ملک کی رواں تاریخ دن بدن انوکھی ہوتی جارہی ہے۔ ہر روز نئے فتنوں اور وعدوں کی بھول بھلیوں سے عوام کو سامنا کرناپڑرہاہے اور ساتھ ہی ساتھ ملکی سیاست بھی مافوق العادت رنگ بدل رہی ہے۔ سیاسی قدریں سرعت کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ رہی ہیں، گویا یہ قدریںکوئی مستقل بالذات وجود نہیں بلکہ وقتی ضروریات کی داشتائیں ہیں۔ سیاست لفظی جنگ اور اکھاڑپچھاڑ کانام نہیں بلکہ خدمت خلق کی شاہراہ تھی لیکن اب صورت حال یہ ہوتی جارہی ہے کہ یہ جملہ بازی اور لفاظیت ہی نہیں بن چکی ہے بلکہ اس کے معانی بھی اپنی من مرضی کے مطابق بدل دئے جاتے ہیں۔ سیاست کا یہی بازاری پن ہے کہ دیوالی، رمضان اور قبرستان اور شمشان گھاٹ کے نام سے بھی عوام میںتفریق اور تنفرکی لکیر یں کھینچی جا رہی ہیں اور جو بات گائے سے شروع ہوئی تھی، وہ اب گدھوں تک پہنچ گئی ہے۔ لوگ وکاس کاانتظار کرتے رہے لیکن اب وناش اُن کی دہلیز پر دستک دے رہی ہے۔ نوٹ بندی کی جبری ستم ظریفی نے ATM سے چور ن والے نوٹ نکالنے شروع کردئے اور اچھے دنوں کا یہی مجموعی نتیجہ ہے کہ غرباء اور متوسط درجے کے لوگ اپنے شب وروز تیرگی اور مایوسی کے دامن سیاہ میں گزار رہے ہیں۔
وزیراعظم نر یندر مودی کے جملہ بازیوں کے مطابق ملک دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہاہے بلکہ سات آسمانوں کو چھو رہاہے اور دعویٰ یہ کیا جارہاہے کہ نوٹ بندی کے بعد کیش لیس نظام بھی کچھ جگہوں پر رائج کیا جاچکا ہے جو ترقی کی علامت جتلائی جارہی ہے مگر زمینی حقائق اس سے کہیںمختلف ہیں جو بر سر اقتدار طبقہ کی جملہ بازیوں سے اپنی حقیقت بدل نہیں سکتے ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو مرکزی حکومت کے گزشتہ 4 سالہ عرصہ میں صرف جملہ بازیاں ہی کی گئیں اور سبز باغ ہی دکھائے گئے اور ملکی مفاد کے تئیں کوئی قابل فخر امور سرانجام ہی نہ دئے گئے، حتیٰ کہ ملکی دفاع اور فوجی طاقت تک کو بھی اپنی جملہ بازیوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کا یوں ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ پار والے بھی ہماری اس ابلہی پر طنز کرتے ہیں ۔ اتناہی نہیں بلکہ سرعام ہمارے خود دار فوجیوں کی بے عزتی کی جانے لگی ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک بچوں اور سیاست دانوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب مخالف کے گھر میںگھس کر فوجی طاقت کا مظاہرہ کر نا ہوتاہے۔ شاید برسر اقتدار طبقہ نے اسے بھی لفظوں کا اسرار سمجھ رکھا تھا۔ اب اسے کیا کہیں کہ سرجیکل اسٹرائیک پر جواب طلبی کو دیش سے غداری کہا جانے لگاہے۔ ایسی عقل و دانش پر بہ جز ماتم وگریہ کے اور کیا کیا جاسکتاہے؟
ملک میںبرسراقتدار طبقہ جس طرح جملہ بازیاں کر کر کے اصل مسائل سے اعراض کرنے کی کوششیں کر رہا ہے، وہ ہماری قومی سیاست کا مضحکہ خیز پہلو سامنے لاتا ہے۔ کم معیار لفظ اور بچکانہ باتیں باوقار منصب کے لئے غیر موزوں اور ناروا ہوتے ہیں۔ وزیرا عظم کی کرسیٔ جلیلہ پر براجمان ہونے والے کو یہ زیب نہیںدیتا کہ وہ اعلانیہ یہ کہیں ’’ میرا کیا بگاڑلیںگے ، فقیرہوں جھولا اُٹھائوں گا اور چلا جائوںگا۔۔۔ مجھے مخالفین جان سے مار دیںگے۔۔۔میں گدھے کی طرح کام کرتا ہوں۔۔۔اگر قبرستان بنا ہے تو شمشان بھی چاہیے۔۔۔ رمضان میں بجلی آتی ہے تو دیوالی پربھی آنی چاہیے‘‘۔ یہ مجہول بیانات جو مخصوص علاقہ ، مخصوص اوقات اور مخصوص مقاصد کے پس منظر میںدئے گئے ، سیاسی اعتبار سے سنجیدگی اور متانت سے عاری ہیں ۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ کر نا کہ اقتدارمیںآیا تو دودھ کی ندیاں بہادوںگا، ایسی کتنی باتیںہیں جو منصبِ جلیلہ کے شایان ِ شان نہیں۔ سچ یہ ہے کہ جب ملک کا وزیراعظم کا ماہرنباض اور اونچے تخلیقی ذہن کا مالک نہ ہوتویقیناً ملک کی سماجی ،اقتصادی اور معاشی صورت حال فسانہ ہی بنے گی ، دفاعی قوتیں ناکارہ ہوںتودشمن کیونکر شیر نہ بنے؟ وتعلیم وتدریس صفر کے برابر کیوں نہ ہو؟ عوام تنگی دستی ا ور مفلوک الحالی کے ہا تھوں کیون پٹ نہ جا ئیں ؟ اور باتوں کو چھوڑیئے، محض نوٹ بندی سے لاتعداد خانوادے تباہ وبرباد ہوئے اور افسوس یہ کہ اسے ملک کا وزیراعظم فخراًبدعنوانیوں کے خلاف جیت سے تعبیر کررہے ہیں۔
علاوہ ازیں مزدور اور کسان کی زبوں حالی پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ خدا را انصاف کیجئے جب کسی ملک کا بے روزگارنوجوان طبقہ کسمپرسی کی حالت میں ایڑیاں رگڑ رہا ہو، غرباء مہنگائی کی کند چھری سے ذبح ہورہے ہوں ، تعلیم کا نور ماند پڑ رہاہو ، سماجی نابرابری کا ناسور بڑھ رہاہو ؟ بیماری کے عفریت ہر گلی کوچے میں دند ناتے پھر رہے ہوں، تو اس ملک کا مستقبل کیونکرخوف ناک نہ ہوگا؟ ساٹھ روپے کلوگرام ارہر کی دال کی قیمت پر احتجاجاً نیم برہنہ رقص کرنے والے جب ڈیڑھ سو روپے کلوگرام دال پر بسر و چشم راضی ہیں، توپھر اس ملک کی معیشت پرخط تنسیخ کھینچ دینا ملکی معیشت کے لئے کرم گستری ہوگی؟
برٹش سماج سیوا تنظیم ’’آکس فیم‘ ‘کی تازہ ترین رپورٹ کہتی ہے کہ دُنیا میںروس کے بعد بھارت اقتصادی نابراری والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ ا س بہت ہی پریشان کردینے والی تلخ زمینی حقیقت نے کبھی بھی ہمارے کانگریسی ، سوشلسٹ اور بھاجپا لیڈروں کو پریشان نہیںکیا جوگزشتہ کئی دہائیوں سے ادل بدل کربھارت کے کاتب ِتقدیر بنے چلے آئے ہیں۔ ناقدین کا یہ کہنا غلط نہیں کہ دنیابھر میں بھاگ دوڑ کرنے والے پردھان منتری نریندرمودی کی قیادت والی این ڈی اے سرکار ابھی تک کسی معنی میںخود کو کانگریس کی اُن سابق سرکاروں سے کسی طرح مختلف ثابت نہیںکر پائی جو سماج وادی ویوستھا قائم کرنے کی قسمیںکھایا کرتی تھی، جس نے سیکولرازم اور سوشلزم کے اپنے پرچم کے نیچے صرف غریب اور محروم لوگوں کو ایسے مستقبل کے ست رنگے سپنے دکھائے جن تک کبھی پہنچا ہی نہیںجاسکتا۔افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ سوشلزم کے نعرے لگاکر انہیں اقتصادی سمجھ داری سے کھلواڑ کرنے کا لائسنس نہیں مل جاتا، نہ ہی یہ ووٹ بنک کی سیاست کا کھلونا ہے۔ بھارت کے چھوٹے بڑے لیڈروں نے سوشلزم کی سوچ کو کبھی بھی غریب لوگوں کو قلیل ترین امکانی وقت میں اقتصادی قومی دھارے میں شامل کرنے کے طورپر دیکھا ہی نہیں۔ ہمارے ملک کو آزاد ہوئے 71 برس ہوچکے ہیں اور ہم نے تڑک بھڑک بھرے اور چمچاتے ہوئے شہروں کے آس پاس دوردور تک پھیلی جھگی جھونپڑیوں میںپھنسے دیہاتیوں کی طرف اب دھیان دینا شروع کیاہے۔ آج تک سرکا رچاہے کسی کی بھی آئی سماجی نابرابریوں ، تعمیروترقی کی ناقص سوچوں، غریب ا ور امیر کے درمیان بڑھتی خلیجوں ، پینے کے پانی کی چونکادینے والی کمیوں، بیماریوں اور ناخواندگیوں کی اُچھلتی شرحوں، گھمبیر ماحولیاتی بحرانوں اور زمینی کٹاؤئوں ، زیر زمین پانی کے کھارے پن وغیرہ جیسے مسائل سے زمینیں بنجر ہونے کی داستانیں بلاروک ٹوک جاری رہی ہیں۔ سرکاری سطح پرآسمان سے تارے توڑلانے کے کوئی بھی دعوے کئے جائیں مگر ہمارا پختہ یقین اور مشاہدہ ہے کہ ملک کی تقریباً چالیس فیصدی آبادی ابھی بھی غریبی کی لکیر سے نیچے بے کیف و پُردرد زندگی بسر کررہی ہے اور یہ کم از کم بین الاقوامی پیمانوں سے کہیںنیچے ہے۔
بے شک پردھان منتری نریندرمودی ملک میں کالے دھن اور کرپشن سے آزاد کروانے اور غریبوں کے بہبود کے حوالے سے نوٹ بندی کوجنتا کی پراپرجائی کے لئے جائز ٹھہراتے ر ہیں پھر بھی مودی کی اکنامکس کے پیچھے کی حقیقت اب جگ ظاہر ہے ۔ اس اکنامکس کا جھکائو واضح طورپر دھنا سیٹھوں کے ایک چنندہ گروپ اور جنڈلی دار سرمائے داری کی جانب ہی ہے۔ باقی جو کچھ بھی ہے، وہ ہمیشہ گچا وے جانے والے ’’اچھے دنوں‘‘ کے کھوکھلے وعدوں اورتلخ حقائق پر چاشنی کے لیپ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔2016 کی’’ آکس فیم رپورٹ‘‘ کہتی ہے کہ بھارت کے ایک فیصدی امیر لوگ ملک کی کُل دولت کے تقریباً ساٹھ فیصدی پر قابض ہیں۔ (آکس فیم انڈیا کی چیف ایگزیکٹو آفیسر نیشا اگروال تو اس آنکھڑے کو ستر فیصدی بتاتی ہیں)۔ بات ساٹھ یا ستر کی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ صرف 57کھرب پتی ہی بھارت کی کل دولت کے 60-70فیصدی پر کنٹرول بنائے ہوئے ہیں۔اس حقیقت سے امریکی سنیٹر برنی سینڈرز کی طرف سے ایک بار کہے گئے یہ الفاظ یاد آ جاتے ہیں: ’’ جب اتنے کم لوگوں کے پاس اتنی زیادہ دولت اور اتنے زیادہ لوگوں کے پاس اتنے کم ذرائع ہوں تو کوئی ملک نہ تو اخلاقی طورپر زندہ رہ سکے گا اور نہ ہی اقتصادی طورپر ‘‘۔رپورٹ کے مطابق حالیہ دہائیوں میں جہاں سب سے غریب لوگوںکی آمدن میں صرف دس فیصدی سالانہ شرح سے اضافہ ہواہے۔،وہیں سب سے اوپر ایک فیصدی دھنا سیٹھوں کی آمدن میں 182گنا اضافہ ہوا ہے۔ ’’آکس فیم ‘‘کا جائزہ ہمیں اس لحاظ سے سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ ہم بھاری بھر کم غریبی کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی حد سے پار جاتے ہوئے وسیع اقتصادی انصاف کی زبان میں سوچ سکیں۔ ویسے بھارت میںمہاتما گاندھی نریگا جیسی سرکاری اسکیموں کے تحت ترقی اور بہبود کی پالیسیاں کئی برسوں سے جاری ہیںلیکن یہ غیر متوازن و بے اعتدال ہیں، کیونکہ ان میںانسانی پہلو کی ناقابل معافی حدتک نظرانداز کی گئی ہے۔ اس طرح کی بے جہت پالیسیوں کو دنیا میں مشہور سویڈش ماہراقتصادیات گورنار میردال نے اس طرح کا بیان کیاہے: سرکار مشینری اور آلات خریدنے اور باندھ بنانے کی کوشش کرتی ہے اور ان کی مالی امداد کے لئے پیسہ تلاش کرتی ہے لیکن انسانی پہلو کو فراموش کردیتی ہے جب کہ لوگوں کے تن اور من ہی کسی ترقی پذیر ملک کی بچت اور سرمایہ کاری کے اہم ذرائع ہونے چاہئیں۔ افسوس کہ بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے انسانی پہلو ہماری پالیسیوں اور سکیموں میںغیر حاضر ہیں۔
دراصل اقتصادی بد حالی، معاشی نابرابری، غریبی اور ترقی جیسی ہر سوچ کو اب نئے مطلب دئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ حاشئے پرجی رہے محروم ومایوس لوگوں کی ضروریات کے تئیں ملکی قیادت زیادہ حساس بن سکے۔ ایسا تبھی ہوسکتاہے کہ جب ہمارا اقتصادی نظام حساس بنے اور اسے مخلصانہ قیادتی وحکومتی حمایت حاصل ہو۔ اس کے مد نظر غریب ا ور محروم لوگوں کے احساسات سے فوری اور موثر ڈھنگ سے نپٹا جاسکتاہے۔ ظاہر ہے کہ گزشتہ 71 ؍سال میں سامراجی ، گماشتہ سرمایہ داروں ، لینڈلارڈ طبقوں کی نمائندہ اور ترجمان جو بھی کو ئی پارلیمانی پارٹی برسراقتدار آئی ہے، اس نے مالداا طبقوں کی دولت اور جاہ وحشمت میںاضافہ کیاہے اور محنت کش عوام کو زبوں حالی کے لئے لقمۂ تر بنادیاہے۔ جب تک ملک میںانقلابی تحریک کے ذریعہ پارلیمانی نظام کے ذریعہ لٹیرے طبقوں کا اقتدار ختم نہ ہو اور محنت کشوں کا اقتدار قائم نہیںہوتا، ہمارا ماننا ہے یہ ناپسندیدہ وغیر مطلوبہ صورت حال جوں کی توں قائم رہے گی۔