قیصر محمود عراقی
دین اسلام میں مسجد ایک انقلابی ادارہ ہے اور مسلم معاشرے میں اس کا مقام وہی ہے جو انسانی جسم میں قلب کا ہے۔ جب تک قلب متحرک ہے جسم میں جان ہوتی ہے اور جب قلب کمزور پڑجاتا ہے تو جسم بھی شِل ہوجاتا ہے۔ مسجد دن رات کسی بھی لمحے نہ صرف فرض نمازوں ، سنتوں، نوافل، اعتکاف اور قیام وسجود کی جگہ ہے بلکہ عبادت، تربیت ، دعوت اور خاص طور پر خدمت خلق کا ایک ایسا مرکز ہے،جس کی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتی۔ مسجد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریمؐ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلے اپنے دست مبارک سے مسجد قبا تعمیر کی ، اس کے بعد اپنے گھر تک کی تعمیرسے پہلے مسجد نبویؐ کی بنیاد رکھی اور اسے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات کا مرکز قرار دیا ، مطلب یہ ہے کہ مسجد نبویؐقیامت تک کیلئے امتِ مسلمہ کیلئے ایک منارہ نور اور اسوہ نبویؐ کا عملی نمونہ ہے، لیکن اس کسوٹی پر ہم اپنے معاشرے میں مساجد میں ہونے والے امور کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہم نے اسے معاشرے میں عبادت ، تربیت اور خدمت کا مرکز اور محور بنانے کے بجائے اسے مصنوعی تقدس دیکر نہ صرف مسلم معاشرے کو بلکہ پوری انسانی خلائق کا ایک اعلیٰ اور مثالی نمونہ بنانے کی طرف بہت کم توجہ دی ہے۔
مسجد جسے ہم آج صرف چند مخصوص عبادت کا مرکز سمجھتے ہیں، حقیقت میں وہ پورے نظم اسلامی کا مرکز ہے، جہاں نہ صرف نماز ادا کی جائیگی بلکہ وہی مسلمانوں کیلئے عدالتی نظام قائم ہوگا، مسلمانوں کے تعلم اجتماعی کے تمام مسائل وہیں حل ہونگے، زکوٰۃ وعشر اور دیگر محصولات سمیت اسلامی بیت المال کا پورا نظام مساجد میں ہوگا ، جہاں سے ان محصولات کا اللہ کے بتائے ہوئے طریقے سے استعمال کیا جائیگا ۔ یہی وہ مقام ہوگا جہاں پر بیرونی وفود سے ملاقاتیں کی جائیگی ، معاہدے طے ہونگے، اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کا مرکز بھی یہی مسجد ہوگی، جہاں تمام دینی ودنیوی علوم کی تفریق سے بالا تر ہوکر مسلمان بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ آج بھی مسجد کو اسلامی معاشرے میں اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، جہاں تمام افراد پاک وصاف ہوکر جاتے ہیں، مسجد کا احترام کرتے ہیں، مسجد میں لایعنی گفتگو سے گریز کرتے ہیں، مسجد کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ اسلام محدود دین نہیں، اس لئے اپنی تعلیمات کے پیش نظر اسلام نے مسجد کو صرف ان کاموں کیلئے مرکزی اہمیت نہیں دی بلکہ اسلام مسجد کو اس مرکزی مقام کی حیثیت سے استعمال کرنا چاہتا ہے ،جہاں اسے پوری اسلامی ریاست کو چلایا جاتا ہو۔ آپؐ نے اور خلفائے راشدینؓ نے تمام ریاستی معاملات کا نظم ونسق مسجد سے ہی چلایا اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ مسلمانوں کیلئے مرکزی حیثیت صرف مسجد کو ہی حاصل ہے، جہاں سے نہ صرف مسلمانوں کو متحد رکھا جاتا ہے بلکہ ان کی تعلیم وتربیت اور دیگر تمام مسائل کا حل مسجد سے ہی منسلک ہے۔
مسجد کا تو حق یہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا خان بھی آئے ، مسجد میں داخل ہو تو لرزاں و ترساں ،کہ میں اس بے نیاز اور اس ربِ جل جلال اور اس ربِ کریم کی بارگارہ میں حاضری دینے کیلئے جارہا ہوں، اس کے روبروجارہا ہوں، جو نہ صرف میرا حلیہ دیکھ رہا ہے، میرا لباس دیکھ رہا ہے بلکہ میرے دل کی ایک ایک دھڑکن سے واقف ہے، میری سوچ اور فکر کا ایک ایک گوشہ اس پر عیاں ہے، میرے باطن کی ایک ایک کیفیت اس کے سامنے ہے اور میں اس کے حضور اپنی گذارسات پیش کرنے جارہا ہوں ،میں اس کی ملاقات جارہا ہوں، میں اس کے سامنے کھڑا ہونے جارہا ہوں، اسی طرح ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ مسجد میں داخل ہوں تو عظمت الٰہی سے لرزا ںوترسا ں کے ساتھ، نہ کہ گپ شپ کرتے بے دھیانی سے یا بے خوفی سے بیٹھ کر دنیا کی باتیں شروع کردیں۔ اگر آپ زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکتے تو جتنی دیر مسجد میں ہیں اللہ اللہ کریں ، اور اگر جلدی ہے تو آرام سے نماز ادا کرے اور باہر چلے جائیں، اپنا کام کاج کریں ، کون روکتا ہے۔ مسجد کی عظمت یہ ہے کہ یہ خطہ زمین تحت الثریٰ سے لیکر عرشِ معلی تک صرف اور صرف اللہ کے سجدوں کیلئے وقف ہوجائے۔ آپ نے دیکھا ہوگا ہمارے علماء حضرات، خطیب یا امام کا گھر مسجد کے ساتھ بناتے ہیں اور وضوخانے اور حجرے وغیرہ باہر ہوتے ہیں ،جہاں سجدے نہیں کئے جاتے وہاں بناتے ہیں لیکن مسجد کی چھت پر آپ کوئی گھر نہیں دیکھیںگے۔ مساجد نیک لوگوں کی آماج گاہ ہیں ، مسجد سے مضبوط سے تعلق مومن ہونے کی نشانی ہے۔ جن لوگوں کا دل مسجد میں لگا رہے، اُن کیلئے بروزِ قیامت اللہ کے سائے کی خوشخبری ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ مساجد اللہ کے گھر ہے اور اس گھر میں اللہ کے سوا کسی کی حکمرانی نہیں چلے گی ، نہ امام مسجد کی اور نہ ہی مسجد کے متولی کی اور نہ ہی مسجد کے صدر اور سکریٹری کی ، اگر ان لوگوں نے اپنی حکمرانی چلائی تو گویا فساد برپا کیا اور اللہ کے گھر میں فساد کا مطلب اللہ سے اعلان جنگ ہے اور جو بھی اللہ کے گھر میں خرابی پھیلانے کی کوشش کریگا ،وہ اللہ کی گرفت سے بچ نہ سکے گا۔
آخر میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوںکہ آج کل موبائل فون کی ایجاد نے جہاں ہماری زندگیوں کو متاثر کیا ہے، وہیں ہماری عبادات بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں ۔ دورانِ نماز مساجد میں موبائل فون کا بجنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے، اگرچہ سادہ رنگ ٹون فون بھی کسی نہ کسی موسیقی پر مبنی ہوتی ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ اب تو گانے ہی سننے کو ملتے ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کا خود فرمان ہے کہ مساجد اللہ کا گھر ہے ، اس میں اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکارو(سورہ جن ، آیت ۱۸)۔ اللہ کے سوا کسی اور کو پکارنے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ باقاعدہ کسی کی پرستش کی جائے ، بلکہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی اور اپنے نفس کی بات ماننا بھی شرک ہے۔ چونکہ گانا بجانا شریعت میں ممنوع ہے ، اس لئے شریعت کے حکم کو چھوڑ کر اپنے نفس کی خواہش کو ماننا بھی غیر اللہ کی پرستش کے مترادف ہے، چونکہ اللہ کا گھر ہے اور ہم اس میں اللہ کی عبادت کیلئے جاتے ہیں ، اس کے سامنے اپنی بندگی اور اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے جاتے ہیں، اس سے مناجات کرتے ہیں، اس سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنے جاتے ہیں اور اگر دوسری جانب ہمارا موبائل ہمارے ان جذبات کی نفی کررہا ہو تو معاملہ مشکوک ہوجاتا ہے کہ ہم حقیقی مالک اور قابل پرستش کسے مانتے ہیں، اللہ کو یا اپنے نفس کو ؟ بہر حال بہ حیثیت مسلمان یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم مساجد کو تباہی سے بچائیں اور اگر ایسا نہ کیا تو ہمیں تباہی سے کوئی بچا نہ سکے گا۔
موبائل6291697668
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)