مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر بہت سارے فرائض و لوازمات عائد ہوتے ہیں۔ صرف پنج وقتہ نماز برق رفتاری سے پڑھ لینے اور کچھ دینی امور کو انجام دینے کا نام ہی مسلمان ہونا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ کئی ایسے امور بھی ہیں، جن کا ادا کرنا ہم پر از حد ضروری ہے۔ جن میں اخلاقی،اصلاحی، فکری ، سیاسی وغیرہ بہت سے امورہیں، جن کو انجام دینا پوری مسلم قوم کی ذمہ داری ہے۔ غور و فکر کیا جائے تو آج ہم کئی اعتبار سے پچھڑے ہوئے ہیں ،حالانکہ کامیابی کی راہ بتانے والی سب سے بہترین اور عظیم کتاب ہمارے پاس ہے، جس میں ہر چیز کا بیان دلچسپ انداز میں موجود ہے کہ کس طرح ہم اپنی زندگی کو سنوار کر دوسروں کے لیے مشعل راہ بنا سکتے ہیں لیکن اس کےبرعکس ہم دینی تعلیم سے محروم رہ کراور اسلامی طریقۂ کار کو چھوڑ کر مغربی تہذیب و تمدن اختیار کئے ہوئے ہیںجبکہ قرآن پاک میں خدائے تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ’’ تمہارے لیے عملی اعتبار سے سب سے بہترین مثال رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اسوۂ حسنہ ہیں‘‘۔ اگر ہم نبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ہر چیز کا جواب ہمیں عملی طور پر ملے گا کہ کس طرح ہم اصلاحی،اخلاقی، سیاسی وغیرہ ہر ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں اور اپنے کردار سے پوری دنیا کو حیران کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم مسلمان دینی تعلیم سے دور ہونے کی وجہ سے اس قدر محرومی کے شکار ہو چکے ہیں کہ اب ہم حلال و حرام صحیح و غلط کی تمیز بھی نہیں کر پاتے۔ اس لیے ہماری اب یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے معاشرے کی اصلاح کریں اور بُرے امور کو انجام دینے سے لوگوں کو روکیں کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ تم سے کوئی شخص اگر کسی بُرائی کو دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ سے روکے اور اگر اپنے ہاتھ سے نہ روک سکے تو اُسے اپنی زبان سے روکے اور اگر اپنی زبان سے بھی نہ روک سکے تو اپنے دل میںبُرا جانے، یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر ہمارے معاشرے میں غلط چیزوں کا رواج عام ہو رہا ہو یا شریعت کے خلاف کوئی کام انجام دیا جا رہا ہو یا وہ کچھ بھی غلط ہو رہا ہوجو نہیں ہونا چاہیے تھا تو یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اُسے روکنے کی کوشش کریں۔ دورِ حاضر میں مسلم معاشرے میں اَن گنت خرافات نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ جھوٹ، غیبت چغلی ظلم و تشدد وغیرہ ۔بُرے خرافات اوربُری عادتیں جو مسلم معاشرے کے لیے ایک ناسور کی حیثیت رکھتی ہے، اِن سب کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں کیوں کہ آج کل ہم گھر والوں کی ذمہ داری کے علاوہ خود کو کسی بھی ذمہ داری سے بری الذمہ سمجھتے ہیں، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ گھر والوں کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ایک بہترین معاشرے کی تشکیل بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر کسی کو غلط کرتے دیکھے تو اس کی اصلاح کی کوشش کریں ،ہو سکے تو ہر محلے ،گاؤں میں چند لوگ ایک نشست منعقد کریں اور معاشرے کی اصلاح اور فلاح و بہبود کے لیے مثبت لائحہ عمل تیار کریں ۔اگر ہم کوشش کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو تمام غلط رسم و رواج اور برائیاں ہمارے معاشرے سے خود بخود ختم ہو جائیں گی بشرطیکہ تمام مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور مسلمان ہونے کے ناطے جو بھی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، اُنہیں بحسن و خوبی انجام دینے کی کوشش کریں۔ مسلم معاشرے سے ان تمام برائیوں کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کریں جو مسلمانوں کے اندر رچ بس گئی ہے، جنہیں آج بہت سے لوگ برائی بھی گمان نہیں کرتے ،مثلاً بے حیائی، عریانیت، فحاشی، جہیز کی لین دین، دل آزاری، مذاق اڑانا، ظلم و تشدد کرنا، لوگوں کا مال غصب کرنا، دینی تعلیم سے دوری، شریعت کی باتوں کو فراموش کرنا، لڑائی جھگڑا، عشق و عاشقی کے نام پر لڑکیوں کے ساتھ نا جائز رشتےبنانا، کینہ، بغض و عداوت، حسد،جلن، سیاسی معاملات سے دوری، ماں باپ کی نا فرمانی، عزیز و اقارب سے بد سلوکی، بد خلقی وغیرہ۔ جس دن ان ساری برائیوں سے ہمارا معاشرہ پاک و صاف ہو جائے گا، ہم کامیابی کی منزل سے قریب ہو جائیں گے ۔اس لیے ہر ایک فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے مسلم معاشرے سے بُرائیوں کا خاتمہ کر کے ایک بہترین معاشرے کے تشکیل میں اہم کردار نبھانا چاہیے۔
(رابطہ۔8436658850)