مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کو اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ یوں تو انسانی زندگی کا مقام اس دنیا میں سب سے بالا تر ہے ، لیکن ایک منظم ضابطہ کے تحت مسلمانوں کو اپنے مال و جان قربان کرنے کے لئے تنگ آمدجنگ آمد جیسی صورت حال میں دھکیلا جارہا ہے ۔ بیش بہاقربانیوں کی وجہ سے کبھی وہ اپنے مطالبات ہائی لائٹ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیںاور کبھی ناکام رہتے ہیں۔موجودہ عالمی منظرنامے میں یہ بات ٹھنڈے دل و دماغ سے تسلیم کرنے کے لائق ہے کہ کسی ظلم وتشددسے نبرد آزما ئی کے دوران گوکہ سربہ کف مسلمان شہادت کا بلند ترین مرتبہ پا کر انفرادی طور زندگی میں آخرت کی بڑی کامیابی سمیٹ لیتے ہیں، لیکن اجتماعی طور پر وہ خود ملت کو اپنی دائمی جدائی سے ایک بڑے نقصان سے بھی دوچارکرتے ہیں۔ امت کے لئے یہ ایک بڑا چلینچ ہے کہ کس طرح سے کم سے کم قربانیوں کے ذریعے سے ایک بڑے کاز کو زیادہ سے زیادہ سر کیا جاسکے۔ اشارتاَکہوں تو یہ بات لائق ماتم بھی ہے کہ اُمت اغیارکے pin pricksپر جذبات سے مغلوب ہوتی ہے جس کے بعد وہ اپنے غصے کا مظاہرہ اس طرح سے کرتی ہے کی اُلٹا دشمن ہی کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ردعمل کی کئی شکلیں ہیں، کب کون سی شکل اختیار کرنی چاہیے، اس کے لئے موقع و محل کا لحاظ رہنا ضروری ہے۔ اس اصولی پس منظر کو سمجھنے کے لئے جموں و کشمیر، فلسطین اور دیگر مصیبت زدہ خطوں میں مقیم مقہور ومحکوم مسلمانوں کے ساتھ ساتھ برما کے روہنگیا مسلمانوں کی کسمپری بھی ذہن میںایک بھاری بھرکم بوجھ بنی ہے۔
۷؍۲ فروری ۲۰۱۷ء کو بر ما کے سفاک آرمی چیف من آنگ حلینگ نے روہنگیا مسلمانوں کی ملکی شہریت کا انکار کرتے ہوئے ان پربندوق کی نوک پہ حکومتی کریک ڈاون کا بھر پور دفاع کیا۔ یہ بات آمریت اور فسطائیت کے پروردہ فوجی نے آرمڈ فورسز دن کے موقع پر اپنے خطاب میں کہی۔اپنے بیان میں اس نے مزید کہا کہبقول اس کے بنگالی جو رخائن(Rakine) ریاست میں مقیم ہیں ،وہاں کے اصل باشندے نہیں ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان کے اس بیان کے بعدہی جموں میں روہنگیا پناہ گزینوں کے اوپر ہندو بلوائیوں نے حملے کرنے شروع کردئے۔
اقوام متحدہ کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے اوپر ہو رہے ظلم و جبر کو انسانیت کے خلاف جرائم (crimes against humanity) سے تعبیر کیا جا ناچا ہیے۔رواں سال فروری میںشائع شدہ اسی ادارے کی ایک رپورٹ میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت ِزار پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ مذکورہ مسلمانوں کے اوپر قتل وغارت گری ، اجتماعی عصمت دری، جنسی تشدد،انسانی اسمگلنگ، مکینوں کی بے دردی سے پٹائی، لوٹ کھسوٹ، مکانوں کی آتش زنی اور عام لوگوں کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کی ماردھاڑ کے واقعات کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ نقل مکانی کی غرض سے دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنے کے لئے یہ لوگ سمندری راستوں کا جان لیوا قدم مجبوراََ اٹھالیتے ہیں۔اس بنا پر آج تک سینکڑوں کی تعداد میں یہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔دی ڈیپلومیٹ(The Diplomat) میگزن کی ایک سروے کے مطابق جو برما ہی کے چھ شہروں میں کی گئی، مسلم مخالف پروپیگنڈا، جس کو حکومتی سطح پر پذیرائی ملتی ہے، کو ملک میں عام کر کے قوم پرستی کے نام پرروہنگیا مسلمانوں کو مسلمان ہونے کی خطا میں عذاب عتاب کا شکار ایک سازش کے طور کیاجاتا ہے۔روہنگیا مسلمانوں کی بڑھتی نسل کشی اور ملک بدری کے واقعات کو دیکھ کراپریل ۲۰۱۳ء میں اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں اس حیوانی طرزعمل کو نسلی صفایا(ethnic clenasing) سے تعبیر کیا تھا ۔
پچھلے سال روہنگیا مسلمانوں کے اندر ایک اُمید جاگ گئی تھی جب نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی(National Party for Democracy) نے عام انتخابات میں فتح حاصل کی لیکن نام نہاد جمہوری حکومت کو بر قرار رکھنے کے لئے انہوں نے فوج کی اشاروں پر ناچتے ہو ئے برمی شہری قانون ۱۹۸۲ء (Burmese Nationality Law) کو اور زیادہ سختی سے نافذ کیا، جس کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کو مقامی شہریت سے خارج سمجھا جاتا ہے اور انہیں کسی بھی سرکاری مراعات سے دور رکھا جاتا ہے۔ ظلم وتشدد کی اس خاموش حمایت کے لئے نام نہاد جمہوریت نواز اورا نسانی حقوق کی علمبردار سوچی کی دنیا میں مذمت کی جاتی رہی، پھر بھی اس نے روہنگیا مسلمانوں کی کوئی خاطر خواہ یا عملی مدد کے لئے ابھی تک کسی حکومت اقدام یا ادارے کو سامنے نہیں لایا۔پناہ گزینوں کی حیثیت سے لٹے پٹے روہنگیا مسلمان مختلف ممالک کی جانب اپنی جانوں کی حفاظت کے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں، ان ملکوں میں سعودی عرب اور پاکستان شامل ہیں جنہوں نے تقریبََا نو لاکھ نفوس کو اپنے ملکوں کے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ باقی ملکوں میں بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ملیشیا، انڈیا،انڈونیشیا اور نیپال بھی شامل ہیں۔ جموں میں چند سو روہنگیا مسلم کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان پناہ گزیں ملکوں میں بھی یہ اپنی جان ، پہچان، عزت اور ناموس کو لے کر در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
ڈاکٹر جیکیوس لڈر(Dr. Jacques Leider )تاریخ کے ماہر مانے جاتے ہیں جو پچھلی دو دہائیوں سے بغیر قومیت کی ریاست(nationless state) رخائن میں رہ رہے مظلوم روہنگیا مسلمانوں پر اپنی ایک تحقیق پروجیکٹ پر گامزن رہے ہیں۔ ان کے مطابق روہنگیا کوئی نیا لفظ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک پرانا لفظ ہے جس سے تاریخ میں بہت کم استعمال کیا جاتا تھا۔ اس نام کی تاریخ ہی بتاتی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی آبادی کہاں کی ہے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ دراصل روہنگیا مسلمان خود کو باقی ہندوستانی نسل کے لوگوںسے ایک الگ حیثیت چاہتے ہیں، اورکوئی وجہ نہیں کہ حکومت انہیں انسانی حقوق دینے کی بجائے ملک بدر کریں یا ڈرائے دھمکائے۔ برمی حکومت کے جھوٹے دعوؤں پر نشتر چلاتے ہوئے یہ تاریخ دان کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک آبادی انگریز سامراج کے دور سے پہلے رخائن یا ست میں ہوا کرتی تھی۔ آگے وہ کہتے ہیں کہ روہنگیا نسل کا ارتقاء پندرہ صدی عیسوی کے لگ بھگ ہوا تھا، جس کے آثاراُس وقت کے بادشاہ کے زیرِ نگین مسلمان رعایا میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کی ۱۹۵۰ ء تک رکین کے جن مسلمانوں کو رائے دہی کا حق دیا جاتا تھا، اس کے بعد سے تسلسل کے ساتھ ظلم و جبر کی انتہاؤن کے شکار بنائے جارہے ہیں ۔ جب کسی عالمی ادارے یا انسانیت نواز ملک نے ان مصیبت زدہ مسلمانوں کی بابت آواز اٹھائی نہ ان پر کوئی خاطر خواہ توجہ مبذول کی تو برمی آمروں اور بودھ دہشت گردوں نے نہ صرف اس مسلم آبادی کا قافیۂ حیات تنگ کیا بلکہ۱۹۸۲ء میں روہنگیا مسلمانوں کی شہریت پر نیاقانون بناکر انہیں شہری حقوق دینے سے بھی گریز کیا گیا۔یہاں یہ تعجب سے خالی نہیں ہے کہ مسئلہ جموں و کشمیر کی طرح روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ بھی انگریز سامراج کی دَین ہے کیونکہ اُس وقت رکین ریاست اور آس پاس کے باقی علاقوں میں امیگریشن کا عمل بنا کسی ضابطہ کے چل رہا تھا ۔اس دوران فسادات شروع ہوئے ، جنہیں کبھی سلجھا ہی نہیں دیا گیا۔ یہاں ایک اور بات سمجھنے کے لائق ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ کوئی نسلی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی مسئلہ ہے، جس کو فتنہ پردازیوں کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈا اور افوا بازی سے نسلی یا مذہبی مسئلہ بنانے کی کامیاب کوشش کی جاتی ہے۔
دورِ حاضرمیں مسلمان جہاں بھی کہیںریاستی سطح پر ظلم و تشدد کے شکار کئے جاتے ہیں ، وہ بس ان کی ایک ہی خطا کا شاخسانہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ شام ہو یا عراق،شیشان ہو یا افغانستان، کشمیر ہو یا فلسطین ،مسلمان جہاں کہیں بھی اپنے سلب شدہ حقوق کی باز یابی کے لئے کوئی عملی اقدام اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کو نہ صرف طاقت کے بل پر دبایا جاتا ہے بلکہ الٹا دنیائے اسلام کو بدنا م کرنے میں ہر کسی حربے کو آزمایا جاتا ہے۔ محمد قطبؒ نے اس ضمن میں کیا ہی خوب رہنمائی فرمائی تھی کہ ـاگر دنیائے اسلام استعمار کے اس وحشیانہ غلبہ و قہر مانی کے خلاف متحد ہو جائے تو بین الاقومی رقابتوں اور حریفانہ کشاکش کی جس سے امن عالم کو شدید خطرات ہیں، موثر طور پر روک تھام ہو سکتی ہے۔ مسلمان ممالک اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرلیں، تو وہ بڑی آسانی سے ایک تیسرا مسلم بلاک بنا سکتے ہیں۔اگر اس طرح کا کوئی بلاک وجود میں آجائے تو وہ عالمی سیاست میں مرکزی اہمیت کا حامل بن سکتا ہے(اسلام اور جدید ذہن کے شبہات)۔ اس بلاک کی ا یک ابتدائی شکل مسلم ممالک کا وہ فوجی اتحاد قرار دیا جاسکتا ہے جس کی کمان پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے مبارک ہاتھوں میں ہے۔اگر یہ اتحاد سیاسی سطح پر بھی ہو اتو اُمید کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کو کہیں بھی ستانے سے پہلے دشمنوں کو سوبار سوچنا ہوگا کہ باون مسلم ملکوں کی اجتماعی یلغار کا کس طرح مقابل کر سکیں گے ۔ اس اتحاد کو برپا کر نے کے لئے اگر عالم اسلام کے رکھوالے اُمت کی تقدیر بنانے،اس کی مجموعی حالت سدھارنے اور اُمت کو ایک ہی پلیٹ فارم پر یکجا کرنے میں کامیاب رہے تو برما سے لے کر کشمیر تک ، کابل سے لے کر بغداد تک مسلمان مظلومیت کاتختہ ٔ مشق بننے سے محفوظ رہیں گے ۔ہمیں اپنے یہاں جموں میں پناہ گزین بے سہارابرمی مہاجرین کی جن سنگھیوں کے مطالم سے حفاطت کے لئے ماہ صیام میں نہ صرف دعائیں کر نی چاہیے بلکہ ان کی ضروریاتِ زندگی کی کفالت کے لئے محض اسلامی اخوت کے جذبے سے سرشار ہوکراورانسایت کے مفاد میں آگے آکرا ن کی مالی امداد کر نی چاہیے تاکہ ان کے روح اور بدن کا رشتہ قائم رہ سکے ۔
رابطہ9622939998: