دنیا میں لگ بھگ سارے لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں ۔یہ ایک ایسا مرض ہے جو نہ صرف آپ کوجسمانی اور نفسیاتی طور پر متاثر کرتا ہےبلکہ یہ آپ کے اُٹھنے بیٹھنے،سونے جاگنے ،کھانے پینے حتیٰ کہ سوچنے سمجھنے کا عمل تک متاثرکرتا ہے۔آج کے زمانے میں یہ مرض اس قدر عام ہوا ہے کہ ایسا لگتا ہےکہ کوئی بھی شخص اس سے محفوظ نہیں ہے جبکہ مردوں کے مقابلے میں خواتین اس مرض میں زیادہ مبتلا دکھائی دیتی ہیں۔
معاشرے میں بڑھتے ہوئے مسائل ، کم آمدنی اور زیادہ اخراجات،روزگار کی نایابی اور ملک کے بگڑتے معاشی حالات کسی بھی انسان کو ڈپریشن کا شکار بنا دیتا ہے۔ہر روز ہمیں اسی صورت حال سے گزرنا پڑتا ہے ۔جس سے ہم اُلجھنوں، ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
موجودہ دور میں انسان کو پیش آنے والی روزمرہ کی پریشانیوںانسان کو وسوسے میں ڈالتی ہے۔جس کے نتیجے میں ہر دوسرا شخص ڈپریشن کی بات کرتا سنائی دیتا ہے۔ ڈپریشن کیا ہے اورکیوں پیدا ہوتا ہے؟
ڈیپریشن کو آپ اُردو میں مایوسی، غمزدگی، افسردگی اور پست حوصلگی کہہ سکتے ہیں،یہ ایسی کیفیات ہیں جن کا تجربہ آج کا ہر انسان کم یا زیادہ کرتا رہتا ہے۔ہر انسان کے اوپر کسی نہ کسی درجے کی مایوسی کی کیفیت آتی ہے،غم بھی آتا ہے۔لیکن ایک نارمل اور بیمار انسان میں فرق یہ ہوتا ہے۔کہ ایک نارمل انسان ایسی کیفیات کا بہت جلد مقابلہ کرتا ہےلیکن جو انسان ایسی کیفیات کا مقابلہ نہیں کرپاتا، ایسی کیفیات اُس پر حاوی ہونے لگتی ہیں۔پھر جس انسان پر یہ کیفیات غلبہ پاتی ہےتو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہے۔یہ مرض دنیا کے تمام ممالک میں پایا جاتا ہے ۔خاص طور پر ان ممالک میں جہاں لوگوں کو اللہ تعالی کی پہچان نہیں ہے۔اور جواللہ سے سے دور ہوچکے ہیں۔لیکن ہم مسلمان اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہیں اور آخرت کو بھی مانتے ہیں، قرآن بھی پڑھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسی کیفیات کا شکارکیوں ہوتے ہیں؟سب سے پہلے ہمیں ڈپریشن کا سبب معلوم ہونا چاہیے یاد رکھیے کہ ڈپریشن اچانک پیدا نہیں ہوتا، اس کے اسباب بہت گہرے ہوتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہوتے ہیں یعنی والدین کی طرف سے،جنہیں موروـثی بیماریاں کہتے ہیں، انسان کو ملتی ہے ۔پھر گھریلو یا ارد گرد کا ماحول بھی اُسےڈپریشن میں مبتلا کرسکتا ہے۔ گھریلو سسٹم، خاندانی رویہ،وہ ماحول جہاں پر وہ کام کرتا ہے اور پھر معاشرہ کے نا مناسب جذبات اور پراگندہ صورت ِ حال بھی کسی انسان میںپریشن پیدا کر دیتے ہیں۔لیکن تجربات سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ ڈپریشن کے خارجی یا معاشی سوسائٹی کے اثرات سے زیادہ گھر یلو یا نجی اثرات انسان پر زیادہ مرتب ہوتے ہیں،جن کا شکار بن کروہ وسوسوں میں مبتلا ہوتا ہےاور بالآخر ڈپریشن کا مریض کہلاتا ہے۔ خصوصا وہ بچے بھی ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں،جن کے والدین نے ان کی طرف بھرپور توجہ نہ دیتے ہوں یا جو والدین کی محبت و شفقت سے محروم ہوں یا جن پر والدین نے زیادہ سختی سے پیش آتے ہوں۔
گویا اس طرح کی کیفیات میں ایک انسان اپنی ذات کے اندر ہی کسی نہ کسی کشمکش میں محو رہتا جو ڈپریشن کا سبب بنتی ہے۔ انسان کی اندرونی کشمکش کیا ہوتی ہے ۔اُسے اپنی خواہشات کا خون ہوتا ہوا نظر آتا ہے یا وہ محسوس کرتا ہے کہ جو کچھ وہ چاہتا ہے ،اُسے پورا نہیں کیا جاتا ،اور ہر معاملے میں ہر کوئی اُس کے لئے رُکاوٹ بن جاتا ہے۔تو یہی اندرونی کشمکش اُسے ڈپریشن میں مبتلا کر دیتی ہے۔وہ دل ہی دل میں اپنی جنگ خود ہی لڑتا رہتا ہےاور ہمیشہ بیرونی دبائوکو دیکھ کر دوسرے انسانوں کو دیکھتا رہتاہے اور کبھی کبھی ایسی باتیں کرتا رہتا جو عقل اور فطرت کے خلاف ہوتی ہیں۔ ڈپریشن کی کچھ علامتیں یہ ہیں ۔تنگ دلی کا احساس ،دل کی گھٹن ،اندر کی گھبراہٹ ،اضطرابی کیفیت،عدم سکون،بلاوجہ بے چینی ،بغیر کسی ظاہری سبب خوف و ڈر اور دُکھ و درد۔ مثلا ً کسی کو پتہ چلتا ہے اُس کا کوئی دوست یارشتہ دار فوت ہوگیا، کوئی حادثہ پیش آیاہےکوئی جانی یا مالی نقصان ہو گیا،تو ایسی صورت ِ حال کسی بھی انسان کو غم یا دُکھ یا تکلیف سے دوچار کرتے ہیں۔بعض اوقات اُس جانی یا مالی نقصان کی کوئی وجہ بھی سامنے نہیں آتاتو انسان کےدل میں ایک ایسی بے چینی پیداہوجاتی ہے،جس کے باعث وہ وسوسوںاور مخمصوںمیں مبتلا ہوجاتا ہے ۔تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ڈپریشن کی علامت ہے۔اگر اسی طرح اُس کی سوچ میں تلخی پیدا ہوتی ہے ،ہر چیز کو اُلٹے ڈھنگ سے دیکھتے ہیں،کسی کے سیدھے کام کو بھی غلط سمجھتے ہیں،ہر ایک پر شک کرتے ہیں ،بدگمان ہوجاتے ہیں،نیند نہیں آتی ،تو ان ساری تکلیفوں میں مبتلا انسان ڈپریشن کا مریض کہلاتا ہے۔بعض افراد انتہائی حساس ہوتے ہیں۔اس لیے چھوٹی چھوٹی باتوں کو خود پر حاوی کر لیتے ہیںاور کسی بھی منفی بات سے اپنی توجہ ہٹانے کی کوشش نہیں کرتے ہیں بلکہ دن و رات سوچتے چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے دماغ پر بھاری بوجھ پڑتا ہے اور ذہنی کمزوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اپنے دل کی باتیں دل پر لیتے ہیں اور دل ہی دل میں پڑھتے رہتے ہیں۔جن کی وجہ سے سوچ میں اُلجھن پیدا ہوجاتی ہےاور وہ ڈپریشن کا مریض بن جاتا ہے۔ آج کل موبایل کا زیادہ استعمال بھی ڈپریشن کو بڑھاتا ہے۔علاوہ ازیں انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال بھی اس کی وجہ بن سکتی ہے۔
بلا شبہ ہر بیماری کے لئے علاج سے زیادہ پرہیز ضروری ہوتا ہے۔جونہی کسی انسان کو اپنے اندر وسوسوں اور مخمصوں کے جراثیم جنم لیتے دکھائی دیں یا اپنے اندر ایسی کوئی کیفیت پیدا ہوتی ہوئی نظر آئے یا محسوس کرےتو اُسے اُسی وقت اپنے وسوسوں یا مخمصوں کا خاتمہ کرلینا چاہئےاور بغیر کسی خوف و ڈر کے اپنے کام کاج میں محو ہونا چاہئے۔ ہاں !مستقبل کے بارے میں ہر انسان میں کوئی نہ کوئی پریشانی لاحق ضرور ہوتی ہے۔لیکن اگر آپ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہر چیز اللہ کے اختیار میں ہے، ہر چیز تقدیر میں لکھی ہوئی ہے اور آنے والے کل کا پتہ صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے تو آپ کی یہ پریشانی وقتی ثابت ہوگی ۔ بغور دیکھا جائے تو دراصل ہمارا جو غیب پر ایمان ہے ،وہ مکمل نہیں ہے،اسی طرح ہمارا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ بھی متزلزل ہے۔جس کی وجہ سےہم مستقبل کو اللہ کے حوالے نہیں کرنا چاہتےبلکہ اس کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔جبکہ ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے۔الغرض جب کسی کو ڈپریشن کا خدشہ پڑجائےتو اُسے زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت کرنی چاہیے۔ اللہ کی زیادہ حمدوثنا بیان کرنی چاہیے ۔جب وہ اللہ تعالی سے جڑ جائے گا، اللہ سے اپنا رابطہ مضبوط کرے گا،تو کوئی بھی ڈپریشن اُس پر حاوی نہیں ہوگا۔،ہمیشہ ہر بیماری کی شفا اور نجات کے لئے اللہ سے ہی دعائیں کرنی چاہیے ۔جب ہم اللہ کا ذکر کریں گے تو ہماری زندگی میں کوئی بھی ٹینشن نہیں آئے گی ۔
�����������������������