مزید خبریں

جموں کشمیرکے4 سابق وزرائے اعلیٰ کی سیکورٹی میں مزید کمی | SSG واپس لینے کے بعد جامر اورا یمبولینس سے بھی محروم

نیوز ڈیسک
سرینگر+ نئی دہلی//جموں کشمیر کے چار سابق وزرائے اعلیٰ کی حفاظت میں مرکزی زیرانتظام علاقہ کی انتظامیہ کی طرف سے مزید کمی کرنے کا فیصلہ کیاگیا اور اب سرینگرضلع میں ان کی نقل وحرکت کے دوران جامرزاورایمبولینس ساتھ نہیں چلے گی۔سنیچر کو سابق وزیراعلیٰ اور لوک سبھا ممبر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پائین شہر میں درگاہ شریف حضرت بل اور آستان عالیہ خانیار پر حاضری دی۔ لیکن ان کے ساتھ جامر گاڑی،جو ملی ٹینٹوں کی طرف سے دھماکہ کرنے کی صورت میں ریموٹ کنٹرول کی سگنل روک دیتی ہے،نہ ہی ایمبولینس گاڑی موجود تھی۔ ایمبولینس گاڑی ہنگامی صورتحال کے دوران طبی سہولیات فراہم کرنے کے فراہم کی جارہی تھی۔ حکام نے تاہم بتایا کہ بین ضلعی دوروں کے دوران سابق وزرائے اعلیٰ غلام نبی آزاد،ڈاکٹر فارو ق عبداللہ،محبوبہ مفتی اور عمرعبداللہ کو جامر اور ایمبولینس فراہم رہے گی۔یہ ان کی سیکورٹی کو کم کرنے کے بعد سامنے آیا ہے جب سپیشل سیکورٹی گروپ(ایس ایس جی) جو سابق ریاست جموں کشمیر کی اسمبلی کی طرف سے پاس کئے گئے ایک قانون کے تحت قائم کیاگیا تھا،تاکہ ریاست کے وزیر اعلیٰ اور سابق وزرائے اعلیٰ کو حفاظت فراہم کی جائے،کوواپس لیاگیاتھااوران کی حفاظت جموں کشمیر پولیس کی سیکورٹی ونگ کو سونپی گئی اورمرکزی مسلح دستوں کو بھی ان کے ساتھ رکھا گیا۔اس بارے میں جموں کشمیر پولیس سے رابطہ کرنے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔یہ قدم اُس وقت اُٹھا گیا جب سرینگرضلع میں جنگجو واقعات گزشتہ برس سے رونما ہورہے ہیں۔شہرمیں حفاظتی دستوں اور جنگجوئوں کے درمیان متعددمسلح جھڑپیں ہوئی ہیں ۔اس کے علاوہ کچھ لوگوں کو ممنوعہ ٹی آر ایف نے نشانہ بناکر ہلاک کیا ہے۔جموں کشمیر انتظامیہ نے ایس ایس جی کو2000میں قائم کرنے کے بعدکم کرنے کے فیصلے کے بعد ایس ایس جی پروٹیکشن کو واپس لیا۔ ایس ایس جی کواب موجودہ وزیراعلیٰ اور اس کے قریبی اہلخانہ کی حفاظت کا کام سونپا گیا ہے۔اس فیصلے سے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ،نائب صدرعمر عبداللہ،پی ڈی پی صدرمحبوبہ مفتی اورکانگریس رہنماغلام نبی آزاد کاسیکورٹی کورواپس لیا گیا ہے۔فاروق عبداللہ اور غلام نبی آزادکو نیشنل سیکورٹی گارڈ کی سیکورٹی فراہم ہوتی رہے گی کیوں کہ دونوں کو زیڈپلس زمرے میں رکھاگیا ہے جبکہ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو جموں کشمیرمیں نیشنل سیکورٹی گارڈ جنہیں بلیک کیٹ کمانڈوکہاجاتا ہے ،فراہم ہوگی تاہم جموں کشمیر سے باہر انہیں یہ شاید ہی سیکورٹی فراہم  ہوگی ۔حکام نے کہا کہ ان رہنمائوں کو ضلع پولیس اور پولیس کی سیکورٹی ونگ انہیں درپیش خطرے کوجانچنے کے بعدفراہم کریں گے۔ایس ایس جی کے کچھ اہلکار جموں کشمیر پولیس کے سیکورٹی ونگ کے ساتھ منسلک رہیں گے تاکہ وہ نزدیکی حفاظت کاکام انجام دیں۔
 
 
 
 
 

لداخ میں کووِڈ- 19 کے61نئے کیس 

لیہہ//لداخ میں کورونا متاثرین کی تعداد27400ہوگئی ہے اور اتوار کو مزید61افراد کووِڈ- 19مثبت پائے گئے۔حکام کے مطابق  نئے معاملوں میںلیہہ کے50اور کرگل کے11شامل ہیں۔حکام کے مطابق خطے میں کورونا وائرس سے اتوار کو کسی کی موت نہیں ہوئی اور مرکزی زیرانتظام علاقہ میں کورونا سے ہوئی اموات کی تعداد226ہے جن میں167لیہہ میں اور59کرگل میں ہوئیں۔اس دوران مزید 74مریضوں کواسپتالوں سے شفایاب ہونے کے بعد رخصت کیا گیا جن میں لیہہ میں49اور کرگل کے25شامل ہیں۔حکام کے مطابق خطے میں فعال کورونا معاملوں کی تعدادکم ہوکر570رہ گئی ہے جن میں 433لیہہ میں ہیں جبکہ کرگل میں137شامل ہیں۔
 
 
 
 
 
 
 
 
 

کپوارہ ضلع میں صحت عامہ کا شعبہ زبوںحالی کا شکار | طبی اور نیم طبی عملہ کی 1799  اسامیوںمیں526خالی | لوگوں کومشکلات،انتظامیہ سے مداخلت کی اپیل 

اشرف چراغ 
کپوارہ// کپوارہ ضلع میں اگرچہ سرکاری اسپتالو ں جن میں ضلع اسپتال ،سب ضلع اسپتال اورپرائمری ہیلتھ سنٹرو ں کے علاوہ سب سینٹرو ںکی ایک اچھی خاصی تعداد ہے لیکن اس کے باجود بھی ضلع کے ان سپتالوں میں یاتو طبی سہولیات کا فقدان پایا جاتاہے یا پھر طبی اور نیم طبی عملہ کی کمی ہے جس کے نتیجے میں مریضوں کا صحیح علاج و معالجہ نہیں ہوتا ۔ضلع میں اس وقت 319اسپتال قائم ہیں جن میںایک ضلع اسپتال ،7سب ضلع اسپتال ،ایک ڈسٹرکٹ ٹیوبیرکلوسز ،31پرائمری ہیلتھ سینٹر ،23نیو ٹائپ پرائمری ہیلتھ سینٹر ،6ایلو پیتھک اسپتال ،215سب سینٹر ،2سب ہیلتھ سینٹر اور 33میڈیکل ایڈسینٹر شامل ہیں،قائم ہیں، لیکن اس کے باجود بھی ضلع میں طبی سہولیات کا سخت فقدان پایا جاتا ہے۔ مقامی لوگو ں کا کہنا ہے کہ اگر ضلع میں اسپتالوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے تو پھر مریضوں کو بہتر طبی سہولیات دستیاب کیوں نہیں ہے ۔مقامی لوگو ں کا کہنا ہے کہ ضلع کے ان اسپتالوں میں یا تو طبی اور نیم طبی عملہ کی کمی ہے یا پھر محکمہ صحت ضلع کے ان اسپتالو ں کی طرف توجہ نہیں دیتا۔لوگو ں کا کہنا ہے کہ کپوارہ ضلع دور دراز علاقوںجیسے کیرن ،مژھل ،جمہ گنڈ ،بڈنمل،کمکڑی اور کرناہ پر مشتمل ہے اور ان علاقوں کے مریضوں کو بہتر علاج و معالجہ نہ ملنے کی صورت میں کپوارہ یا سرینگر منتقل کیا جاتا ہے اور اس کی خاص وجہ یہ ہے ان اسپتالو ں میں طبی سہولیات کے ساتھ ساتھ طبی اور نیم طبی عملہ کی کمی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ضلع میں طبی اور نیم طبی عملہ کی سینکڑوں اسامیاں خالی پڑی ہیں جس کی وجہ سے ضلع کے اسپتالو ں کا کام کاج متاثر ہوتا ہے ۔اعداد وشمار کے مطابق ضلع میں طبی اور نیم طبی عملہ کی 1799اسامیاںہیں جن میں محض 1273 پرعملہ تعینات ہیں جبکہ525اسامیاں خالی پڑی ہیں ۔ اعداد و شمار کے مطابق ضلع کے اسپتالوں میں 14انتظامی پوسٹ ہیں جن میں 1خالی پڑا ہے جبکہ کنسلنٹٹ کی 60اسامیوں میں صرف 31 پرڈاکٹرتعینات ہیں اور29اسامیا ں خالی پڑی ہیں ۔اسی طرح میڈیکل آفیسرو ں کی کل اسامیا ں 195ہے اور ان میں 66خالی پڑی ہیں ۔ضلع میں ڈینٹل سرجنوں کی 43اسامیاں ہیں اور ان میں 11خالی پڑی ہیں ۔نیم طبی عملہ (پیرا میڈیکل )کی887اسامیوں میں 746پرعملہ کام کررہا ہے اور 141اسامیاں خالی پڑی ہیں ۔کلاس فورتھ کی531اسامیوں میں 260 پرعملہ تعینات ہیں جبکہ 271خالی ہیں ۔ڈرائیورو ں کے69پوسٹ ہیں اور ان میں سے بھی 7اسامیاں خالی پڑی ہیں اور کل ملا کر 1799اسامیوں میں سے1273پرعملہ کام کر رہا ہیں اور 526اسامیاں خالی پڑی ہیں ۔اعدادا و شمار کے مطابق ضلع میں نیشنل ہیلتھ مشن کے تحت 655اسامیاں ہیں اور ان میں بھی55اسامیا ں خالی پڑی ہیں جس میں سپیشلسٹ 9میں سے 2خالی پڑی ہیں جبکہ ایلو پیتھک میڈیکل آفیسرو ں کی43اسامیو ں میں 36 پرڈاکٹرتعینات ہیں اور 7پوسٹ خالی پڑے ہیں ۔آئی ایس ایم ،یونانی ڈاکٹرو ں کی 74اسامیوں میں 3خالی ہیں ۔نیم طبی عملہ کی486اسامیوں میں 39اسامیاں خالی ہیں۔منیجمنٹ کی 41اسامیوں میں 4پوسٹ خالی پڑے ہیں ۔اس دوران یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ضلع میں 16ایسے پرائمری ہیلتھ سینٹر ہیں جو دن کو کھلے رہتے ہیں اور شام 4بجے کے بعد بند ہوجاتے ہیں ۔مقامی لوگو ں کے مطابق بلاک میڈیکل سوگام میں چیر کوٹ ،ٹکی پورہ اور دیور ،کپوارہ میں درگمولہ ،نگری،گوشی ،کنڈی ،گونی پورہ،ہندوارہ (چوگل)میں نطنوسہ اور بٹہ پورہ ،لنگیٹ میں بٹہ گنڈ ،لاش اور مونہ بل ،کرالہ پورہ میں ہرے ۔ویلگام میں ککروسہ ،ترہگام میں آوورہ ایسے پرائمری ہیلتھ سینٹر ہیں جو 24گھنٹہ کھلے نہیں رہتے ہیں جس کیو جہ سے ان علاقوں کے لوگو ںکو علاج ومعالجہ کے حوالہ سے سخت دقتو ں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔مقامی لوگو ں کا کہنا ہے کہ اگر ان اسپتالو ں کو عوام کی سہولیات کے لئے قائم کیا گیا ہے تو ان میں ضروری مشینری کے ساتھ ساتھ طبی اور نیم طبی عملہ کو تعینات کیوں نہیں کیا جاتا ہے اور انہیں 24گھنٹہ کھلا رکھنا چایئے تاکہ ضلع کے ان دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر لوگو ں کو علاج و معالجہ کے حوالہ سے دقتو ں کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ضلع کے لوگو ں نے لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ سے مداخلت کی ایپل کی ہے اور مطالبہ کیا کہ ضلع میں طبی اور نیم طبی عملہ کی خالی پڑی اسامیوں کو پورا کریں تاکہ ضلع کے مریضوں کو سرینگر اور دیگر اسپتالو ں کو منتقل کرنے کا سلسلہ رک جائے۔اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ ضلع میں طبی اور نیم طبی کی کمی کی وجہ سے اسپتالو ں کا کام کاج متاثر ہوتا ہے اور مریض دیگر اسپتالو ں کا رخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔اس دوران ترہگام پرائمری ہیلتھ سینٹر میں گزشتہ 6ماہ سے ایکسرے مشین بے کار پڑی ہے کیونکہ اس مشینری کے لئے ٹیکنیک تعینات نہیں ہے ۔مقامی لوگو ں کا کہنا ہے کہ اسپتال انتظامیہ اس بات سے بخوبی واقف ہے لیکن8ماہ گزر جانے کے باجود بھی اسپتال میں ایکسرے ٹیکنیشن کو تعینات نہیں کیا گیا اور مریضوں کو کرالہ پورہ اور کپوارہ ایکسرے کرنے کے لئے جانا پڑتا ہے ۔ضلع کے دور دراز علاقوں میں اس قسم کی ڈھیر ساری شکایتیں مو صول ہورہی ہیں کہ یہا ں کے اسپتالو ں میں عملہ کی شدید قلت پائی جاتی ہے ۔اس حوالہ سے جب ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز سے رابطہ کیا گیا تو انہو ں نے فون نہیں اٹھایا ۔ضلع کے لوگو ں نے لیفٹننٹ گور نر انتظامیہ سے مداخلت کی اپیل کی ۔
 
 
 
 

ریاستی حقوق انسانی کمیشن کا ریکارڈ ناقابل رسائی | حق اطلاعات قانون کے تحت دی گئی درخواست میں انکشاف

نئی دہلی//جموں کشمیرمیں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں سے متعلق ریکارڈجو سابق ریاستی حقوق انسانی کمیشن کے پاس تھا،ایک کمرے میں بند ہے۔اس بات کااظہار حق اطلاعات سے متعلق ایک درخواست کے جواب میں کیاگیا۔اس سلسلے میں وینکیٹیش نائیک نامی ایک کارکن نے حق اطلاعات قانون کے تحت درخواست دی تھی جس میں انہوں نے 31اکتوبر2019سے جب جموں کشمیر کی تشکیل نو کاقانون نافذہوا،کمیشن کے پاس زیرالتواء شکایتوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرناچاہی۔تشکیل نوسے سابق ریاست دومرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کی گئی جس کی وجہ سے خودمختار اداروں جسیے ریاستی حقوق انسانی کمیشن اور ریاستی انفارمیشن کمیشن مرکزی قوانین کے نفاذ کے بعد ختم ہوئے۔نائیک کے درخواست میں جموں کشمیرانتظامیہ نے کہاکہ سابق پینل کے ریکارڈ کے بارے میں اس کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔اس کی پہلی اپیل کے ردعمل میں  جموں کشمیر انتظامیہ نے کہا کہ سابق ریاست کی تشکیل نو کے بعد جموں کشمیر تحفظ انسانی حقوق قانون1997واپس لیاگیا۔اس قانون کو واپس لینے کے ساتھ ہی جموں کشمیر حقوق انسانی کمیشن کو بند کیاگیا۔کمیشن کا تمام ریکارڈسابق حقوق انسانی کمیشن کے دفتر کے ایک کمرے میں مقفل رکھاگیا۔سابق کمیشن کے ملازمین دوسرے محکموں میں منتقل کئے گئے۔اس میں مزید کہاگیا کہ کمیشن کا ریکارڈرسمی طور قانون،انصاف اور پالیمانی امور محکمہ کو نہیں سونپا گیااور اس طرح یہ محکمہ کیلئے قابل رسائی نہیں ہے۔
 
 
 

سیل بیروہ میں بینک کی عدم موجودگی سے لوگوں کو مشکلات | نزدیکی شاخ8کلومیٹر دور،جے کے بینک انتظامیہ سے نوٹس لینے کی اپیل

ارشاداحمد
بڈگام//بڈگام کے علاقہ بیروہ سے ملحقہ سیل میں بنک شاخ کی کمی کے باعث متعدد علاقوں کی ہزاروں افراد کی آبادی کو گوناگوں مشکلات درپیش  ہیں۔نزدیکی شاخ 8 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔بیروہ بڈگام سے ملحقہ سیل جہاں سینکڑوں افراد سرکاری ملازمین ہیں جبکہ ملحقہ علاقوں میں ہزاروں کنال پر مشتمل میوہ باغات بھی موجود ہیں جبکہ سیل بیروہ میں نیابت، پوسٹ آفس،سیکنڈری سکول ،طبی مرکز ،شیپ ہسبنڈری کے دفاتر بھی برسوں سے قائم ہیں، تاہم سیل میں بنک شاخ نہ ہونے سے شہریوں کو گوناگوں مشکلات درپیش ہیں۔مقامی باشندوں نے اس بارے میں بتایا کہ سیل سے متعدد علاقے منسلک ہیں جن میں کھنڈرو،راوت پورہ، خان پورہ، ذانی گام،گونی پورہ،ملہ پورہ ،کنہ گنڈ، تکیہ لال پورہ، شامل ہیں جن کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہیں جن کے لئے سب سے نزدیکی بنک شاخ آری زال ہے جو 8 کلومیٹر دوری پر واقع ہے جبکہ دوسری جانب سے بیروہ کی بنک شاخ بھی موجود ہے جو 8 کلومیٹر سے زاید فاصلے پر واقع ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ان بنک شاخوں پر جانے اور آنے میں پورا دن گزر جاتا ہے۔مقامی شہری ماسٹر حبیب اللہ نے  بتایا کہ سیل علاقہ میں سالانہ کروڑوں روپے کا لین دین تنخواہوں اور کاروبار کی شکل میں بنک شاخوں سے ہوتا ہے لیکن 8 کلومیٹر سے زیادہ دوری پر واقع بنک شاخ ہونے سے مقامی آبادی کو وقت اور پیسوں کا زیاں ہوجاتا ہے ہم نے متعدد بار جموں کشمیر بنک کے اعلی حکام سے سیل میں بنک شاخ کھولنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن حکام نے سنجیدگی سے غور نہیں کیا ،آج ایک مرتبہ پھر جموں کشمیر بنک کے منیجنگ ڈائریکٹر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سیل بیروہ میں بنک شاخ کھول کر مقامی آبادی کو راحت دلائے۔ 
 
 
 
 

کنگن پاورکنال سے نوجوان کی لاش برآمد | پانزوپل ویری ناگ کے قریب شہری مردہ پایاگیا

غلام نبی رینہ+یواین آئی
کنگن// گاندربل کے برنابگ کنگن میں 18 برس کے نوجوان کی لاش پاور کنال سے برآمد ہوئی جبکہ ویری ناگ میں پانزوپل کے قریب ایک 45برس کے شخص کی لاش پائی گئی۔ برنابگ کنگن میں اس وقت سنسنی کا ماحول پیدا ہوا، جب پاور کنال سے 18برس کے نوجوان بلال احمد جاگل ولد اسماعیل جاگل کی لاش برآمد ہوئی۔ ذرائع سے معلوم ہوا کہ بلال احمد جاگل گذشتہ روز اچانک لاپتہ ہوگیا تھا جس کے بعد اس کے لواحقین نے اس کو ہر جگہ تلاش کیا لیکن مذکورہ نوجوان کا کو ئی اتہ پتہ نہیں چلا جس کے بعد لواحقین نے اس کی گمشدگی کے بارے میں کنگن پولیس کو مطلع کیا ۔اتوار کی صبح مذکورہ نوجوان کی لاش پاور کنال برنابگ کنگن میں پائی گئی، جس کے بعد پولیس نے قانونی اور طبی لوازمات  پوراکرکے لاش کو لواحقین کے حوالے کیا۔ کنگن پولیس نے اس بارے میں کیس درج کرکے کاروائی شروع کی۔  ویری ناگ میں پانزو پل کے نزدیک اتوار کو 45 سالہ شخص کی لاش پْرا سرار حالت میں برآمد کی گئی۔سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اتوار کی صبح کو مقامی چند افراد نے پانزو پل کے نزدیک ایک لاش دیکھی اور اس بارے میں پولیس کو مطلع کیا۔انہوں نے کہاکہ پولیس ٹیم فوری طورپر جائے موقع پر پہنچی اور لاش کو تحویل میں لے کر اْس کی شناخت نثار احمد ڈار ولد مرحوم غلام محمد ڈار ساکن شمسی پورہ بجبہاڑہ کے بطور کی ہے۔اْن کے مطابق قانونی اور طبی لوازمات پورے کرنے کے بعد میت وارثین کے حوالے کی جائے گی۔پولیس نے اس ضمن میں ایک کیس درج کرکے مزید تحقیقات شروع کی ہے۔