اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بے انتہا معجزات و کمالات عنایت فرمائے اور انہیں قربت کی ان منازل پر فائز فرمایا جن پر متمکن ہونا باعث افتخار بھی ہے اور باعث برکت بھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید قرار پایا جس کے اعجاز کے سامنے دنیا کے تمام علماء ، حکماء ، دانشور اور فلسفی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے اور قیامت تک ہوتے رہیں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک علم و تحقیق کا معجزہ بصورت قرآن عطا کیا گیا۔ قیامت تک انسان جس چیز کو بھی اپنے علم و فن اور اپنی تخلیق و تحقیق کے ذریعے ایجاد کرے گا۔ اس کی اصل کا ذکر کسی نہ کسی طرح قرآن میں ضرور ہوگا۔ان بے شمار معجزات میں ایک اہم اور نمایاں معجزہ معراج ہے۔جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو پہلے مسجد اقصیٰ اور اس کے بعد آسمانوں کی سیر کرائی اور بالآخر اپنے دیدار سے مشرف فرمایا۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل علیہ السلام آپ کو اٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک براق پر لے گئے۔ وہاں آپ نے انبیاء علہیم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہ آپ کو عالم بالا کی طرف لے چلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ آخر کار آپ انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اس کے بعد آپ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے۔ اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔ نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے۔کسی نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بہکانے کی کوشش کی اور بولا دیکھو تمہارا دوست کیا کہہ رہا ہے کیا کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا یہ مان سکتا ہے کہ وہ ایک رات میں اتنے لمبے سفر پر گئے اور واپس بھی آگئے۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓنے جو جواب دیا وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ہے، آپؓ نے فرمایا کہ اس میں تو کوئی عجیب بات نہیں میں تو اس سے بھی عجیب بات مانتا ہوں کیونکہ حضرت نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آسمانوں سے ہر روز ایک فرشتہ آتا ہے جو خدا تعالیٰ کا پیغام اور وحی بھی لاتا ہے۔ معراج پاک کی تصدیق کرنے پر حضور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپ ؓکو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔گویا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رہتی دنیا تک ایک سوچ اور ایک نظریہ دیا کہ جب عقل و عشق کی کشمکش ہو تو ایمان کی سلامتی اسی میں ہے کہ عشقِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو معیار قرار دیا جائے اور اسی کی روشنی میں مسائل کو پرکھا جائے۔
معراج کے موقع پر بہت سے مشاہدات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرائے گئے تھے ان میں بعض حقیقتوں کو ممثل کر کے دکھا یا گیا تھا۔ مثلاً ایک فتنہ انگیز بات کی یہ تمثیل کہ ایک ذرا سے شگاف میں سے ایک موٹا سا بیل نکلا اور پھر اس میں واپس نہ جا سکا۔ یا زناکاروں کی یہ تمثیل کہ ان کے پاس تازہ نفیس گوشت موجود ہے مگر وہ اسے چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔ اسی طرح برے اعمال کی جو سزائیں آپ کو دکھائیں گئیں وہ بھی تمثیلی رنگ میں عالم آخرت کی سزاؤں کا پیشگی مشاہدہ تھیں۔ اصل بات جو معراج کے سلسلے سے سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ انبیاء علیم السلام میں سے ہر ایک کو اللہ تعالی نے ان کے منصب کی مناسبت سے ملکوت سموات و ارض کا مشاہدہ کرایا ہے اور مادی حجابات بیچ میں سے ہٹا کر آنکھوں سے وہ حقیقتیں دکھائی ہیں جن پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دینے پر وہ مامور کیے گئے تھے ، تاکہ ان کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالکل ممیز ہوجائے۔ فلسفی جو کچھ بھی کہتا ہے قیاس اور گمان سے کہتا ہے ، وہ خود اگر اپنی حیثیت سے واقف ہو تو کبھی اپنی کسی رائے کی صداقت پر شہادت نہ دے گا۔ مگر انبیاء جو کچھ کہتے ہیں وہ براہ راست علم اور مشاہدے کے بنا پر کہتے ہیں ، اور وہ خلق کے سامنے یہ شہادت دے سکتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو جانتے ہیں اور یہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں۔
اکثر علماء کی رائے کے مطابق یہ سفر ہجرت سے ایک سال پہلے ہوا۔ عام الحزن اور طائف کے دردناک حادثہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی و تشفی دیتے ہوئے لامکان کی سیر کرائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے ڈنکے زمین پر ہی نہیں بلکہ آسمانوں پر بھی بجائے گئے اور آپ کو عظیم الشان آیات الٰہی کا مشاہدہ کرایا گیا۔ضیاء الامت علامہ پیر کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق سیرت 'ضیاء النبی' میں خوب لکھا ہے:
"اللہ جل مجدہ کے عبد منیب اور حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے جو آنسوں، طائف کی زمین پر ٹپکے ، خون ناب کے جو معطر قطرے گلشن اسلام کی آبیاری کے لئے جسم اطہر سے بہے، شان کریمی نے انہیں موتی سمجھ کر چن لیا۔ اور دعا کے لئے اٹھنے والے ہاتھ کیا اٹھے کہ قدرت کی بندہ نوازیوں نے روشن مستقبل کی کلید ان مبارک ہاتھوں میں تھما دی۔آئے روز الطاف الہٰی کا یوں مسلسل ظہور ہونے لگا کہ خاطر عاطر پر جو حزن و ملال کا جو غبار پڑا تھا۔وہ صاف ہوتا گیا آخر وہ مبارک رات آئی۔جب کہ دست قدرت نے اپنے مادی، معنوی اور روحانی خزانوں کے منہ کھول دئے۔
اختر شام کی آتی ہے فلک سے آواز
سجدہ کرتی ہے سحر جس کو، وہ ہے آج کی رات
رہ یک گام ہے ہمت کے لیے عرش بریں
کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات
نور ذات پر صفات کے جو پردے پڑے تھے ایک ایک کرکے اٹھنے لگے۔ بیکراں مسافتیں سمٹتی گئیں۔اور عبد کامل حریم قدس میں دَنیٰ فَتَدَلیٰ کی منزلیں طے کرتا ہوا قرب و حضوری کے اس مقام رفیع پر فائز کردیا گیا جس کی تعبیر زبان قدرت نے وَکَانَ قَابَ قَوسَینِ اَو اَدنیٰ کے پیارے پیارے کلمات سے فرمائی اور مولانا سید سلیمان ندوی کے الفاظ میں:
"شاہد ِ مستورِ ازل نے چہرہ سے پردہ اٹھایا اور خلوت گاہِ راز میں نازونیاز کے کے وہ پیغام عطا ہوئے جن کی لطافت و نزاکت بار الفاظ کی متحمل نہیں ہوسکتی فاوحیٰ الیٰ عبدہ ما اوحیٰ۔" (سیرت النبیؐ، جلد 3)
اس سفر مبارک کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، پہلا حصہ حرم مکہ سے بیت المقدس تک اور دوسرا حصہ بیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ اور ماورا تک۔اس ماورا کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس کا رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم۔پہلے حصے کو اسراء اور دوسرے حصے کو معراج کہتے ہیں۔
ایک ایسا عظیم واقعہ ہے جس پر ایمان اور عشق رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) سے سرشار مسلمان تو بجا طور پر فخر کرتے ہیں کہ اس عظیم المرتبت محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم) خدا کی امت ہیں کہ جنہیں رب کائنات نے حالت شعور میں زمینوں اور آسمانوں کی سیر کرائی۔ اس واقعہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے والے آج تک شش و پنج میں گرفتار ہوکر اس عظیم واقعہ کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ معجزات وہی ہوتے ہیں جو عقل سے بالاتر ہوں اور معجزات کو عقل سے پرکھنا ہی بے عقلی کی نشانی ہے۔بقول اقبال:
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
معراج رسول کریم(صلی اللہ علیہ وسلم) تسخیر کائنات کی جانب ایک بلیغ اشارہ ہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر واقعہ کی پوری عکاسی کرتا ہے۔
خبر ملی ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سخرلکم ما فی السموات وما فی الارض کا درس دیا ہے۔ اس زمین و آسمان کی ہر چیز انسان کے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو بتایا اللہ نے تمہارے لیے سورج و چاند اور لیل و نہار کو مسخر کردیا گیا۔ تم تسخیر ذات کا سفر طے کرکے تسخیر کائنات کے سفر تک پہنچو اور فرمایا میری نگاہ نبوت دیکھ رہی ہے کہ اس زمین کے مشارق و مغارب کو تمہارے لیے مسخر کردیا گیا ہے۔ پس تم میرے اس نبوی مشن، اسلام کی دعوت کو دنیا کے اطراف و اکناف میں پہنچادو۔ اللہ نے زمین کے مشارق و مغارب کو میری نگاہوں میں سمیٹ دیا ہے۔ میں ان کو دیکھ رہا ہوں پس اس دین کو وہاں وہاں تک پہنچادو جو مجھے دکھایا گیا ہے اور جو میں دیکھ رہا ہوں اس لیے میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں:
ترجمہ: ’بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا ہے پس میں نے اس کے مشار ق و مغارب کو دیکھ لیا ہے اور بے شک میری امت کی سلطنت عنقریب ان حدوں تک پہنچ جائے گی جو اس زمین میں سے میرے لیے سمیٹی گئی ہیں‘۔(صحیح مسلم، کتاب الفتن، رقم حدیث۔2889)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان حادیث کی بنا پر امت ہر ہر چیز میں آگے بڑھتی چلی گئی۔ مسلمانوں کا طرہ ٔامتیاز علم و تحقیق رہا، علم کی شمع ہر سو روشن کرتے گئے اور علم کو پھیلاتے گئے اور فروغ دیتے رہے۔ جب تک امت اس روش پر رہی عزت و وقار کا سہرا اس کے سر پر سجتا رہا جونہی اس میں زوال آنا شروع ہوا پستی و ناکامی اس کے گلے پڑ گئی۔ اس واقعہ معراج کا بھی سب سے بڑا درس امت کے لیے حصول علم ہے اور فروغ علم و تحقیق ہے دیگر انبیاء کی دعاؤں کے پہلو بہ پہلو ہم نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو دیکھیں تو خدا تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی سکھایا۔ رَبِّ زِدنِی عِلمًا اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما۔واقعہ معراج انسان کے لئے امکانات کے نئے نئے دروازے کھولتا ہے اور یہ پیغام دیتا ہے کہ جو بھی فرد یاقوم علم و تحقیق سے کام لیگی اور تحقیقی و تسخیری سفر کو اختیار کرے گی وہ قوم اللہ کی نعمتوں کا خوب مشاہدہ کرے گی۔ باری تعالیٰ نے ان آیات تسخیر پر عالم انسانیت کی شہادت و گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کے ذریعے دی ہے۔اس تسخیر کائنات کے سارے واقعہ کو ایک غیر مسلم جو کہ بعد میں مسلمان ہوگیا فرانسیسی سکالر ڈاکٹر موریس بوکائلے اپنی کتابThe Quran and Modern Science کے باب میںThe Conquest of Spaceکے عنوان کے تحت بیان کرتا ہے کہ 1961 میں انسان چاند کی سطح پر پہنچا ہے جبکہ قرآن اس کا ذکر چودہ سو سال قبل اپنی مختلف آیات میں کرچکا ہے۔
’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجد ِ حرام سے (اس) مسجد ِ اقصیٰ تک لے گئی۔جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنایا ہے۔تاکہ ہم اس (بندہ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔بے شک وہی خوب سننے والا ، خوب دیکھنے والا ہے۔(بنی اسرائیل، 17 ۔1)
رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو 'عبدہ' کے الفاظ سے یاد کرکے قران مجید اس خصوصی نسبت و قربت کی طرف لطیف اشارہ کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخشی ہے اور ان کے طفیل ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی قربت کے راستے عالم انسانیت پر آشکار کئے۔شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے مطابق:'خدا خواہ کتنا نزول فرمائے خدا ہے ، بندہ خواہ کتنا عروج پالے بندہ ہے'.
معراج بندہ کو عرفان ذات کے ذریعے عروج کرنے کا پیغام دیتا ہے۔اگرچہ خدا کا ادراک و احاطہ کرنا ایک بندے کیلئے محال ہے مگر راہِ عرفان پر گامزن ہو کے وہ اس کی عنایات و تجلیات سے مستفید ہوسکتا ہے اور اسے رب العالمین کی طرف سے غیر معمولی مشاہدات سے سرفراز کیا جاتا ہے۔کسی عارف نے خوب فرمایا ہے:
God cannot be found by seeking but only those have found Him who seek Him
یعنی خدا کو تلاش کرتے ہوئے پایا نہیں جاسکتا مگر اسے وہی لوگ پاتے ہیں جو اسے تلاش کرتے ہیں۔
معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عرفانی اہمیت یہی ہے کہ اس نے انسان کو اپنی خودی کو بیدار کرنے کا درس دیا تاکہ وہ وصول الی اللہ کی منازل طے کرنے کا حوصلہ پا سکے۔یہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فیضان ہے کہ اس امت میں اگر ایک طرف بوعلی ابن سینا، رازی، فارابی و ابن رشد جیسے صاحبان علم و دانش پیدا ہوئے تو دوسری طرف بایزیدوجنید، رومی و غزالی جیسے صاحبان مشاہدہ و عرفان۔
یہ تو اپنا اپنا ہے حوصلہ، یہ تو اپنی اپنی اڈان ہے
کوئی اڈ کے رہ گیا بام تک، کوئی کہکشاں سے گزرگیا