شہر و دیہات میں عوام کو درپیش مسائل کو دیکھ یہ کہنا شائد بے جا نہ ہوگا کہ وادی ٔ کشمیر کے عام لوگوں کے لئے بہتری اور سہولت کی فراہمی کے لئے سرکاری سطح پر جتنے بھی دعوے ہورہے ہیں وہ نہ تو حقیقت پر مبنی دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی سچ ثابت ہورہے ہیں۔جبکہ حقیقت یہی ہے کہ وادی کے عام لوگوں کو درپیش گوناگوں مسائل سے نجات پانے کے لئے اُسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس طرح اُنہیں ماضی میں کرنا پڑرہا تھا بلکہ بعض معاملات میں لوگوں کو ماضی سے بھی زیادہ تکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔ایک طرف جہاں حسبِ دستور عام لوگوں کواشیائے ضروریہ کی حصولیابی میں ناقابل برداشت مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں دوسری طرف بیشتر علاقوں میں بنیادی سہولیات جیسے پانی بجلی ،علاج ،تعلیم اور ٹرانسپورٹ کی فراہمی میں شدید مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے۔آئے دن وادی کے علاقوں سے لوگوں کو درپیش مسائل اور مشکلات کے متعلق جو خبریں اور رپورٹیں اخبارات اور دوسرے الیکٹرانک ذرائع سے منظر ِ عام پر آتی رہتی ہیں ،اُن سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حکومتی دعوئوں اور وعدوں کے باوجود عام لوگوں کو ابھی تک ایسی کوئی موثر اور مثبت سہولت یا بنیادی ضرورت فراہم نہیں ہوپارہی ہے جس کے اثرات عام لوگوں کی زندگی پر مرتب ہوئے ہوںیا اُن کی زندگی میںایسی کوئی بہتری لائی گئی ہو ،جس سے وہ راحت محسوس کرتے ہوں۔یہی وجہ ہے کہ جہاں آج بھی وادی کے عام لوگ سرکار سے بد ظن نظر آرہے ہیں وہیں موجودہ انتظامیہ کی کارکردگی سے بھی نالاں ہیں۔جبکہ شہری عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ موجودہ یو ٹی حکومت شہری عوام کے مسائل دور کرنے اور عوامی بہبود کے کاموں کو انجام دینے میں بالکل سنجیدہ نہیں ہے۔جس کے نتیجے میں نہ صرف شہر کے بیشتر علاقوں کی حالت بگڑ رہی ہے بلکہ شہر کی حالت سُدھار نے کے لئے پہلے سے طے شدہ پروگرامز پر بھی عملدرآمد نہیں ہورہا ہے۔لوگوں کے اِن تاثرات سے اس بات کو تقویت مل جاتی ہے کہ شہر ہو یا دیہات ،لوگوں کے مسائل کو دور کرنے کے تئیںجو طرز عمل ماضی کی حکومتوں نے اختیار کررکھا تھا، وہی طرزِ عمل موجودہ حکومت بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔اگرچہ موجودہ انتظامیہ کی طرف سے پچھلے پانچ سال کے دوران لوگوں کے مسائل حل کرنے کی خاطر مختلف منصوبہ بندیاں ترتیب دی گئیںاور کئی پروگرام ترتیب دینے کے بعد مختلف حکمتِ عملیوں کے تحت کام کرنے کا آغاز بھی کیا گیا لیکن ان سب کوششوں کے باوجود لوگوں کے اہم اور بنیادی مسائل حل نہیں ہوپائےبلکہ مختلف معاملات میں عام لوگوں کو درپیش مسائل میں اضافہ ہوگیا ،جس میں حصول روزگار کا مسئلہ سر فہرست ہے۔جبکہ ہوش رُبا مہنگائی ،منشیات کے دھندے ،نقلی ادویات کا کاروبار ،ناجائز منافع خوری ،رشوت، بے راہ روی اور جرائم کوبڑے پیمانےفروغ مل چکا ہے۔اطراف و اکناف میں اہم اور مصروف شاہراہوں اور سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالت ہر فردِ بشر کے لئے عذاب دہ بن چکی ہے۔ٹریفک جامنگ سے مسافروں کا دَم گھٹنے لگا ہےاور پندرہ منٹ کا سفر ایک ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہونا عام ہوچکا ہے، نئی منصوبہ بندی کے مطابق سڑکوں کی تجدید و تعمیر کے تحت سڑکوں کی جگہ جگہ کھدائی،فُٹ پاتھوں کی چوڑائی میں بڑھوتری اور مصروف سڑکوں کی چوڑائی میں کٹوتی کا سلسلہ جاری ہے، نہ معلوم انجینئرنگ برین کی یہ کونسی منطق ہےجو بہر صورت عجیب اور غیر فعال دکھائی دےرہی ہے۔اسی طرح ہر معاملے میں حسبِ روایت ناقص حکمتِ عملی،گھِسی پٹی منصوبہ بندی،ناکارہ نظام کے تحت کام چل رہا ہے،گویا پرانی شراب نئی بوتلوں میں ڈالنے ولا معاملہ دہرا کر جہاں کچھ لوگوں کو بہلایا جارہا ہے وہیں عام لوگوں کو ٹرخایا جارہا ہے، نتیجتاً صورت حال آج بھی وہی ہے جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔وادی ٔ کشمیر کے عام لوگوں کو درپیش مشکلات اور مسائل کے تئیں موجودہ انتظامیہ کا ہر وعدہ اور ہر دعویٰ تاحال ڈھاک کے تین پات والا ثابت ہورہا ہےاور کوئی کام انجام تک پہنچانے میں حکومتی عزائم اور ارادے بالکل ویسے ہی دکھائی دے رہے ہیں جیسے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ،دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جب تک عام لوگوں کو حصول روز گار، اقتصادی بدحالی اور بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی کا مسئلہ درپیش ہو اور ساتھ ہی پاکیزہ اور شفاف سرکاری انتظامیہ کا فقدان ہو ،تب تک وہ حکومت کی اُن باتوں پر اعتبار کیسے کرسکتےہیں،جن میں وہ جموں و کشمیر کو خوشحال اور لوگوں کو ترقی یافتہ بنانے کا ڈھنڈورا پیٹتی جارہی ہو۔