سرینگر// لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک نے بھارتی میڈیا کے ایک حصے کی جانب سے پھیلائی جانے والی خبروں کہ جن میں کہا جارہا ہے کہ یاسین ملک پی ڈی پی کے کسی لیڈر سے ملاقی ہوئے ہیں کی سخت اور غیر مبہم الفاظ میں تردید کی ہے اور اس خبر کو پی ڈی پی اور اسکے آقاﺅں کی جانب سے کشمیری عوام کے اندر اپنی گری ہوئی ساکھ کی بحالی کےلئے ایک بے تاب کوشش قرار دیا ہے جس کے ذریعے کشمیری عوام کے دل و دماغ میں شک پیدا کرنا بھی مقصود ہے۔ اپنے ایک بیاں میں یاسین ملک نے کہا کہ پی ڈی پی اور اسکے ساجھی دار بی جے پی نے مل کر پچھلے چار برس سے کشمیریوں کے خلاف ظلم و جبر اور تعدی کی انتہا کی ہے۔ ان برسوں میں نہ صرف اس حکومت نے ہمارے سیکڑوں لوگوں کو تہہ تیغ کیا بلکہ ہزاروں کو زخمی اور اندھا بھی بنایا جبکہ ہزاروں گھروں کو مسمار کرنے کے علاوہ ہزاروں لوگوں کو جیلوں اور اذیت گاہوں کی نذر بھی کیا گیا۔اب جبکہ بھارت میں الیکشن کا سال آچکا ہے اور جبکہ پچھلے چار برس کا ظلم و جبر قتل و غارت اور تشدد کشمیریوں کی تحریک مزاحمت کو کچلنے میں ناکام و نامراد ہوا ہے ، پی ڈی پی اور اسکے دہلی میں براجمان آقاﺅں نے اپنے گناہ دھونے اور عوام الناس کے اندر اپنی گری ہوئی ساکھ کو کچھ بحال کرنے کی غرض سے مستند اور عوامی حلقوں میں مقتدر لوگوں کے ساتھ ملاقاتوں پر مبنی نقلی اور من گھڑت خبریں پھیلانے کا کام شروع کردیا ہے تاکہ انہیں اپنی ووٹ سیاست کےلئے لوگوں کے پاس جانے کا کچھ موقع نصیب ہوسکے۔ یاسین ملک نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر چونکہ پی ڈی پی حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف صف اول میں رہے ہیں اور چونکہ آج تک انہوں نے دہلی سے آئے ہوئے نمائندوں وغیرہ سے ملاقی ہونے سے صریح انکار کیا ہوا ہے اسلئے دہلی اور اسکے ریاستی حواری جن میں پی ڈی پی خاص طور پر موجود ہے نے اپنے جانب دار اور جھوٹے میڈیا کے ذریعے ان کے خلاف ایک زہر آلود مہم چلانے کا آغاز کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ نقلی اور بے بنیاد خبریں چلانے کا مقصد جہاں پی ڈی پی اور اسکے حواریوں کی گری ہوئی عوامی ساکھ کی بحالی ہے وہیں پر اس کے ذریعے یہ لوگ اپنی نام نہاد اور نقلی امن مہم اور بات چیت ڈرامے کو بھی کچھ وزن دلانا چاہتے ہیں۔۰۳ مئی ۸۱۰۲ءکو پئش آنے والے واقعے کی تفصیل دیتے ہوئے یاسین ملک نے کہا کہ اس دن وہ اپنے چند تحریکی دوستوں کے ہمراہ ایک مقامی ریسٹورنٹ میں افطار کےلئے گئے ہوئے تھے جہاں پی ڈی پی کے وحید پرہ بھی اپنے کچھ لوگوں جن میں دو مقامی جرنسلٹ بھی شامل ہتھے کے ہمراہ پہلے سے ہی ایک ٹیبل پر موجود تھے۔ وحید پرہ جن کی ہمارے نزدیک اہمیت صرف اتنی ہے کہ وہ بھارتی ایجنسیوں کے آلہ کار ہیں نے مجھے دیکھ کر میرے نزدیک آنے اور سلام کرنے کی کوشش کی اور اگرچہ مجھے دینی اعتبار سے سلام کا جواب نہ دینا برا بھی لگاتھا لیکن اس کے باوجود میں نے اسکی سلام تک کا جواب نہیں دیا ۔ اسی قصے کو گھما کر دوسرے دن ایک بلاگ اور پھر ایک فیس بک اکاﺅنٹ نے شیئر کیا جس کی تردید فوراً وہاں موجود لوگوں نے کی جس کے بعد فیس بک پر پھیلانے والے جرنلسٹ نے معذرت بھی کردی۔ کل سے اسی خبر کو بھارتی میڈیا جس کی جانب داری عیاں چہ بیان ہے کے ایک حصے جس میں فیس بک پر ایک نیوز ایجنسی جس کانام ”دی پرنٹ©“ ہے اور جسے شیکھر گپتا چلاتے ہیں اور ایک مقامی ٹی وی چینل گلستان نیوز بھی شامل ہیں نے مذموم مقاصد اور بظاہر اپنے آقاﺅں کے اشاروں پر پھیلانا شروع کردیا ۔انہوںنے کہا کہ ہم نے ان دونوں کے خلاف عدالت میں جاکر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے اک فیصلہ کرلیا ہے۔ انہون نے کہا کہ وحید پرہ ہو کہ کوئی اور پی ڈی پی والا اسکی کوئی مقامی ساخت نہیں ہے اور وہ تو کجا کوئی مزاحمت کار بھی ان لوگوں سے ملاقات کا سوچ نہیں سکتا ۔ انہون نے چیلنج کیا کہ اگر کوئی بھی شخص وحید پرہ کی پیدائش کے بعد سے ابتک ان کی میرے ساتھ کہیں بھی کوئی ملاقات یا بات چیت کو بھی ثابت کرے گا تو وہ سیاست سے دست بردار ہوجائیں گے۔انہون نے کہا کہ بھارت اور اسکے مقامی کٹ پتلیوں جن میں پی ڈی پی سرفہرست ہے کو یہ بات جان لینی چاہئے کہ ان کے بوکھلاہٹ زدہ اقدامات جن کے ذریعے وہ قیادت کو بدنام کرانا چاہتے ہیں کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہوں گے اوران کا بھی وہی حشر ہوگا جو ان کے ظلم و جبر کا ہوا ہے۔ انہون نے کہا کہ پی ڈی پی اور بی جے پی کو یہ بات بھی باور کرلینی چاہئے کہ ان کا یہ بات چیت ڈرامہ بھی انہیں کچھ نہیں دے پائے گا اور تحریک مزاحمت کو کمزور یا بدنما کرانے کی انکی ساری کوششیں ان شاءاللہ بے کار اور ناکام ہوں گی۔