہئے کہ کشمیر میں تاریخی سیاسی وجوہات کی بنا پر مزاحمت کا سلسلہ موجودہے ۔ہاتھوں میں پتھر لیکر اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے والوں پر قوم دشمنی کا لیبل لگا کر آپ ایک پوری نسل اور قوم کو ہی متنفر کررہے ہیں اور اس پالیسی سے مثبت نتائج کی توقع رکھنا عبث ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں بیزاری میں مزید اضافہ ہورہا ہے ۔کشمیر میں پیلٹ گنوں کا دفاع کرنےوالے انتظامی و سیکورٹی عہدیداروں کو ذرا سوچ لینا چاہئے کہ اگر ملک کی کسی دوسری ریاست میں ایسی ایجی ٹیشن ہوتی ہے، جس میں پتھر استعمال ہوتے ہیں، تو کیا وہاں بھی پیلٹ استعمال کیا جاتا ہے۔آخر یہ پیمانے جدا جدا سے کیوں ہیں؟۔اگر مرکزی اکابرین ذرا غور فرمائیں گے تو انہیں جواب مل جائے گا ۔وقت کاتقاضا ہے کہ کشمیر میں علیحدگی پسندانہ جذبات کو بزور طاقت کچلنے یا دبانے کی بجائے تاریخی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے مفاہمت اور ہمدردی کی پالیسی اپنائی جائے تاکہ لوگوں کو یہ لگے کہ دلّی کی حکومت ان کیلئے درددل رکھتی ہے ورنہ موجودہ پالیسی سے دوریاں مزید بڑھ ہی جائیں گی جو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔ موجودہ صورتحال پر جہاں بین الاقوامی سطح پر زبردست نکتہ چینی سامنے آرہی ہے وہیں ملک کے اندر بھی متعدد حلقے ایسے ہیں جو جموںوکشمیر اور دیگر ریاستوں میں ہجوم کو قابو کرنے کےلئے اختیار کی جانے والی پالیسی میں امتیاز اور تفاوت کو سامنے لاکر ریاستی عوام کے تئیں مرکزی حکومت کے سلوک پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔ریاستی انسانی حقوق کمیشن نے حبہ جان کے دردناک معاملے پر پولیس اور انتظامیہ کو نوٹس ارسال کئے ہیں لیکن انکا کیا جواب ہوگا، اس کے بارے میں ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے کوئی مثبت امید رکھنا عبث ہے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے، کہ ہماری حکومتیں حالات بہتر بنانے سے زیادہ سیاستکاری میں سنجیدہ نظر آرہی ہیں۔