ہارون ابن رشید
بڑھتی ہوئی معاشرتی بے حسی نے معاشرے میں کئی طرح کے سنگین مسائل پیدا کئے ہیں ۔ نفسا نفسی کے اس عالم میں ہمارے معاشرے میں کئی ایسے گھرانے ہیں جو یا تو فاقہ کشی کے کھٹن حالات برداشت کئے ہوئے ہیں یا پھر سڑکوں ، چوراہوں ، گلی کوچوں پر ہاتھ پھیلا کر گدا گری کا پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جدید دور میں ہمسایہ کو ہمسایے کی خبر نہیں ۔ کسی ایک گھر میں کھانا ضائع ہو رہا ہو تو دوسرے گھر میں بچے بھوکے سو رہے ہیں۔ صحیح معنوں میں ہم اخلاقی طور پر زوال کا شکار قوم ہیں ۔ اگرچہ ہمارا دین اسلام دنیائے انسانیت کو باہمی اخوت و محبت ، ہمدردی اور خدمت گزاری کا درس دیتا ہے ۔ کمزوروں پر رحم ، غربیوں کی مدد ، حاجت مندوں کی فریاد رسی کرنے ، یتیموں ، مسکینوں کے دکھ درد کو بانٹنے کی تلقین کرتا ہے ۔ کسی دُکھی انسان کے درد کو بانٹنا حصول جنت کا ذریعہ ہے ۔ کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا ،اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے ۔ کسی مقروض کا تعاون اور کسی محتاج کی کفالت کرنا اللہ کے رحمتوں اور برکتوں کے حصول کا ایک اہم سبب ہے ۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانا ، ننگے کو کپڑاپہنانا یہ ایمان کامل کی علامت ہے ۔خلاصہ یہ کہ دوسروں کے کام آجانا ہی اصل زندگی اور اصل عبادت ہے، کیونکہ خدمت خلق کے لئے پیدا کیا انسان کو، ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں ۔ لیکن افسوس کہ ہم اس صفت سے عاری ہیں ، بے حسی تو اتنی کہ اپنے رشتہ داروں ، ہمسایوں ، ضرورت مندوں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں ، خود کے پیٹ کی تو فکر ہے لیکن اس دُکھی پڑوسی باپ کی فکر نہیں جس کے بچے بھوک کی وجہ سے پوری رات تڑپ تڑپ گزار دیتے ہیں ۔ اپنے بچوں پر تو ضرورت سے زیادہ خرچ کرتے ہیں لیکن محلے کے اُن محتاج بچوں کی نم ناک آنکھیں دیکھ کر بھی کوئی رحم نہیں آتا ۔ اللہ تعالیٰ نے محتاج بندوں کی ضرورتوں میں خرچ کرنے کو اللہ تعالیٰ کو قرض دینا قرار دیا ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے ، وہ نہ صرف مال و دولت اور ساری ضرورتوں کا پیدا کرنے والا ہے بلکہ وہ تو پوری کائنات کا خالق و مالک اور رازق ہے ، ہم سب اسی کے خزانے سے کھا پی رہے ہیں تاکہ ہم بڑھ چڑھ کر انسانوں کے کام آئیں ۔ یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کی کفالت کریں ، غریب محتاجوں کے لیے روٹی کپڑا اور مکان کے انتظام کے ساتھ ان کی دینی و عصری تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ایک دوسرے سے مسابقت کریں ۔سماجی بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے بے کسوں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح و بہبود ہے ۔ یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب ایسے لوگوں کی ضرورت اور معذوری کا خاتمہ کرکے معاشرے میں دولت و ضرورت کے درمیان توازن پیدا کیا جائے ۔ جو لوگ معاشرے سے غربت و افلاس اور ضرورت و احتیاج دور کرنے کے لئے اپنا مال و دولت خرچ کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرض حسنہ قرار دیتے ہیں ۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کئے گئے مال کو کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا ۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کی ضروریات کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے ۔ دین اسلام سراسر خیر خواہی کا مذہب ہے ، اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت کو حقوق اللہ کی اہمیت سے بڑھ کر بیان کیا گیا ہے ۔ دوسروں کی خیر خواہی اور مدد کرکے حقیقی خوشی اور راحت حاصل ہوتی ہے جو اطمنان قلب کے ساتھ ساتھ رضائے الٰہی کا باعث بنتی ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا بلکہ عملی طور پر آپ خود بھی ہمیشہ غریبوں ، یتیموں ، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت پر عمل پیرا ہو جائیں اور معاشرہ میں اس طرح کے سنگین مسائل کو حل کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں ۔ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں مسکینوں ، محتاجوں اور یتیموں وغیرہ کی مدد کریں ۔