بلا شبہ انسان فطرتاً علم کا متلاشی ہے، جو پیدائش سے ہی اپنے ماحول کو سمجھنے اور اس میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتا ہےاوریہ فطری جستجو ہی تعلیم کی بنیاد ہے۔ ماضی میں، والدین اور بزرگوں سے سیکھنا ہی تعلیم کا بنیادی ذریعہ تھا۔ رفتہ رفتہ باقاعدہ تعلیمی نظام وجود میں آئے جن میں اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ یہ ادارے سیکھنے کے ماحول فراہم کرتے ہیں اور طلبہ کو علم و فن کی مختلف شاخوں سے روشناس کراتے ہیں۔اگر ہم مختلف ادوار میں ترقی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پہلے بھانپ کا انقلاب، پھر برقی انقلاب اور اب دورِ حاضر میں سائنس و ٹیکنالوجی کا انقلاب اپنے عروج کی نئی بلندیوں کوچھُو رہا ہے، جس کے نتیجے میں اب مصنوعی ذہانت بھی سامنے آئی ہے ،جسے سائنٹیفک ٹیکنالوجی کے ملاپ سے ایک منفرد انقلابی دور کا آغاز قرار دیا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ مصنوعی ذہانت ایک ایسی تیکنیکی تخلیق ہے، جس میں کمپیوٹر یا مشین کے ذریعے انسانی ذہانت جیسی صلاحیت پیدا کر کے طب کے شعبہء تحقیق اور دیگر شعبوں میں ترقی کر کے آگے بڑھا جا سکتا ہے اور اگر اسے نارمل کمپیوٹر کے بجائے کوانٹم کمپیوٹر یعنی تیز رفتار مقداری کمپیوٹر کے ساتھ استعمال کیا جائے تو زندگی کے تمام شعبوں میں ناقابل یقین ترقی ممکن ہے۔جبکہ مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے سال 2024 کو مصنوعی ذہانت کا سال قرار دیا ہے جو کہ یقینا ًروایتی کمپیوٹر، سپر کمپیوٹر اور جدید موبائل فونز کے بعد ایک جدید پیش رفت ہے ۔لہٰذا اگر اے آئی کی(AI) شمولیت سے روایتی طبی تحقیق علاج اور ادویات کی تیاری برقرار رہی تو نئے اُفق عیاں ہوں گے ،جس سے طبی علاج انسانی معاشرے میں اپنے عروج کی نئی رفتار پر ہوگا۔یہ سب کچھ کہنے کا مقصد یہی ہے کہ تعلیم ہی وہ روشنی ہے جو اندھیرے کو دور کرتی ہے، ترقی کا راستہ ہموار کرتی ہے، ذہنی نشو و نما اور فکری صلاحیتوں کو پروان چڑھاتی ہے،انسان کوبا اعتماد بناتی ہے،اُسےاپنے حقوق و فرائض سے آگاہ کرتی ہے،اپنے مسائل کو حل کرانے کی صلاحیت دلاتی ہے اوراپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابل بناتی ہے۔ظاہر ہے کہ تعلیم یافتہ افراد کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں،جو ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ مسائل کا حل نکالتے ہیں اور معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے جب ہم اپنے کشمیری معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو معاشرے کے تعلیم یافتہ لوگوں صورت حال بالکل اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔اُن میں نہ خوشحال و پُر امن معاشرے کی بنیاد ڈالنے کا عزم ہے، نہ برداشت ،رواداری اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کا جذبہ ہے اور نہ ہی معاشرے کو پستی سے نکالنے کے لئے کسی ترغیب کی کوئی حکمتِ عملی ہے۔ جبکہ بدقسمتی سے ہمارے یہاں نظام تعلیم میں کئی چیلینجز بھی درپیش ہیں،جن میں وسائل کی کمی،بنیادی سہولیات کا فقدان ،نامناسب کلاس رومز ،غیر معال تجربہ گاہیں اور بوسیدہ لا ئبرریاں قابل ذکر ہیں۔جس کے نتیجے میںہمارے معاشرے کے تعلیم یافتہ افراد ضلالت وگمراہی کی تاریکی سے باہر آنے میں ناکام رہتے ہیں۔بے شک موجودہ دور ایٹمی، سائنسی اور صنعتی ترقی کا دور ہے، بنیادی عصری تعلیم، ٹیکنیکل تعلیم، انجینئرنگ، وکالت، ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا توآج کے دور کا لازمی تقاضا ہے۔لیکن ہمارے یہاں کا جو نظام ِ تعلیم ہے ،اُس میںحسبِ روایت پائی جارہی خامیاں اور خرابیاں بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ نظام تعلیم کو سُدھارنےاور معیار ِ تعلیم کو بڑھانے کےلئے مجموعی طور پر تعلیمی حکام کی پالیسیاں اور تدریسی عملے کی کارکردگیاںبہتر اور مثبت نہیںہیں۔نصاب میں تبدیلی اور مروجہ قواعد و ضوابط میں بھی یکسوئی نہیں اوراسکولی سطح پر قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کا منصوبہ بند طریقہ بھی مفقود نظر آرہا ہے۔ صورت حال کا تقاضا ہےکہ ہمارے یہاں ابتدائی سطح پر دی جانے والی تعلیمی پالیسی اور نظام کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے، کیونکہ پرائمری اور مڈل سطح پر یہاں کا نظام تعلیم انتہائی نا گفتہ بہ ہے، خصوصاً دیہات اور دور دراز کے بیشتر علاقوں میںاس دورِ جدید میں بھی نظام ِ تعلیم انتہائی ناقص اور دقیانوسی ہے۔ انفراسٹرکچر ،نصابی کتب اور اساتذہ کی کمی کامعاملہ سر فہرست ہے،جس سے حصول تعلیم کا بنیادی مقصد ہی فوت ہورہا ہے۔