ابراہیم آتش
مسلمان جس طرح اپنے تہذیب و تمدن پر ناز کرتا ہے ،اُسی طرح اپنی زبان اردو پر بھی ناز کرتا ہے ۔ہمارے ملک میں جس وقت مسلم حکمرانی عروج پر تھی، اُس وقت یہاں کی زبان یا مسلمانوں کی زبان اُردو نہیں تھی،بلکہ فارسی سنسکرت اور مقامی زبانیں تھیں۔اُردو تو اس وقت آئی، جب مغلوں کا زوال ہو رہا تھا ،چنانچہ جب سے مسلمانوں نے اردوزبان کو گلے لگایا ہے تب سے وہ اسی زبان کے گرویدہ رہے ہیں۔چنانچہ آج جہاں جہاں بھی مسلمان اردو زبان کو تھامے ہوئے ہیں،وہاں وہاں وہ نفرت کا شکار ہو رہے ہیں۔ گویااُردو زبان وہاں دوسری زبانوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوسکی،اس لئے صرف مدرسوں، شاعری اور بیانوں تک محدود رہی۔ اس کی وجہ ہرگزیہ نہیں کہ اردو زبان میں خامیاں ہیں،بلکہ یہ اتنی میٹھی زبان ہے ،جسے ہر کوئی پسند کرتا ہے ۔ظاہر ہے کہ زبان میں خامیاں یا تعصب نہیں ہوتا بلکہ زبان کو استعمال کرنیوالے لوگوں کا کردارو اعمال میں خامیاں ہوسکتی ہیں۔آج بھی ملک کی کئی ریاستیں ایسی ہیں،جہاں اُردو زبان نہیں بولی جاتی، وہاں کے مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ شیر وشکر کی طرح رہتے ہیں، تامل ناڈو،کیرالا، مغربی بنگال اور آندھرا پردیش جیسی ریاستوں کی مثال ہمارے سامنے ہے،جہاں مسلمان مقامی زبان استعمال کرتے ہیں۔ بہر حال اردو آج بھی مسلمانوں کی اکثریت استعمال کرتی ہے ۔دینی لٹریچر جتنا اردو میں ہے،اور کسی زبان میں نہیں ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اردو اخبارات پڑھتی ہے، مگر افسوس ! کہ اردو اخبارات سے استفادہ حاصل کرنے کو تیار نہیں۔بیشتر دوکاندار اردو اخبارات تو خریدتے ہیںمگر انھیں پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ میں ایک چکن کی دوکان پر چکن خریدنے پہنچا وہاں اردو اخبار رکھا ہوا تھا، میں نے دوکاندار سے پوچھا ’’کیا آپ نے آج اخبارپڑھا‘‘ تو اُس نے جواب دیا،نہیں پڑھا۔میں نے پوچھا ،پھر اخبار کیوں خریدتے ہو؟ ان کا جواب تھا کہ مرغ کی قیمت دیکھنے کے لئے وہ اخبار خریدتے ہیں۔جس طرح سونے کی قیمت روزانہ اخبار میں آتی ہے، اسی طرح مرغ کی قیمت روزانہ اخبار میں آتی ہے، اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مسلمانوں کا اردو اخبارات سے کس قسم کا رشتہ ہے اور اخبارات کے ذریعہ وہ کیا حاصل کر رہے ہیں۔
مسلمان اگر اپنی بقاء چاہتے ہیں تو وہ ملک کے تمام اخبار پڑھیں، چاہے وہ کسی بھی زبان میں کیوں نہ ہو ۔جو مسلمان اردو پڑھتے ہیں وہ ضروراُردو اخبار خرید یں اور مطالعہ کی عادت ڈا لیں ۔خصوصاً وہ نوجوان جو اُردو پڑھتے ہیں،اخبار خرید کر پڑھیں۔قیمت کوئی زیادہ نہیں ہے ، ایک چائے کی قیمت میں دو تین اخبار تو آ ہی جاتے ہیںاور گھر کے تمام افرادپڑھ سکتے ہیں۔اردہ اخبار پڑھنے کی ضرورت اس لئے ہےکہ موجودہ حا لات جو ہم دیکھ رہے ہیں، ان حالات کا مشاہدہ کریںاور حالات ِ حاضرہ سے باخبر رہیں۔جو لوگ
ٹی وی دیکھتے ہیں اور اخبارات پڑھ رہے ہیں،انہیں چاہئے کہ دوسروں کو بھی حالات و واقعات سے آگاہ کریں۔کیونکہ ہمارے معاشرے کے بیشتر لوگ یا تو حالِ مست ہیں یا مالِ مست ہیں۔بہت سارے لوگ عیش کی زندگی گذار رہے ہیں اوردنیا و مافہا سے بالکل بے خبر رہتے ہیں، انہیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا ہے کہ ہمارا پڑوسی ،ہمارے احباب و اقرباء کس حال میں جی رہے ہیں۔مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے حساس صفوں میں شامل ہوجائیں اور بے حسی کی زندگی کو ترک کریں۔اپنے مسلمان بہن بھائیوں کا دُکھ و درد اپنے اندر سمیٹئے کا کوئی راستہ نکلالنے کی کوشش کریں۔یاد رہے کہ جب تک مسلمان اُردو اخبارات نہیں پڑھیں گے ،اُردو لکھنے والے دانشوروں اور قلم کاروں کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ حق تو یہی ہے کہ ملک و معاشرے کےبہت سارے ہ دانشورآج بھی ملک کی بے لوث خدمت انجام دے رہے ہیںجو بغیر کسی حرص و طمع کے دن رات اپنا قیمتی وقت نکال کر اُمت کی فلاح و بہبودی کی فکر کر رہے ہیں۔ اُن لکھنے والوں کو کیا ملتا ہے،انہیں یہی امید ہے آ خرت میں کچھ اجر و ثواب ملے جبکہ دوسری زبانوں میں لکھنے والوں کو کچھ نہ کچھ رقم ملتی ہے ۔یہاں پر ہم یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں دوسری زبانوں کے مقابلے میں اردو اخبارات کا سرکیولیشن کم ہے اور حکومتوں کی جانب سے خاطر خواہ مدد اور اشتہارات بھی نہیں ملتے ہیں ،اس کے با وجود اردو اخبارات کے مالکان بہت ہمت و دلیری کے سا تھ مسلمانوں کے لئے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کے لیڈروں کے بارے میں کیا کہیں وہ دولت کاانبار جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں،ان کو نہ اسلام سے اور نہ مسلمانوں سے کچھ لینا دینا ہے اور رہے، علمائے کرام ،زیادہ تر علماء بند لفافے لئے بغیر اپنا بیان نہیں کرتےہیں۔چنانچہ اردو میڈیا ہی واحد ذریعہ ہے جو ملک کے تمام مسلمانوں کو ایک نظریہ کی دعوت دیتا ہے۔ اس وقت مسلمان جس دور سے گذر رہے ہیں،اس سے نجات دلانا اہم مقصد ہے اور یہ کام فی الحال مسجدو ں سے ممکن نہیں ہے کیونکہ مسجدیںالگ الگ خانوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ہر مسجد کی کمیٹی کا نظریہ الگ ہے، وہ چاہتے ہیںاسی نظریے کی ترویج ہو ،اسی نظریے کو عام کیا جائے۔ ان کو مسلمانوں کی فکر نہیں بلکہ اپنے مسلکوں کی فکر ہے۔ کاش! تمام مساجد کے ذمہ دارا ن اردو اخبارات کے دانشوروںکی باتوں کو بھی جمعہ کے خطبہ میں لاتے ،اس کو موضوع بناتے، آج یہ دن مسلمانوں کو دیکھنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ وہ تمام باتیں معلوم ہو جاتی کہ ملک میں زندگی کسی طرح گذارنی ہے، دوسری قوموں کے ساتھ کس طرح رہنا ہے، حکومتوں کے ساتھ ہمارا رویہ کس طرح ہونا چاہئے، مسلمانوں میں سیاسی پارٹی کا مقام کیا ہو،یہ تمام باتیں اردو اخبارات کے ذریعہ معلوم ہو جاتی ہیںمگر مسلمان اردو اخبارات سے دو ر ہیں، اس لئے یہ باتیں ان تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔اردو اخبارات حالات حاضرہ کی ہر خبرآپ تک پہنچاتے ہیں،جس سے آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔اخبارات اور کتابوں کے ذریعہ انسان میں شعور پیدا ہوتا ہے۔ اخبارات کے ذریعہ سیاست کو سمجھ سکتے ہیں ۔اخبارات کے ذریعہ معاشیات سماجیات اور سائنس کو سمجھ سکتے ہیں۔
اخبارات کے متعلق مسلمانوں میں ایک انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے جتنے سماجی ادارے ہیں اور جو نوجوان قوم و ملت کے لئے ایک اچھا کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہیںاور مساجد کے ذمہ دارقوم کی تعمیر میں ایک اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں، اس کے لئے مساجد کے ذمہ دار سماجی ادارے اور محلوں کے نوجوانوں سب مل کر ہر مسجد کے ساتھ یا محلے میں ایک لائبریری کا قیام عمل میں لائیں، اس سے بہت بڑا فائدہ ہوگا ، جس دن لائبریری کا قیام عمل میں آئے گا، اس کے بعد نوجوانوں میں موبائل کی لعنت سے چھٹکارا پانے میں آسانی ہوگی، ان کے ذہنوں کو معلومات کے ذریعہ وسیع کیا جاسکتا ہے۔ لائبریری میں کتابوں کے ساتھ مختلف زبانوں کے اخبارات ہوں، جس سے مسلمان استفادہ حاصل کر سکیں گے۔ مسلمانوں کے محلوں میں ایک ادبی ماحول پیدا ہوگا، تعلیمی بیداری پیدا ہوگی اور حالات حاضرہ کی آگہی ہوگی۔
)رابطہ۔9916729890 )
[email protected]>