حافظ نوید الاسلام
قرآنِ مجید وہ کتاب ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں، یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ کتاب تمام آسمانی کتابوں کی سردار ہے۔ جس طرح اس کا مرتبہ بلند وبالا ہے ،اسی طرح کلام اللہ یعنی قرآنِ کریم کے کچھ حقوق بھی ہیں، جس کا ادا کرنا ہمارے ذمه لازم ہے۔قرآن کریم کے حقوق ادا نہ کرنا بھی سنگین جرم ہوگا۔
قرآن مجید کا پہلا حق یہ کہ اس پر ایمان لایا جائے، کہ یہ اللہ تعالی کی آسمانی کتاب ہے، انبیاء علیہم السلام میں سے سب سے آخری نبى محمدِ مصطفی صلى الله عليه وآله وسلم پر نازل ہوا ہے، اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں۔ قرآن کریم کے متعلق یہ عقیدہ اور ایمان تقریباً ہر مسلمان کے دل میں موجود ہے۔
ایمان کے دو پہلو ہیں۔ ایک ’’اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ‘‘ اور دوسرے ’’ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘ اقرارِ لسانی دائرۂ اسلام میں داخلے کی شرطِ لازم ہے اور تصدیق قلبی حقیقی ایمان کا لازمہ ہے۔
يعنی قرآن مجيد پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اس کا اقرار کیا جائے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو آخری رسول حضرت محمد صلى الله عليه وآله وسلم پر نازل ہوا۔ اس اقرار سے انسان دائرۂ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے،لیکن حقیقی ایمان اسے اُس وقت نصیب ہوتا ہے جب ان تمام امور پر ایک پختہ یقین اس کے قلب میں پیدا ہو جائے۔ پھر ظاہر ہے کہ جب یہ صورت پیدا ہو جائے گی تو خود بخود قرآن کی عظمت کا نقش قلب پر قائم ہو جائے گا اور جوں جوں قرآن پر ایمان بڑھتا جائے گا اس کی تعظیم و احترام میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ گویا ایمان و تعظیم لازم و ملزوم ہیں۔
قرآنِ کریم کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے،اور اُسی طرح تلاوت کرنی چاہئے جس طرح حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کے سامنے کی اور آنحضرت صلى الله عليه وآله وسلم نے صحابۂ کرام ؓ کو سکھائی،جب قرآن کریم کا نزول ہو رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ (القیامۃ: ۱۸)جب ہم( جبرئیل کے واسطے سے تمہارے سامنے) قرآن پڑھیں تو جس طرح وہ پڑھتے ہیں آپ بھی اسی طرح پڑھیں۔
قرآنِ کریم کو تجوید کے مطابق پڑھیں، اس لئے کہ قرآن مجید کو انہی آداب اور قوانین کے مطابق پڑھنا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کے ذریعہ سے سکھائے ہیں،قرآنِ مجید کو درست پڑھنے کے لئے باقاعدہ تجوید کا علم ہے، جس میں قرآنِ مجید کے حروف کو صحیح ادا کرنے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے،حروف کی صحیح ادائیگی بہت ضروری ہے۔ بعض اوقات حروف کی درست ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے نماز ہی نہیں ہوتی،اس لئے ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآنِ کریم کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا سیکھے۔ عربی زبان میں کل انتیس حروف ہیں،ان کو صحیح ادا کرنے کا طریقہ سیکھ لیا جائے تو قواعد کے مطابق تلاوت کی جا سکتی ہے، یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے،یہ سیکھنے کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے اور روزانہ کے معمول میں قرآن کریم کی تلاوت کو شامل کرنا چاہئے۔
قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کا معمول ہر مسلمان کو بنانا چاہئے،خواہ تھوڑی سی تلاوت ہی کیوں نہ ہو لیکن روزانہ ہونی چاہئے۔قرآن کریم میں سات منزلیں ہیں،یہ سات منزلیں اس لئے مقرر کی گئیں تھیں کہ روزانہ ایک منزل پڑھی جائے اور ہر مسلمان سات دن میں قرآن مجید ختم کر لے۔ یوں ایک مہینے میں چار مرتبہ قرآن کریم تلاوت میں ختم کیا جاتا تھا،یہ عام مسلمانوں کا طریقہ تھا،پھر اس میں کمی آتی چلی گئی تو روزانہ ایک پارہ پڑھنے کا معمول شروع ہو گیا، یوں تیس دن میں ایک قرآن مجید ختم ہو جاتا تھا، لیکن اب اس کا بھی معمول نہیں رہا، کوشش کریں کہ ایک دن میں ایک پارہ نہ سہی آدھا پارہ ہی تلاوت کر لیا جائے، وہ بھی نہ ہو سکے تو کم ازکم ایک پاؤ کی تلاوت تو ضرور کرنی چاہئے، ہمارا کوئی دن بھی قرآن کریم کی تلاوت سے خالی نہیں جانا چاہئے۔
قرآنِ کریم کا تيسرا حق جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد فرمایا ہے یہ ہے کہ ہم اس کتاب کو سمجھیں اور اس سے ہدایت حاصل کریں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ہمارے لئے سرچشمۂ ہدایت بنایا ہے، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
ہُدًی لِلْمُتَّقِین ’’یہ کتاب متقی لوگوں کے لئے ہدایت ہے‘‘ (البقرہ: ۲)
جب اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو ہمارے لئے ہدایت بنایا ہے تو اس کو جُزدان میں بند کر کے رکھنا اور اس کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کرنا بھی اس کی حق تلفی ہے ۔ اگر کسی کو اس کا محبوب کسی ایسی زبان میں خط لکھے، جس کو وہ سمجھتا نہ ہو تو اس کو اس وقت تک چین نہیں آئے گا ،جب تک اس زبان کے سمجھنے والے کے پاس جا کر اس خط کو پڑھوا نہ لے اور یہ پتہ نہ کر لے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے محبوب کے خط کو طاق میں سجا کر رکھ د ے اور اس کو کھول کر بھی نہ دیکھے کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ لیکن آج مسلمانوں نے قرآن کریم کو طاق میں سجا کر رکھا ہوا ہے، اس کی تلاوت ہی نہیں کی جاتی۔اگر کسی کو تلاوت کی توفیق ہو بھی جائے تو اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ ہر مسلمان اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم اور قرآن پر تو ایمان رکھتا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ کس قدر غفلت کی بات ہے!
یہ بات بھی نہیں کہ اس کو سمجھنے کے لئے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہو۔ الحمد للہ اس دور میں تقریباً ہر زبان میں ہی قرآن کریم کے تراجم اور تفاسیر علماء کی جانب سے لکھے جا چکے ہیں،اس لئے ہر مسلمان کوشش کرے کہ اپنے پاس کوئی مستند ترجمہ یا تفسیر رکھے اور اس کو پڑھ کر قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ چونکہ آج کل بہت سے گمراہ لوگوں نے بھی تراجم وتفاسیر لکھ دی ہیں، اس لئے کسی مستند عالم دین سے مشورہ کر کے کوئی ترجمہ یا تفسیر خریدنی چاہئے اور اس کو پڑھنے کا معمول بنانا چاہئے۔
چوتھا حق قرآن مجید کا یہ ہے کہ اس میں جو ہدایات اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں ،ان کو اپنی زندگی میں نافذ کیا جائے۔ ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے کہ قرآن مجید کے اس حق کو پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کرے ،کیونکہ سیکھنے کے بعد عمل ہی کا مرحلہ ہے۔ اس کو عملی زندگی میں لانا چاہیے ،وہ انفرادی ہو یا اجتماعی۔ قرآن کریم مکمّل ضابطہ حیات ہے، اس نے زندگی کی ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ علم علم نہیں جس پر عمل نہ ہو، عمل کا یہ حکم نبی علیہ السلام کو بھی دیا گیا، جن کی مبارک زندگی ہمارے لئے نمونہ اور ماڈل ہے۔ قرآن کریم میں ہےکہ آپ اس وحی کی پیروی فرمائیں جو آپ كے رب كي طرف سے(نازل) ہوئي۔
قرآن مجید پر عمل درحقیقت اُسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان کا فکر قرآن کے تابع ہو جائے اور قرآن کا بیان کردہ علم حقیقت انسان کے دل اور دماغ دونوں میں جاگزیں ہو جائے۔اب يہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کتابِ الٰہی کے اس حق کی ادائیگی کے لیے کیا عملی تدبیر اختیار کی جائے؟ تو اس كا ايک یہی جواب ہے كہ ایک فرد میں اسلام کی مطلوبہ تبدیلی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجيد کو اس کے دل و دماغ میں اُتارا جائے۔
پانچواں حق قرآن مجيد کی تعليمات كو دوسروں تک پہنچانا ہے، یہی فریضہ سب سے پہلے جناب نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم پر عائد کیا گیا تھا کہ آپ یہ قرآن دوسروں تک پہنچائے۔’’يَآ اَيُّـهَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۖ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه ۚ وَاللّـٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الْكَافِـرِيْنَ ‘‘(67)(اے رسولؐ!جو تجھ پر تیرے ربّ کی طرف سے اُترا ہے، اسے پہنچا دے، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو اس کی رسالت کا حق ادا نہیں کیا، اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا، بے شک اللہ کافروں کی قوم کو راستہ نہیں دکھاتا۔)
یعنی آپ کی طرف جو وحی نازل کی گئی ہے، اس کو دوسروں تک پہنچائیں، اس کی تبلیغ کریں۔ اس کے بعد نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے دن رات قرآن کی تبلیغ فرمائی ہے۔ اس کے خاطر تکلیفیں برداشت کی، جنگیں لڑی، بدر و احد کے معرکے پیش آئے ، لیکن نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم اس مشن میں مصروف رہے۔ آج ہر اُمتی کا یہ فریضہ ہے کہ وہ قرآن کی تبلیغ کرے، اس کی نشر واشاعت کرے، کیونکہ نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ ارشاد نبوی صلى الله عليه وآله وسلم کے مطابق قرآن سیکھنے سکھانے والے کا بہت بڑا مقام ہے۔ چنانچہ نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔‘‘
ماننے، پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کے علاوہ قرآن مجید کا ایک اور حق يعنى اسے دوسروں تک پہنچانا بھی ہر مسلمان پر حسبِ صلاحیت و استعداد عائد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وہ اسے دوسروں تک پہنچائے۔يہ قرآن مجید کے وہ حقوق ہیں جو ہم سب پر بحیثیت مسلمان عائد ہوتے ہیں اور جن کی ادائیگی کی فکر ہمیں کرنی چاہیے۔ ہم وہ خوش قسمت قوم ہیں ،جس کے پاس اللہ کا کلامِ پاک من و عن محفوظ اور موجود ہے۔ یہ بات جہاں بڑے اعزاز کا باعث ہے، وہیں اس کی بنا پر ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے ۔ہمیں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہمیں قرآن مجید کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بارگاہِ ربّ العزت سے حاصل ہو جائے :
اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنَا بِالْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ وَاجْعَلْہُ لَنَا اِمَامًا وَّنُوْرًا وَھُدًی وَّرَحْمَۃً‘ اَللّٰھُمَّ ذَکِّرْنَا مِنْہُ مَا نَسِیْنَا وَعَلِّمْنَا مِنْہُ مَا جَھِلْنَا وَارْزُقْنَا تِلَاوَتَہٗ آنَائَ اللَّیْلِ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ وَاجْعَلْہُ لَنَا حُجَّۃً یَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ (آمین)
’’پروردگار!ہم پر قرآن عظیم کی بدولت رحم فرما اور اسے ہمارے لیے پیشوا، نور اور ہدایت و رحمت بنا دے۔ پروردگار! اس میں سے جو کچھ ہم بھولے ہوئے ہیں وہ ہمیں یاد کرا دے اور جو ہم نہیں جانتے ہمیں سکھا دے اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ اس کی تلاوت کریں، راتوں کو بھی اور دن کے حصوں میں بھی اور بنا دے اسے دلیل ہمارے حق میں ،اے تمام جہانوں کے پروردگار! ‘‘(آمین)
[email protected]