حضرت پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت مبارکہ لامثال معجزات سے بھری پڑی ہے جن میں قرآن مجیدفی نفسہٖ ایک عظیم ترین معجزہ ہے جب کہ معراج نبویؐ کا معجزے کے اعتبار سے تا قیام قیامت عظمت ِپیغمبر آخر الزمان ؐ کا مظہر اورشانِ اسلام کا نمائندہ ہے ۔ اس معجزے کے اولین تصدیق کرنے والے صدیق اکبر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کہلاتے ہیں۔ اہل اسلام کا اس معجزے پر عقیدہ بالاتفا ق وبالاجماع مشترکہ ہے ۔حضور اقدس نے یہ مبارک سفر افلاک بروح وجسد فرمایا ۔ معراج مصطفیٰ ﷺ میں ہمارے لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر زندگی کے ہر گوشے کے لئے سبق پنہاں ہے ۔ معراج میں اللہ جل شانہ نے پیغمبر کریم ؐ کو رات کے دوران زمین و آسمان کی وسعتوں اور عجائبات ِ کائنات کاعلم، عالم ملکوت کا تعارف اورنصائح وعبرتوں کے پہلو بہ پہلو زیارت وامامت انبیاء کرامؑ کا اعزاز دیا ،مزیدبرآں آپ ؐ کوتکوینی وتشریعی معاملات اورکارخانۂ غیب کے مشاہدات بہرہ ور کردیا گیا اور پنج وقتہ نمازوں کی فرضیت اُمت کو بطور تحفہ عطا کیا گیا ۔معراج کی وساطت سے پیغمبر اسلام ؐ کو مختلف آسمانوں میںمتعدد انبیاء کرام ؑ سے ملاقات ہوئی اوراس عظیم سفر کی آخری منزل سدرۃ المنتہیٰ تھی۔معراج سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مومن کے لئے ربع مسکن کی سیر اس لئے ضروری ہے تا کہ وہ زمین کے حیرت انگیز عجوبات ،تحصیل علم ،ملاقات علماء ،زیارت بزرگان ِ دین سے ربط وارتباط ،خدمت ِمخلوقات عالم سے سرفراز ہوسکے اورمعرفت خداوندی اور خدمت بندگان ِ خدا کاانعام حاصل کرکے فکری وروحانی انقلاب کا نقیب بنے اور مکان وزمان کا قیدی بن کر نہ رہے ۔مومن جب دنیائے معرفت کے انقلاب میں داخل ہوتا ہے تو طلوع وغروب صبح وشام سے بالاتر ہوجاتا ہے۔اس معرفت خداوندی سے وہ دونوں جہانوں کی کامرانیاں حاصل کرسکتا ہے۔حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء اس معرکتہ الارا ء معجزے پر فرماتے ہیں کہ یہ سفر تین حصوں میںہوا ہے: اول ناسوتی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ۔دوم، اس کانام سیر ہے مسجد اقصیٰ سے سدرۃ المنتہیٰ کی۔ اس کا معراج ہے سدرۃ المنتہیٰ سے قاب وقوسین تک،اس کانام اعراج ہے ۔حضور اقدس ﷺ کاذات مقدس ان تین حصوں کے مبارک اسفار میں اسماء محمد ﷺ احمد اورحضرتِ نورؐ سے ملقب ہے کیونکہ یہ تینوں ناسوتی ،ملکوتی ونوری سفر تھا ۔حضرت عیسیٰؑ نے بھی حضرت احمد ؐ کی بشارت فرمائی کیونکہ ان کی ذات ملکوتی وآسمانی تھی ۔لہٰذا انہوں نے مسکن کے لحاظ سے بشارت فرمائی۔حضور اقدس ﷺ کے معراج مقدس کی ابتداء بھی مسجد اور انتہا بھی مسجد ہے ۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسجد کی شان کتنی بلند فرمائی کہ مومن کے سفر کی ابتداء مسجد اورانتہا بھی مسجد سے ہونی چاہئے ۔اس کا اظہار نماز ہے ۔حضور ﷺ مسجد حرام ، مسجد اقصیٰ ،سدرۃ المنتہیٰ بھی تشریف لے گئے اوراہتمام نماز وامامت فرمائی ۔ خدا کی طرف سے امت کے لئے بھی نماز بطور انعام عالم ملکوت میں عطا ہوئی جیسے کہ حدیث میں آیا ہے :نماز مومن کی معراج ہے ۔ نماز ہی فرداور ملت اسلامیہ کیلئے تطہیر ظاہروباطن ہے، یہ آدابِ معاشرت ،اتحاد ملت ،مساوات امت ، سماجی و دنیوی مسائل سے واقفیت اوراُخروی زندگی کا جامع پیغام ہے ۔حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کا ۷۰مرتبہ استغفار کرنے کا یہ بھی معنی ہے کہ حضور ﷺ کو ہرروز ۷۰مراتب عالیہ سے نوازا جاتا ہے، آنے والے دن کے مراتب گذشتہ دن کے مراتب سے بلند ہوتے ہیں ،یہاں تک کہ آپؐ کی انتہا مقام ِمحمود ہے لیکن حضور اقدسؐ ہر مرتبے پر اظہار ِنیستی واستغفار کرتے ہیں، یہی عبدیت کی شان ہے کہ مومن ہر منزل پر محو توبہ و استغفار رہے ۔یہی وجہ ہے حضور اقدس ؐ اس مبارک سفر کی ہر منزل پر استغفار فرماتے ہیں، خدا کی قدرت وصناعی بے ھڈوبے کراں ہے جب کہ اللہ کے حضوربندگی کا تاج توبہ واستغفار ہے ۔ پیارے نبی ؐ کے دیدار خداوندی سے فیض یابی میں ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ ہم متاع دنیا سے جی لگاکر اصل مقصد سے لاتعلق نہ ہوں، بے شک دنیا اورمتاعِ دنیا ذریعہ زندگی ہے لیکن اصل مقصد معرفت ِخداوندی اور خدمت مخلوقات عالم ہے۔ جب آنحضرت ؐ سیر افلاک کے مبارک سفر سے واپس آئے تو اہل اسلام کے لئے بہت سارے ا سباق ودروس لائے ، مثلاً یہ کہ انسان اگر کسی بڑ ے مرتبے یا منصب پر فائز ہوجائے تواسے خدمت ِخلق اللہ سے کسی حا ل میں دستبردار نہیں ہونا چاہئے۔ اس کیلئے نرم گفتاری ،انکساری ،محبت و انسانیت کامیابی کی لازمی شرط ہے ۔ موجودہ دور میں اس چیز اور جذبے کا فقدان ہے۔اس بناپر ہم ہر جگہ ظلم وناانصافی بے بسی وبے حسی کے دلدل میں پھنس کر مصائب ومظالم کی گرفت میں تڑپ رہے ہیں۔جس امت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اورمعراج نبوی ؐ جیسے انعامات دے کر عقیدتی، روحانی ، علمی ، تہذیبی ، ثقافتی ،سیاسی غلبہ واقتدار کے مناصب بخشے اور اس کو دنیا کی امامت پر فائز کیا تاکہ یہ کل جہاں کے بے نواؤں اور کمزور طبقوں کی فریادرسی کرے ،اُن کی دینی ودنیوی بھلائیوں کا اہتمام کر ے لیکن آج کی تاریخ میںاس اُمت نے یہ انعامات طاق ِ نسیاں کی زینت بناکر اپنی وہ روحانی وبدنی استعداد ختم کر دی ہے جس نے ہمارے اسلاف کو دنیا میں امتِ وسط کے طور پیش کیا ۔ ذرا یاد کیجئے کہ حضور اقدسؐ کے ہاں جب ایک محتاج عورت کوئی مسئلہ لے کر آئی تووہ جلالِ محمد یہ ؐ دیکھ کر اپنے لب کھولنے پر قادر نہ ہوئی م حضور ؐ نے یہ تاڑلیا تو عاجزی و انکسار ی کی لامثال قوت مجتمع کر کے فرمایا :کہہ دو کیا کہنا ہے ، ڈر مت، میں اُس عورت کا بیٹا ہوں جو گوشت سکھاکر کھاتی تھی ،یعنی فریاد سننے کیلئے اپنے رحمت ورافت کی باغ وبہار کواتنا دل نشین بنایا کہ وہ عورت درد بھری داستان بیان کرنے میں ذرہ بھر نہ ہچکچائی ۔ کیا آج ہم لوگ یا ہماری ملت کے پاسبان ورہنما اس اسوۃ الحسنۃ پر عمل پیر ا ہیں؟دوکے مابین اختلافات کی دراڑمیں تیسرا اپنالّو سیدھا کرنے لگے توقوم کی نیّا خاک کنارے لگے گی ؟ اپنے اپنے گروہی مفاد کے لئے بے تحاشہ اصول قربان کر نے کی بری عادت نے ہی اقوام عالم کا سیاسی اخلاقی واقتصادی بیڑا غرق کیا ہوا ہے ۔ اس بھنور سے نکلنے کا واحد راستہ اسلام کا یہ درسِ معراج ہے کہ ہم یہ بات اپنے پلے باندھیں کہ جو کچھ بھی دنیا میں کر رہے ہیں اس کا ایک دن احتساب ہوگا، بُرے کا بُرا انجام ہوگا اور بھلے کا بھلا ہی نتیجہ برآمد ہوگا۔برصغیر کے معروف روحانی پیشوا مولانا شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ سے معراج مصطفیٰ کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا :معراج دو حصوں میں ہے، ایک ہے عروج،دوسرا ہے نزول۔ عروج سے بہتر نزول ہے کیونکہ عروج سے انعامات حاصل ہوکر نزول میں اہل ارض کو تعلیم و منتقل کرنا فلسفہ معراج ہے۔
حضور ﷺ نے اس مبارک سیر افلاک سے نصیحت آموز واقعات مشاہدہ کئے۔ آنجنابؐ نے انہیں صحابہؓ میں تفصیلاً بیان فرماکر انہیں پندو نصائح پر عمل پیر اہونے کی تعلیم دی ۔عبرت انگیز واقعات سے باخبر کرکے اُن کو گناہوں سے الگ رہنے کا مکلف بنایا ۔مثلاً حضور ؐ نے فرمایا کہ میں نے ایک چھوٹے بل سے ایک کیڑا نکلتے ہوئے دیکھا، باہر آکر وہ اتنا جسیم ہوا کہ اس بل میں واپس جانے کی ناکام کوشش کرتا تھا۔ میں نے حضرت جبرئیل ؑ سے ا س بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ منہ سے نکلی ہوئی فتنے کی بات ہے جو نکلتے وقت چھوٹی لگتی ہے لیکن جب اس بات سے بہت بڑا فتنہ بھڑک اٹھتا ہے تو کہنے والا اس بات کو واپس لینے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ بات اتنی نقصان کرچکی ہوتی ہے کہ واپس لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔آج ہم جب اس واقعہ کو پڑھتے ہیں یہ بات علمائے سوء اوراقتدار پرست لوگوںمیں موجود پاتے ہیں جو بغیر تحقیق وحوالہ عوام میں ایسی باتیں کرتے ہیں جس سے شروفساد پیداہوجاتے ہیں ۔نبی کریم ؐ نے معراج کے دوران ایک جگہ بہترین پرندوں کی چونچوں کو نجاست میں غرق دیکھا ، استفسار کیا تو حضرت جبرئیل ؑ نے فرمایا یہ اُمت کے وہ علماء ہیں جن کی شان وشوکت بلند تو ہے لیکن ان کی غذا مکمل حرام ہے ۔جب غذا حرام ہوتو بیان کی تاثیر ختم ، تاثیر ختم تو عمل کا فقدان ۔اس بیماری سے رِیا ، جاہ پرستی ،حسد ،تکبر عدم اخلاص کا بول بولا ہوجاتا ہے اور خیر مغلوب ہوکر رہتا ہے۔ آج عرب و عجم شر و عصیاں میں لتھڑا نظر آتے ہیں ، ان کا علاج یہی ہے کہ معراج مصطفی ؐ کے اسباق کی روشنی میں ہم انفرادی اور اجتماعی اصلاح کے لئے کمر بستہ ہوجائیں ۔ اس حوالے سے ہم سب مسلمانوں کو سیرت مصطفیٰ ؐ کی اتباع کر نے کی نیت سے ہر محاذ پر سنبھلنے اور بدلنے کی اشدضرورت ہے ؎
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدامہرباں ہوگا عرش ِ بریں پر
رابطہ نمبر:۔ 9419076985
Email:[email protected]