مشرق و مغرب میں سائنسی تحقیق کا معیار

موجودہ دور سائنس اور ٹیکنولوجی کا دور اس لئے مانا جاتا ہے کہ انسانی زندگی  کے جملہ شعبہ جات پر سائنس اپنی فوقیت جما چکی ہے۔انسانی زندگی کی ہر ساعت سائنس کے سائے میں گذر رہی ہے اور انسان سائنس پر اس قدر انحصار کررہا ہے کہ اب کھانے کا لقمہ بھی منہ میں ڈالنے کے لئے مشین بنا رہا ہے چہ جائیکہ دیگر امور میں انحصار علی السائنس وہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہے۔سائنسی ترقی کی وجہ سے انسان آفاق و انفس کے وہ راز جان چکا ہے جو اس (سائنس)کی آمد تک عجائبات کے زمرے میں شامل کئے ہوئے تھے۔انسان کے لئے کائنات تو کائنات خود اس کا اپنا جسم اجنبی بنا ہوا تھا وہ بس اتنا جانتا تھا کہ میرا ایک جسم ہے جو سانس کے زور پر چلتا ہے ،  جسے وقتاًفوقتاً غذا فراہم کرنی ہے اور اسے کچھ امراض بھی لاحق ہوتے ہیں جنہیں جڑی بوٹیوں سے دور کرنا ہے۔اس جسم کے اندر رواں نظام کیا ہے؟کیسے چلتا ہے اور کس طرح اپنے تقاضوں کی تکمیل کر پاتا ہے ؟انسان ان امور سے کلی طور پربیخبر تھا۔یہ سائنس کا ہی احسان ہے کہ انسان خلیوں کے اندر خفیف سی خفیف تبدیلی کے بارے میں جان چکا ہے اور کائنات کے بعید ترین گوشوں میں بھی جاری تغیرات کے متعلق جانکاری حاصل کرنے کے قابل ہو سکا ہے۔وہ سوالات جو پچھلے ہزارہا صدیوں سے انسان کو پریشان کئے ہوئے تھے آج سائنس نے ان کا مفصل و مدلل جواب دیا ہے۔سائنس کی وجہ سے ہی آج کا انسان اپنے آپ کو جدید کہلانے کا حقدار بن رہا ہے ورنہ تاریخ کے کسی بھی دور میں انسان نے جدیدیت کا اتنا زیادہ غلغلہ عام نہیں کیا تھا جتنا کہ آج کررہا ہے۔آج تو لفظِ جدید عام بول چال کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔
دورِ جدید کا انسان اس لئے جدید ہے کیونکہ وہ آج وہ کچھ جان چکا ہے جو وہ آج سے پہلے کبھی جانتانہیں تھا۔لیکن اگر کوئی کتاب آج سے ہزاروں سال پہلے وہ سب  بتاتی  ہو جو انسان کو آج  اعلی ٰ سائنسی تکنیک اور سہولیات استعمال کرنے کے بعد معلوم ہوا تو کیا وہ کتاب دور جدید کے انسان سے زیادہ جدید کہلانے کی حقدار ہے یا نہیں ؟اس سوال کے جواب میں ہر ذی شعور انسان کا جواب مثبت ہوگا ماسوائے ان کے جو تعصب کی جہالت سے مغلوب نہ ہو ں۔قرآن مجید جدید ہے یا ہم یہ فقرہ میں نے عالمِ اسلام کے ایک بہت بڑے اسکالر اور دانشور سے دورانِ ملاقات سنا تو ذہن فوراً اس موضوع پر لکھنے کی جانب متوجہ ہوا۔
قرآن مجید انسان کو وہ حیرت انگیز معلومات فراہم کرتا ہے جن کو انسان صدیوں کے مسلسل غور وفکر کرنے کے بعد جان گیا پھر کیا یہ کہنا بجا نہیں کہ قرآن مجید ہم سے کہیں زیادہ ہ جدید ،ترقی یافتہ اور مستند ہے۔قرآن مجید نے خود کو جدید تو نہیں کہا اور نہ اس کی ضرورت تھی کیونکہ  قرآن ایک کسوٹی  اور میزان ہے۔مستند اور جدید ہونے کا فیصلہ قرآن نے کرنا ہے نہ کہ اس کمزور انسان نے جو اپنی کمر کی تل دیکھنے کے قابل نہیں۔وہ لوگ جو دین اور شریعت کو ،قرآن اور سنت کو قدیم زمانے تک محدود رکھتے ہیں انہیں اہنی اوقات پر غور کرنا چاہئے اس لئے ان حضرات کے لئے اس موضوع کا انتخاب کیا ہے۔اس حوالے سے ذیل میں چند وہ حقائق رقم کر رہا ہوں جن کو پڑھ کر انسان خود بخود یہ فیصلہ کر سکتا کہ آیا آج کا انسان جدید ہے یا قرآن مجید۔
2011 کا  نوبل انعام برائے فیزکس (Physics) تین سائنسدانوں کو اس لئے دیا گیا تھا کہ انہوں نے کائنات کے مسلسل پھیلنے کا انکشاف کیا۔لیکن قرآن مجید نے اس حقیقت کو آج سے ساڑھے  چودہ سو سال پہلے  بیان کیا ہے۔سورت الذاریات کی آیت 48میں ہے: "آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور یقینا ہم کشادگی کرنے والے ہیں۔" ناسا   نے سورج کو ایک بہت بڑا آگ کا گولہ بتایا ہے جس میں مسلسل ہائڈروجن گیس(Gas  Hydrogen )  ایندھن کی طرح جلتا ہے۔کس کو پتہ تھا کہ سورج میں کوئی چیز  ایندھن کے طور پر جل رہی ہے یہاں تک کہ سائنس نے اس بات کو ثابت کیا۔لیکن قرآن مجید نے سورج کو "سراج "کہہ کر اس حقیقت کیطرف واضح اشارہ کیا ہے۔سراج اس چیز کو کہتے ہیں جو بتی اور ایندھن سے روشن ہو۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں کی گئی ایک تحقیق نے اس گمان  کو اب ایک حقیقت میں بدل دیا کہ پودے بھی باتیں کرتے ہیں۔2012 میں جرنل آف ٹرینڈس ان بوٹانیکل سائنسز میں شائع کی گئی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پودے آپس میں عجیب وغریب آواز کے ذریعے باتیں بھی کرتے ہیں اور آپس میں رابطہ بھی کرتے ہیں لیکن انسان ان آوازوں کو سننے سے یکسر قاصر ہے ،یہی حقیقت قرآن مجید نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیان کی ہے۔سورۃالاسراء میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ "ساتوں آسمانوں اور زمین اور جو بھی ان میں ہے اس کی تسبیح کر رہے ہیں۔ایسی کوئی چیز نہیں جو اسے پاکیزگی اور تعریف کے ساتھ یاد نہ کرتی ہو۔ہاں یہ صحیح ہے کہ تم ان کی تسبیح سمجھ نہیں سکتے۔(44)احادیث میں بھی رسول اللہ ؐکا ایک کھجور کے پودے ساتھ ہم کلام ہونے کا مستند ذکر ملتا ہے۔آج سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ پوری کائنات کے اجزا آواز پیدا کرتے ہیں۔کہکشاؤں سے لیکر خلیوں تک ،ڈالفن سے لیکر کریکٹس یا چھینگر تک ،شہد کی مکھیوں سے لیکر انسانوں تک کائنات کی ہر شئے اپنی اپنی مخصوص نوع کی آواز پیدا کرتی ہیں۔قارئین کی دلچسپی کے لئے میں یہاں آواز کے ضمن  میں ایک نئی تحقیق کا حوالہ دوں گا جس میں انسانی خلیوں سے پیدا ہونے والی آواز کا ذکر ہے۔کچھ حالیہ تجربات سے یہ ثابت ہوا کہ خمیرسیل (Cell  Yeast )اور میمیلئین سیل (Cell  Mammalian )ایک مخصوص قسم کی آواز پیدا کرتے ہیں۔خلیوں سے پیدا ہونے والی آواز پر ایک نئا تحقیقی شعبہ سونو سائٹولوجی(Cytology  Sono ) کے نام سے متعارف ہوا ہے۔اس فیلڈ کو متعارف کرنے والے جم گم زیوسکی کا کہنا کہ خلیوں سے پیدا ہونے والی آواز کو سننے کے لئے نہایت حساس آلہ کی ضرورت ہے۔قرآں نے ہزار ہا سال پہلے دنیا کی ہرچیز کے تسبیح کرنے کا ذکر کیا ہے جس کو آج کے سائنسدان سونڈ ویویز کے طور پر زیرِ تحقیق لا رہے ہیں۔زمین کے اندر میٹھے پانی کے زخیروں کے متعلق انسان حال ہی میں جان چکا ہے۔سائنس دان یہ حال ہی میں جان چکے ہیں کہ زمین کے اندر میٹھے پانی کے ذخیرے زمین کی سطح پر پائے جانے والی جھیلوں ،تالابوں اور سمندروں سے بہت زیادہ ہے۔قرآن نے اس کے متعلق سورۃ الحجر کی آیت نمبر 22 میں واضح اشارہ کیا ہے"اور وہ ہوائیں جو بادلوں کو پانی سے بھر دیتی ہیں ،ہم نے بھیجی ہیں ،پھر آسمان سے پانی ہم نے اتارا ہے ،پھر اس سے تمہیں سیراب ہم نے کیا ہے ،اور تمہارے بس میں یہ نہیں ہے کہ تم اس کو ذخیرہ کر سکو"۔اس آیت میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ انسان کے بس میں یہ نہیں ہے کہ وہ اتنا سارا پانی زمین پر ذخیرہ کر سکے گا کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے ۔ہم دیکھتے ہیں اگر تھوڑا زیادہ بارش ہوتی ہے تو پوری زمین سیلاب کی زد میں آجاتی ہے لیکن اللہ کی شان دیکھیں اس نے انسانوں کے فائدے کی خاطر اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے زیرِ زمین انتظام کیا۔دو سمندروں کے مقامِ اختلاط پر سائنس نے ایک پرت یا سٹریٹ (Strait) دریافت کی ہے جو دونوں اطراف کے پانی کو آپس میں گڈ مڈ ہونے سے بچاتا ہے۔جیسے  ریڈ سی(Sea  Red )  اور اینڈئین اوشن(Ocean  Indian ) کے درمیان  "باب المندب"  دونوں سمندروں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرتا ہے۔قرآن مجید نے سورۃ الرحمن میں اس حقیقت کی طرف آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل بین اشارہ کیا ہے" اس نے چھوڑ دئے دو دریا دونوں ٹکراتے ہیں۔لیکن ان کے درمیان ایک پردہ حائل رہتا ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے"۔سائنسدانوں نے  چیونٹی کے بل میں ایک مخصوص قسم کا لوڈ اسپیکر لگایا تاکہ اور اس کے ذریعے  چیونٹیوں کی آپس میں ایک خاص نوعیت کی گفتگو کا انکشاف کیا۔انہوں نے دریافت کیا کہ چیونٹیاں ایک دوسرے کو سگنلس بھی ارسال کرتی ہیں جنہیں وہ ریسیو کرتی ہیں،مزید یہ کہ ان کے ہاں ایک خاص قسم کی زبان رائج ہے جس انسان سمجھ نہیں سکتا۔جب وہ اپنی  ملکہ (Queen)کی آواز سنتی ہیں تو وہ چلنا بند کرتی ہیں اور راستے میں آنے والی جملہ رکاوٹ پر حملہ بول دیتی ہیں۔انسان یہ سب باتیں جاننے سے انیسویں صدی تک قاصر تھا لیکن سائنس کی مدد سے انسان یہ سب کچھ جان گیا۔سبحان اللہ قرآن مجید نے تو یہ حقیقت ساڑھے چودہ سو سال بیان کی تھی۔سورۃ النمل کی آیت نمبر 18 میں ارشاد ہوتا ہے"یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے ایک چیونٹی نے کہا :اے چیونٹو ! اپنے سوراخوں میں گھس جاؤ کہ سلیمان ؑ اور ان کا لشکر تمہیں پامال نہ کر دے اور انہیں اس کا احساس بھی نہ ہو۔"اس آیت میں چیونٹیوں کے ایک سردار اور آپس کی بات چیت کا ذکر صاف صاف الفاظ میں ہوا جس کے متعلق سائنس حال ہی میں جان گئی۔قرآن مجید نے ایٹم سے بھی چھوٹے ذروں کا ذکر کیا ہے جن کو انسان حال ہی میں دریافت کر پایا۔قرآن  مجید کے سورہ یونس میں اللہ کہتا ہے"تیرے رب سے ذرہ بھر بھی کوئی چیز مخفی نہیں ۔نہ زمین میں نہ آسمان میں اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی ،مگر ایک واضح کتاب میں درج ہے"۔جب فرانسیسی ڈاکٹر ماریس باکائلے نے فرعون کی لاش کا معائنہ کیا تو انہوں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ آدمی سمندر میں ڈوبنے کی وجہ سے مرا ہے اور اس کا واضح ثبوت اس کے جسم پر نمک کا جمع (Deposit) ہونا ہے۔ماریس بکائلے حیران تھا کہ سمندر میں ایک عرصہ دراز رہنے کی وجہ سے اس کی لاش اس قدر صحیح سلامت کیسے رہے۔وہ رات بھر اس سوال پر سوچتا رہا کہ ایک دوست نے قرآن کی پیشنگوئی کے متعلق کہا تو انہوں نے قرآن کا مطالعہ کیا اور حیران ہوگئے کہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے قرآن اس لاش کا ذکر کرتا ہے حالاکہ فرعون کی لاش تو 1898میں دریافت ہوئی تھی۔اس سے متاثر ہو کر انہوں نے اسلا قبول کیا اور ایک معیاری کتاب "بائبل،قرآن اور سائنس " کے نام سے لکھی۔
قارئین ان جیسی درجنوں مثالیں دے سکتا ہوں لیکن مضمون زیادہ طویل ہوجانے کی مجبوری سے ان ہی پر اکتفاء کرتا ہوں لیکن ہمارے لئے یہ سوال ہے کہ واقعی انسان اپنے آپ کو جدیدیت کی آڑ میں خدا کانافرمان بنانے میں حق بجانب ہے یا نہیں ؟اب یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ انسان جدید ہونے کا دعویٰ کرنے سے پہلے یہ سوچے کہ قرآن کے سامنے اس کی حیثیت کیا ہے ؟ جس قرآن نے ایک ایک لفظ میں حقائق کے سمندر کو سمیٹا ہوا ہے اور انسان کا مقام یہ ہے کہ بڑے بڑے ادارے قائم کر کے، لاکھوں لاکھوں ٹن سائنسی آلات نصب کرکے ،کثیر سرمایہ لگا کر ،بے شمار انسانوں کی مدد لے کر اور اپنی پوری عمر لگا کے ایک حقیقت کو جاننے کے قابل ہوتا ہے اور دوسری طرف قرآن کا یہ مقام ہے کہ ایک ایک آیت میں پورے شعبہ علوم کو سمیٹا ہوا ہے ۔یہ سب کچھ جاننے کے باوجود پھر بھی انسان اپنے خدا کا نافرمان بنا ہوا ہے۔اس لئے انسان کو اپنے آپ کو جدید کہنے میں شرم کرنی چاہئے کہ ایک کتاب ہے جو اسے اس کی جدیدئیت کی حیثیت بتا کر اسے اس کی اس کائنات میں اوقات سے واقف کرتی ہے۔ ……(جاری)
����