امام الانبیاء سرور کونین رحمت للعالمین خیرا الانام حضرت محمد مصطفی ؐ کو سب سے بڑا زندہ و دائمی معجزہ تو قرآنِ حکیم عطا ہوا ہے۔ بلکہ قرآن کے علاوہ مناسب موقعوں پر آپؐ کی ذاتِ اقدس سے بے شمار معجزات کا ظہور ہوا ہیں۔ ان میں سے شق القمر اور معراج بہت ہی اہم اور اعلیٰ مقام کے حامل ہیں۔
معراج کا لفظی معنی اوپر چڑھنے کے ہیں چونکہ اللہ کے نبیؐ نے اپنے ایک آسمانی سفر کے بارے میں یہ لفظ استعمال فرمایا ہے۔ قرآن نے اس کو اِسراء( The journey of Night ) کا نام دیا یعنی راتوں رات کا سفر۔ اس مقدس سفر سے دراصل بے شمار حقیقتوں سے پردہ اٹھانا مطلوب تھا اور اللہ کو اپنے محبوب نبی ؐ سے ہم کلام ہونے کا سبب تھا۔ معراج کے واقعہ سے اللہ کے رسول ؐ کو وہ حقیقتیں دکھا دی گئیں جن پر ایک مومن بِن دیکھے آپ ؐ کے فرمان پر ایمان لے آئے۔ تاکہ آپؐ دنیا کے سامنے مشاہدے کے بعد پوری قوت اور زور سے یہ بات واضع فرمائے کہ آپؐ جن اَن دیکھی حقیقتوں پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں اْن کا آپؐ مشاہدہ کر کے آئے ہیں۔
قرآن کریم نے اِسراء جیسے آسمانی سفر کا نقشہ یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’ پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے (حضرت محمد ؐ ) کو رات ہی رات میں مسجد ِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقینا اللہ تعالیٰ خوب سننے دیکھنے والا ہے‘‘۔ ( بنی اسرائیل۔1 )
مسجد ِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک لے جانے کو اِسراء کہتے ہیں اور آگے آسمانوں پر جانے کو معراج کہتے ہیں ۔ ملک شام میں دینی برکت یہ ہے کہ وہاں بکثرت انبیاء علیم السلام مدفون ہیں اور دنیاوی برکت یہ ہے کہ وہاں اشجار ، انہار اور پیداوار کی کثرت ہیں۔
تاریخ معراج کا واقع ہجرتِ مدینہ سے تقریباً سال ڈیڑھ سال پہلے پیش آیا ہے۔ یعنی قرآن نازل ہونے کے دس سال بعد۔ اس واقعہ کے بارے میں بخاری و مسلم کی روایات کو سامنے رکھنے کے بعد یہی مجموعی تفصیل سامنے آتی ہے کہ ’’ اللہ کے نبیؐ نے ایک صبح کو ارشاد فرمایا کہ گذشتہ رات میرے رب نے مجھے بڑی عزت اور اعلیٰ مقام بخشا ہے۔ آپ ؐ سوئے تھے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر جگایا اور حرم کعبہ میں اٹھا لائے۔ یہاں سینہ مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا گیا۔ پھر ایمان و حکمت سے بھر کر بند کردیا۔ اس کے بعد سواری کے لئے بْراق ایک جانور جو خچر سے چھوٹا اور سفید رنگ کا تھا پیش کیا گیا۔ نبیؐ اس پر سوار ہوئے کہ بیتْ المقدس جا پہنچے۔ بْراق کو مسجد کے دروازے پر باندھ دیا گیا اور نبیؐ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے۔ وہاں دو رکعت نماز ادا کی گئی۔ اب جبرئیل علیہ السلام نے شراب اور دودھ سے بھرے دو پیالے پیش کئے ہیں۔ حضرت نبی اکرمؐ نے دودھ کا پیالہ قبول کرکے دین ِ فطرت کو اختیار کیا۔
اس کے بعد آسمان کا سفر شروع ہوا۔ پہلے آسمان کے نگہباں فرشتے نے پوچھا تمہارے ساتھ کون ہیں؟ جبریل ؑنے بتایا ’’یہ محمدؐ ہیں‘‘۔ فرشتے نے پھر پوچھا ’’کیا یہ بلائے گئے ہیں؟‘‘۔ جبریل ؑ نے بتایا ’’ہاں‘‘۔ یہ سن کر نگہبان فرشتے نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا ’’ایسی ہستی کا آنا مبارک ہو‘‘۔
وہاں آپؐ حضرت آدمؑ سے ملاقی ہوئے۔ اس کے بعد دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ ؑاور حضرت عیسیٰ ؑ سے، پھر تیسرے آسمان پر حضرت یوسف ؑسے، چوتھے پر حضرت ادریس ؑسے، پانچویں پر حضرت ہارونؑ ، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ ؑ اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقی ہوئے۔ سبھی نے سلام کے جواب میں ’’ خوش آمدید اے صالح نبی‘‘ فرمایا- پھر آپ ؐکو سدرۃالمنتہیٰ جو ایک بیری کا پیڑ انتہا پر ہے تک پہنچایا گیا۔ اس پر بے شمار ملائکہ جگنوں کی طرح چمک رہے تھے۔ یہاں آپؐ نے بے شمار حقیقتوں کا مشاہدہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی حاصل کیا۔
بارگاہِ خداوندی سے دن رات میں پچاس نمازیں جو بعد میں کم کرتے کرتے پانچ کر دی گئیں بطور تحفہ خاص الخاص امت مسلمہ کے لیے مرحمت فرمائیں گئیں ہیں۔ نماز کے علاوہ بارگاہِ الٰہی سے دو تحائف اور بھی مرحمت ہوئے ایک تو سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں جن میں اسلام کے عقائد اور ایمان کی تکمیل کا بیان ہے اور یہ بشارت ہے کہ اب مصیبتوں کا دور ختم ہونے والا ہے۔ دوسری خوش خبری یہ بھی دی گئی کہ اْمتِ محمدیؐ میں سے جو کوئی شرک سے بچا رہے گا اس کی مغفرت ہوجائے گی۔
آپؐ نے جنت و دوزخ کا بھی مشاہدہ کیا اور مرنے کے بعد اعمال کے لحاظ سے جس جس قسم کے حالات سے لوگوں کو گذرنا ہے اس کے بھی چند مناظر آپؐ کے سامنے پیش کئے گئے۔ آسمانوں سے واپس ہونے کے بعد جب آپؐ پھر بیت المقدس تشریف لائے تو دیکھا کہ یہاں انبیاء علیہم السلام کا مجمع کھڑا ہے۔ آپؐ نے دو رکعت نماز (نفل) پڑھائی اور سب نے آپؐ کے مقتدی بن کر نماز ادا کی۔ اس طرح آپؐ امام الانبیاء سے سرفراز ہوئے ہیں۔ اس کے بعد آپؐ اپنے مقامِ آرام پر واپس تشریف لے آئے اور صبح کو اسی مقام سے بیدار ہوئے۔
آپؐ نے جب صبح کے وقت یہ واقعہ بیان فرمایا تو قریش کے کفار میں جو لوگ مخالف تھے انہوں نے آپؐ کا نہ صرف مزاق اڑایا بلکہ بیتْ المقدس کے بارے میں معلومات کا امتحان کرنے کا فیصلہ بھی کیا اور جن لوگوں کے دلوں میں آپؐ کی سچائی اور صداقت کا یقین راسخ ہوچکاتھاانہوں نے حرف بہ حرف تصدیق کی۔ یہ واقع سنتے ہی کئی کافر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس چلے گئے اور کہا کہ آج آپ کا دوست یوں فرماتا ہے۔ اس پر آپؓ نے فرمایا کہ اگر واقعی طور پر میرے نبیؐ نے فرمایا ہے تو یہ سب درست ہوگا، جس میں ذرا بھی شک نہیں۔ اس طرح یہ کافر رسوا ہو کر لوٹ آئے۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا کہ " جب قریش کے لوگوں نے مجھ پر یقین نہیں کیا کہ میں معراج کرکے آیا ہوں تو میں الحجر میں کھڑا ہوا اور اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کو میرے سامنے لاکھڑا کردیا اور میں اْن لوگوں کو وضاحت کرتا رہا جب کہ میں اْس کی طرف دیکھ رہا تھا‘‘۔ (صحیح البخاری ، ج / ۵، ح / ۶۲۲)۔
معراج کا واقعہ ایک طرف تو لوگوں کے ایمان و رسالت کی تصدیق کا امتحان تھا تو دوسری طرف خود آپؐ کو غیب کی بے شمار حقیقتوں کے مشاہدے کا ذریعہ بھی تھا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ اْس رونما ہونے والے انقلاب کے لیے ایک اشارہ تھا جس سے اسلامی تحریک کو جلد ہی دوچار ہونا تھا جو قرآن پاک کی سورہ بنی اسرائیل میں ملتی ہے۔
لہٰذا معراج یا اسراء کا پیغام یہی ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے پسندیدہ تحائف کو اپنی زندگی میں لائیں اور اللہ کے محبوب نبی ؐکی خوشنودی حاصل کرکے دنیا و آخرت میں فلاح پائیں۔ اللہ ہم سب کو اپنے محبوب رسولؐ کے ارشادات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
رابطہ۔ہاری پاری گام ترال
فون نمبر۔9858109109