اسلام کے چاروں خلفا ئ راشدین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےقایم کردہ نظامِ مملکت ومعاشرت کو ایمان واخلاق کی بنیادوں پر بہ تمام وکمال استواررکھا۔ خلفائے راشدین نے تمام لوگوں کوپوراحق دیا کہ وہ عمال سے لے کر خلیفہ تک کی غلطی خطا بھول چوک ٹھیک کرنے اور نظامِ حکومت ومعاشرت کو صحیح راستے پر گامزن رکھنے کے لئے اصلاحی اقدام سے کوئی گریز نہ کریں۔ حضرت عمر فاروقؓ پر لوگوں کی موجودگی میں ایک بوڑھی اور نحیف عورت کا برملا اس بات پر تنقید کر نا کہ انہوں نے مہر کی حد کیوں مقرر کی جسے رسول اللہ ؐ نے متعین نہ کیا ، یہ اسلامی آزادی کا عملی مظاہرہ تھا ۔کسی نے بھی اس خاتون کو روکا نہ ٹوکا بلکہ حضرت عمرؓ نے شرعی قانون کی صحیح تعبیر کے سامنے سرخم تسلیم کیا اور اپنا حکم نامہ بلا تاخیر واپس لیا۔ یہ ہے اسلامی جمہوریت کا ایک چھوٹا سا نمونہ ۔ ایسی ہزاروں لاکھوں ایسی تابناک مثالیں ہیں جو اسلام کی زریں تاریخ کے حوالے سے زندہ جاوید ہیں اور حقیقی جمہوریت اور آزدی ٔ فکر کے مشاہدے کے طورموجود ہیں۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے ایک ہی خدا کے مطیع و فرماں بردارہونے کے ناطے اپنے خد اداد جوہر دکھائے کہ دنیا امن،ترقی اور بہبودیٔ انسان کا چمنستان بنی۔انہوں نے نہ اپنی ذاتی اصلاح کا دامن چھوڑا ، نہ کبھی ضرورت کے موقعوں پرحکام وعمال کو صحیح کرنے کے کام کو مؤخر کیا ، نہ ہی حق وصداقت کی قیمت کسی کے ساتھ رشتہ ولحاظ داری کی بنیاد پر کوئی سمجھوتہ کیا۔عوام کی اس حسّاسیت اور ناقدانہ نظر کا تحفظ اور نشوونما بے شک وقت کے وہ علمائے رُبانین کیا کرتے تھے جو حقیقی معنوں میں دین اور سماج،امن اور سلامتی کے دل سے خواہاں تھے۔مسلمان سلطنت انہی وجوہ سے آناًفاناً وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی اور دنیا کی تمام حکومتوں کو اس کا سکہ ماننا پڑا۔مسلمانوں نے کم از کم بارہ صدیوں تک دنیا کے بہت بڑے حصّے پر حکومت کی اور ان کا یہ طویل سنہری دور عظیمُ الشان سلطنتوں، امن وآشتی اور اُخوتوں ، تعلیم وتدریس اور فلسفہ وسائنس کی ترقیوں،عالیشان شہروں،ڈھیر ساری ایجادوں،مستحکم معیشتوں اورآرام دہ زندگیوں پر منتج ہوا ۔ اس سب کے پیچھے ایمان و اخلاق والے، بے باک و زیرک عوام،دانا اور ہوشیار علما، عوام دوست حکمرانوں اور خوف ِخدارکھنے والے شہریوں کی فرشتہ صورتیں تھیں ۔ جونہی مسلمانوں نے اپنے یہ اوصاف فراموش کئے تو پوری مسلم سوسایٹی غفلت کی ایک گہری نیند میں سوگئی اور اُمہ کو تباہی کے دہانے پر سرعت کے ساتھ پہنچنا ہی پڑا، انجام کار مسلم معاشرے کی چولیں ہل گئیں اور ہمارا دورِ زوال شروع ہوا۔یہ بات بنا کسی رُورعایت تسلیم کی جانی چاہیے کہ مسلمان امّت اس وقت اخلاقی ،ذہنی اور فکری بحران اور انجماد سے دوچار ہے۔مسلمانوں کے لئے زمین اتنی تنگ ہو رہی ہے کہ الاماں والحفیظ۔ جمود اور عقلوں کی بندش کا یہ حال ہے کہ کئی صدیوں سے عبقری اور صاحب ِ نظر شخصیات بھی مسلمانوں میں اسلام کی فکری بیداری پیداکرنے اور مسلم اقوام میں ایمان کی تعمیروترجمانی کر نے میں مکمل طور کا میاب نہ رہیں ۔ برصغیرمیں علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودی ؒ جیسی عظیم شخصیتوں نےمسلم قوم میں انقلابی تغیر ضرورپیدا کیا لیکن اُن کا کام جزوی طور ہی کامیابی سے ہم کنار ہونے کے سبب امت مسلمہ کے فکری جمود اور قوائے عملیہ کا اضمحلال ابھی تک دور نہ ہوسکا۔ا س کے لئے ابھی مزید اَنتھک دعوتی ا ور اصلاحی کام کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم زمانے کے تقاضوں کے ساتھ بہ حیثیت مسلمانان ِ کامل ہم آہنگ ہو سکیں۔مسلم سوچ کے تعمیرنو کی اس لحاظ سےاز حد ضرورت ہے کیونکہ ہم نے انفرادی ا ور اجتماعی زندگی میں بہت ساری ایسی چیزیں اپنے اندر جذب کی ہوئی ہیں جن سے اسلام اجنبی اور مسلم سوچ کمزور ثابت ہو رہی ہے۔یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ مسلم دنیا اس وقت مشکلات ومصائب سے دوچار ہونے کے باوجود نشاة ثانیہ کے دور سے گزر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی صدی سےاسلامی علوم کو update کر نےاور وقت سے ہم آہنگ کرنےکا قابلِ تحسین کام مسلسل انجام پارہا ہے۔لہٰذا ہمارے علماومفکّرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فکری بیداری اور معیارِ دہر کے مطابق اسلامی علوم کےاسّاسی ماخذات کا از سرِ نو جائزہ لیں اور مسلم امہ کی زندگی اور سوچ میں ایمانی واخلاقی انقلاب بر پا ہو تاکہ فرد سے لے کرعالمی نظام تک ہر چیز قرآن وحدیث کے سانچے میں ڈھل کر انسانیت کو امن، شانتی، عدل ، ترقی، خواندگی ، بیداری اور صحت مندی کی صفات سے متصف کر سکیں۔ یہ ایک واحد راستہ ہے جس سے گزرکر مسلمانوں کو عزت وآبرو اور آزادی وآبادی کی منزل مل سکتی ہے ۔