حال ہی میں جب جنگلاتی شجر کاری کا عالمی دن منایاگیااوراس سلسلے میںدنیا بھر میں تقاریب کا اہتمام ہوا۔ہمارے جموںوکشمیر میں بھی تقاریب منعقد ہوئیں اور شجرکاری کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی بگاڑ پر مسلسل تشویش کا اظہارکیاگیا۔گرچہ دنیا بھر میںماحولیات کے بچائو کے لئے مسلسل آ?وازیں اٹھائی جارہی ہیںتو ہمارے ملک میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔چنانچہ حال ہی میں وزیراعظم نریندرمودی نے فضاء میں کاربن ڈائی اکسائیڈ کی مقدار کم کرنے کے سلسلے میں بھارت کے عزم کا اعادہ کیا او رکہا کہ بھارت عالمی برادری کے ساتھ مل کر ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کی ہر پہل کا ساتھ دے گا۔مسلسل عالمی سطح پر جنگلات کی اہمیت و افادیت اجاگر کرکے ماحول میں اس کی اہمیت باور کرائی جارہی ہے۔جبکہ ایک ویب نار کے ذریعے کشمیر کے سرکردہ ماہرین ماحولیات نے بھی اس سنگین مسئلہ پر سیر حاصل گفتگو کی اور جموںوکشمیر میں ماحولیات کو درپیش خطرات پر مفصل روشنی ڈالی۔ زمین پر خشکی کا ایک تہائی حصہ جنگلات پر مشتمل ہے اور 1.6بلین لوگوں کا انحصار جنگلات پر ہے۔ انسان کرہ ارض پر ڈیڑھ کروڑ انواع میں سے ایک ہے۔ انسان دنیا کے ان جانداروں میں سرفہرست ہے جن کی تعداد اس سیارے پر بڑھ رہی ہے۔ اکثر جانوروں اور پودوں کی آ?بادی میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔انسان نے ترقی کے لئے قدرتی جنگلات کا کافی بڑا حصہ صاف کردیا ہے۔ مچھلیوں کے ذخیرہ کا تین چوتھائی حصہ ختم کرڈالا ہے، پانی کے نصف ذخائر کو آلودہ کردیا ہے اور اس قدر زیادہ زہریلی گیس فضا میں خارج کی ہیں جو زمین کو آنے والی کئی صدیوں تک گرم رکھیں گی۔انسان نے قدرتی انواع کو فنا کرنے کا عمل قدرتی عمل سے ہزار گنا تیز کردیا ہے۔ اس طرح ہم نے خود اپنی بقاء کو خطرے سے دو چار کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ ہمارے سیارے کی رنگ برنگی زندگی کو بائیو ڈائیورسٹی کہتے ہیں جو ہمیں خوراک، کپڑے، ایندھن، دوائیاں اور بہت کچھ دیتی ہے۔ ہمیں تو سڑک کے کنارے اُگتی گھاس اور کھیتوں میں پلنے والے ایک بھنورے تک کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ زندگی کے جال سے کسی ایک چیز کا خاتمہ انتہائی تباہ کن نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔جہاں تک جنگلات کا تعلق ہے تو یہ زمین پر زندگی کو جاری رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ان مرکبات کو اپنی خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس سے زمین اور فضاء کی آلودگی میں کمی آتی ہے۔ جنگلات زمین کے قریباً 30 فیصد حصے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ 2005 کے اعدادو شمار کے مطابق جنگلات چار ارب ہیکٹرسے کچھ ہی کم رقبے پر موجود ہیں۔ یہ آج سے قریباً دس ہزار سال قبل زراعت کےآغاز کے رقبے سے قریباً ایک تہائی کم ہوچکے ہیں۔ جنگلات دنیا کے ہر حصے میں کسی توازن کے بغیر موجود ہیں یہ درخت بے ترتیب انداز میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر سال 6 ملین ہیکٹرپر مشتمل ابتدائی جنگلات کٹائی کی وجہ سے تباہ ہورہے ہیں۔ اسی طرح انسان کی سرگرمیوں کی وجہ سے ابتدائی جنگلات کے رقبے میں ہر روز کمی واقع ہورہی ہے۔درختوں کی ایک عظیم ماحول دوست خوبی کاربن ڈائی اکسائیڈ کا جذب کرنا ہے۔ درخت ہر سال 283 گیگا ٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق جنگلات، سوکھی لکڑی، زمین اور کوڑا کرکٹ میں فضاکے مقابلے میں پچاس فیصد زیادہ کاربن ڈائی اکسائیڈ موجود ہے۔ 1990سے 2005کے عرصہ میں جنگلات میں کاربن ڈائی اکسائیڈکی مقدار میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ دنیا بھر میں مجموعی طور پر درختوں کی کمی میں کاربن کی مقدار میں 1.1 گیگا ٹن سالانہ کمی واقع ہورہی ہے۔ قدرتی جنگلات کی تباہی سے دنیا میں کاربن ڈائی اکسائیڈ کے اخراج میں گاڑیوں سے نکلنے والی گیس کے مقابلے میں زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے تو یہاں بھی ماحولیات اور جنگلات کے حوالہ سے خوشیاں منانے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی ہے۔یہاںبھی جہاں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ جنگلات ریگستانوں میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں وہیں آبی ماحولیات کا حال اس سے بھی بدتر ہے۔ واٹر ٹیبل کم ہوتا جارہا ہے ،فضائی آلودگی بڑھتی جارہی ہے۔زمین سکڑتی جارہی ہے ،پھر خوشحال دھرتی،خوشحال لوگ کا نعرہ بھی دیا جاتا ہے۔ جنگلی حیاتیات خطرے سے دوچار ہیں ،وجہ انسانی مداخلت ہے۔پہاڑوں کی چوٹیاں ننگی ہورہی ہیں ،وجہ درختوں کا کٹائو ہے،نتیجہ بے وقت کی بارش اور برفباری و ژالہ باری بھی ہے اور اس پر آفت یہ کہ جنگلی جانور جیسے بے قابو ہوگئے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا دن ہوگا جب وادی کے کسی نہ کسی علاقہ سے جنگلی جانوروں کے حملوں میں انسانی جانوں کی ہلاکت اور مجروحیت کی خبریں سامنے نہ آتی ہوں۔ایسے میں ہم اپنے ماحولیات پربات کریںتو جواز نہیں بنتا ہے۔وقت آچکا ہے جب حکمرانوں اور عام لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے اپنی بہبود کیلئے قدرتی ماحول کے تحفظ کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنا ہوگا ورنہ آنے والا وقت تباہ کن ہوگا اور ہم اس وقت اگر کچھ کرنا بھی چاہیں گے لیکن کرنہیں سکیں گے اور پھر ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔اس سے قبل کہ وہ وقت آجائے،ہمیں جاگ جانا ہوگا اور اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی بربادی کا سلسلہ روکنا ہوگا تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک معتدل آب و ہوا میں سانس لے سکیں اور زندگی سے ہمارا رشتہ برقرار رہ سکے۔