کشتواڑ سنتھن سڑک کو کھولنے کا مطالبہ
اقبال بٹ
کشتواڑ//ضلع کے مکینوں نے کشتواڑ۔سنتھن سڑک کھولنے کا مطالبہ کیا ہے،تاکہ گرمائی راجدھانی کے ساتھ چھوٹے روڈ کا رابطہ مہیا ہو۔کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے پی ڈی پی کے ضلع کارڈی نیٹر نصیر ا حمدباغوان نے کہا کہ ڈوڈہ اور کشتواڑ اضلاع کو دنیا کے دیگر علاقوں کے ساتھ براستہ کشتواڑ۔سنتھن سڑک سے جوڑنے سے اس خطہ کے عوام کو سہولیت ہوگی۔اس نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ ڈوڈہ اور کشتواڑ کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑنے کے لئے اس شاہراہ کو بغیر مزید تاخیر کے کھو لا جائے۔دریں اثنا اس علاقہ کے عوام نے کہا ہے کہ اس شاہراہ کو کھولنے سے ان دونوں اضلاع میں مقامی و غیر ریاستی سیاحوں کو سیاحتی مقامات کی جانب کھینچا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سڑک کے کھولنے سے مذہبی سیاحت کو بھی فروغ حاصل ہوگا،کیونکہ اس روٹ پر متعدد مذہبی مقامات قائم ہیں۔ان لوگوں نے متعلقہ حُکام سے اس سڑک کو کھولنے کے کام میں سرعت لانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
ہمبل میں ڈوڈہ پولیس کاعوامی اجلاس
ڈوڈہ//اتوار کے روز ہمبل میں ایس پی آپریشن رویندر پال سنگھ کی قیادت میں ایک عوامی میٹنگ منعقد ہوئی۔میٹنگ کا مقصد پولیس ۔عوام رشتوں کو مضبوط کرنا تھا جس میں ہمبل کے 40سے 50قابل قدر اور معزز شیریوں،پنچوں،سرپنچوں ،سیاسی لیڈروں نے شرکت کی ۔میٹنگ میں شرکاء نے اپنے مسائل پیش کئے جن میں ہمبل ہائی سکول کو ہائر سکینڈری کا درجہ دینا ،ہائی سکول ہمبل میں اضافی تعیناتی اور تدریسی اسٹاف ،بڈگراں،کوٹہ،دہدانی کی 8ہزار سے 10ہزار آبادی کے لئے ائرویدک ڈسپنسری کا درجہ بڑھا کر پبلک ہیلتھ سینٹر بنایا جائے، کھلینی سے گوہا مرمت تک سڑک کی کشادگی اور بلیک ٹاپینگ ،ہائی سکول ہمبل میں کھیل میدان کی تعمیر، ہائی سکول ہمبل کیلئے واٹر فلٹر پلانٹ اور پینے کے پانی کی سپلائی وغیرہ شامل ہیں۔ایس پی آپریشن نے شرکاء کو یقین دلایا کہ سیول انتظامیہ متعلقہ محکموں کو یہ مسائل کا ازالہ کرنے کیلئے ہدایات دیں گے۔عوام کو بتایا گیا کہ وہ مجرموں ،منافرت پھلانے والوں اور شرارتی عناصر کو بارے میں پولیس کا ساتھ دیں اور علاقہ میں امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آنگی بر قرار رکھیں۔
شیڈولڈ کاسٹ یوتھ ویلفیئر ایسوسی ایشن کشتواڑ کی میٹنگ
کشتواڑ//جموں اینڈ کشمیر شیڈولڈ کاسٹ یوتھ ویلفیئر ایسوسی ایشن ضلع کشتواڑ کی میٹنگ زیر صدارت جموں وکشمیر شیڈ ولڈ کاسٹ ، شیڈ و لڈ ٹرائب بیکوارڈ کلاس مزدور سنگ یونائٹیڈ کے چیئر مین اجیت بھگت کی قیاد ت میں منعقد ہوئی جس میں عہدیداروںکے علاوہ نو جوانوں نے بھاری تعداد میں شمولیت کی۔ اس موقعہ پر بھگت نے ریاستی ومرکزی سرکار سے مانگ کی ہے کہ وہ فوری طورپر پکل ڈول، کیرو، کوار ، ریٹلی اور کرتھائی پاڈر پن بجلی پراجیکٹوں پر جلد از جلد کام شروع کروائے تاکہ پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کاموقعہ حاصل ہوسکے ، بھگت نے مرکزی وزیر بجلی اور dehli CMD NHPCسے بھی مانگ کی ہے کہ وہ ان پراجیکٹوں پر فوری طورپر کام شروع کروائے کیوں کہNHPC نے کئی سالوں پہلے ان پراجیکٹوں کی سروے مکمل کر لیاہے اور اگر ان تمام بجلی پراجیکٹوں پر جلد اجلد کام شروع کیاجاتا ہے تو ریاست کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم ہوگا۔ بھگت نے یہ بھی مانگ کی ہے کہ ضلع کے بے روزگار نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کئے جائیں تاکہ وہ اپنا نجی روزگار شروع کرسکیں۔ بھگت نے محکمہ CAPDپر الزام عائد کرتے ہوئے بتایا کہ کہ محکمہ ہذا کو فوری طورپر ہدایت دی جائے اور راشن، مٹی تیل، گیس اور کھانڈ فراہم کی جائے تاکہ عوام کم کو مزید مشکلات کاسامنا نہ کرنا پڑے میٹنگ میں انل بھگت، حقیقت سنگھ ، گوند بھگت، اونکار سنگھ ، روی بھگت کمار ، امیت بھگت، خوف چند، ونے کمار ، شبیر احمد ، وکی بھگت ، وغیرہ شامل تھے۔
آصفہ معاملہ میں
فرقہ پرستوں کا افسوسناک رویہ
حالانکہ ریاستی پولیس کی کرائم برانچ نے کٹھوعہ کی معصوم بچی آصفہ کے ساتھ درندگی اور بے رحمانہ قتل کے اسرار کو سلجھالیا ہے اور مجرمین کی نشاندہی اوراقبال جرم بھی ہوچکا ہے اُس کے باوجود کچھ سیاسی مفادات رکھنے والے ناعاقبت اندیش لوگ ناجانے کس دُنیا کی مخلوق ہیں کہ آئے دِن نئے نئے تماشے کرکے CBI سی بی آئی کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ مذہبی فرقہ پرستی کا زہر ان کے دماغوں میں اس قدر جم چکا ہے کہ جان بوجھ کر معاملے کو طول دیئے ہوئے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ سی بی آئی کا اب اس کیس میں کوئی کردار نہیں رہ جاتاہے لیکن سی بی آئی کی طویل انکوائری سے یہ اچھی طرح واقف ہیں اورانکوائری مکمل ہوجانے کے باوجود اسے طوالت دینا چاہتے ہیں۔حیرت توتب ہوتی ہے جب جموں کی وکلا کی تنظیم HCBA بھی ان مجرمین کی پُشت پناہی کرنے لگی ہے۔ بار ایسوسی ایشن نے 2008 اور2013 میں ایسے لوگوں کاساتھ دے کر نتیجہ دیکھ لیا دونوں بار الیکشن کی تیاری کے لئے فرقہ بندی کرکے صوبہ جموں کے عوام کو بے وقوف بنایا گیا ۔ جھوٹے وعدے کرکے نوجوانوں اور سیدھے سادے لوگوں کے جذبات کا استحصال کیا گیا اورلوگوں نے اس سرکار میں شریک جموں لیڈران پر جو بھروسہ کیا اور امیدیں باندھ رکھی تھیں ان پر پانی پھر گیا اب دوبارہ اقتدار پر قابض ہونے کے لئے پھر سے ایسے لوگوں کا سہارا لیا جارہاہے جو بظاہر تو ان کی مخالفت کرتے ہیں لیکن درپرہ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹیّ بٹّے ہیں اور ایک ہی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور جموں صوبہ کی پرُ امن فضا کو گندہ کررہے ہیں۔ ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ جرائم پیشہ افراد اپنا گناہ چھپانے کے لئے سیاسی پناہ ڈھونڈتے ہیں اورفرقہ پرست سیاستدان ان کی پشت پناہی کرکے انکا استعمال بہ خوبی کرلیتے ہی ظاہر ہے دونوں کی ذہنیت یکساں ہوتی ہے اس لئے جھوٹے پروپگنڈے کرکے اور اپنا دبدبہ قائم کرکے آسانی سے کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ ایسے بددیانت اورپست کردار لیڈران اوران کے ہمنواؤں کو اہمیت نہیں دینا چاہئے اور نہ ہی ان کے فتنوں کو ہوا دینے کی ضرورت ہے گذشتہ روز اسسٹنٹ وومن کمیشن کی چیئرپرسن محترمہ نعیمہ مہجور نے رسانہ گاؤں جاکرمجرموں کے حق میں بیٹھی کچھ خواتین سے ملاقات کرکے انہیں سمجھا نے کی کوشش کی،اور انہیں تسلی دی کہ کوئی بے گناہ نا انصافی کاشکار ہیں تو اسے کچھ نہیں ہوگا ، لیکن گنہگار بھی نہیں بچ سکتاہے اور عدالت عالیہ ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ دیتی ہے پولیس تو صرف نشاندہی کرکے تحقیقات کرکے عدالت کے حوالے کردیتی ہے ۔وہاں کچھ شرپسندان خواتین کو اشاروں میں سمجھاتے نظر آئے کہ صرف CBIسے تحقیقات ہو وہ بھی کہہ رہی ہیں کہ انہیں عدالت پر پھر بھی بھروسہ نہیں اب یہ بات بار ایسوسی ایشن کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کن عناصر کی حمایت کررہے ہیں جو معزز عدالت کی ہی توہین کررہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے اب یہ لوگ نہ جانے کونسی پشت پناہی لیکر’ ’کرویا مرو‘‘کی پالیسی پر چل کر کتنا بڑا فتنہ فساد کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کسی دوسری ریاست میں اگر کسی دوسرے فرقے کی لڑکی کے ساتھ ایسا گھناؤنا کام ہوا ہوتا تو مرکزی سرکار فوری طورپر ریاست سے جواب طلبی کرتی ، لیکن یہاں کے معاملے میں مرکزی سرکار کی خاموشی معنی خیز اور حیران کن ہے۔ کیوں کہ یہ لڑکی مسلمان ہے یہ بھی ظاہر ہے کہ ایک معصوم کو درندگی کا شکار بنا کر قتل کردینا ایک گہری سازش ہے تاکہ ایک مخصوص فرقے کے لوگ خوف ودہشت میں رہیں۔ یہ بھی سمجھنے والی بات ہے کہ اس معاملے کے ساتھ بنگلہ دیشی اور روہنگیائی پناہ گزینوں کوبھی جوڑ دیا گیا ہے یہ وہ بنگلہ دیشی ہیں جن کے آبا واجداد ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے دوٹکڑے ہونے کے نتیجے میں ہندوستان سے وفاداری نبھاتے ہوئے یہاں وارد ہوئے اور وزیر اعظم آنجہانی اندراگاندھی نے انہیں ملک کے مختلف حصوں میں بسایا جیسے دہلی وغیرہ میں افغان پناہ گزین بھی ہیں اور نائجیریا کے لوگ باقاعدہ کالونیاں بناکر حکومت ہند کے تحفظ میں رہ رہے ہی اسی طرح روہنگیائی اقوام متحدہ کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت یہاں پناہ گزین ہوئے لیکن لوگوں کو بے وقوف بنانے اور ووٹ حاصل کرنے کے لئے اب الٹا رنگ دیا جارہاہے ہم تو کہتے ہیں کہ وکلاء حضرات بجائے ہڑتالوں کے عدالتوں میں حکومت کے خلاف مقدمے دائر کریں کہ ان پناہ گزینوں کو کس طرح واپس بھیجا جائے گا ہڑتالیں کرکے کچھ حاصل نہیں ہوگا یہ تو عوام کو بے وقوف بنانے والی پالیسی ہے۔
محمد اسلم اخان…7051106355
محلہ دلپتیاں جموں
گول سول سوسائٹی کا قیام خوش آئند
کسی علاقہ کی تعمیر و ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہاں کی معزز شخصیات مل کر کام کریں اور وہ تب ہی ضروری ہے جب ان کی کوئی جماعت ہو گی اس کے لئے نہ صرف گول میں بلکہ ہر جگہ پر سول سائٹیوں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے اور وہ نہ صرف تعمیر و ترقی کے کاموں کو دیکھتے ہیں بلکہ وہ تعلیم ،آپسی تال میل، صلح رحمی یعنی کہ معاشرے میں ہر غلاط کام کے خلاف جنگ لڑتے ہیں اور بہتر مستقبل کی تعمیر کے لئے جدوجہد کرتے ہیں ۔ہم میں سے اکثر لوگ سول سوسائٹی کے کرداراور اہمیت سے شاید مناسب طور پر آگاہ نہیں ہیں۔ اس لئے ہمارے معاشرے میں سِول سوسائٹی کے بارے میں اکثر غلط فہمی پائی جاتی ہے۔کچھ لوگوں کے نزدیک سِول سوسائٹی سے مراد روشن خیال یا آزاد فکر طبقہ ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ایسے بھی خیالات ہوتے ہیں کہ سول سوسائٹی کسی سیاسی لیڈر نے اندرونی طور پر بنائی ہے اور الیکشن کے دوران اسے استعمال کرنے اور ووٹ حاصل کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی اور بڑی آسانی سے وہ اس سو سائٹی کے ذریعے ووٹ حاصل کر سکے گی ۔کچھ کے نزدیک سِول سوسائٹی سے مراد لبرل اور سیکولر طبقہ ہے۔ کچھ کے نزدیک سِول سوسائٹی مذہب بیزار لادین لوگوں کا گروپ ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ سِول سوسائٹی معاشرے کے اونچے طبقے کے لوگوں کی کی کوئی تنظیم ہے، کچھ لوگ یہاں تک غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ان کے نزدیک سِول سوسائٹی فیشن ایبل اور امیر لوگوں کا کوئی پرائیویٹ کلب ہے، جہاں دولت اور امیری چونچلوں کی نمائش ہوتی ہے۔سرکاری اور نجی ادارے کسی بھی معاشرے میں ستون کی حیثیت رکھتے ہیں، سول سوسائٹی بھی معاشرے کا ستون ہے۔ سوِل سوسائٹی معاشرے کا تیسرا اہم ستون کہلاتی ہے۔ سوِل سوسائٹی کی بنیاد عام شہری ہوتے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں، ہر مہذّب معاشرے میں سول سوسائٹی کا باقاعدہ وجود اور کردار ہوتا ہے۔ ایک دو سال قبل گول میں پیس اینڈ ویلفیئر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس میںیہاں کی معزز شخصیات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اب تک اس کمیٹی نے نہ صرف گول بلکہ ملحقہ جات یعنی پورے سب ڈویژن میں بہتر کار ہائے انجام دئے اور لوگوں کے مسائل کی طرف دھیان دئے اور ان مسائل کو انتظامیہ اور اعلیٰ حکام تک پہنچایا ۔ ان ایک دو سال میں جو پیس اینڈ ویلفیئر کمیٹی نے لوگوں کے تئیں کام کئے ہیں وہ نا قابل فراموش ہیں ۔ اب چند روز قبل گول میں ہی ایک سول سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا امید کرتے ہیں کہ یہ سو سائٹی بھی عوامی فلاح و بہبود اور ترقیاتی کاموں میں بہتر کام کرے گی ۔ بڑی پرانی کہاوت ہے کہ جتنا گڑ ڈالو اُتنا ہی میٹھا ہو گا اور اسی طرح سے گول میں جتنی سو سائٹیوں کا قیام ہو گا اتنا ہی زیادہ کام ہو گا لیکن یہاں پر صرف کام کرنے کی نیت سے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ جہاں ایک طرف سے لوگوں نے اس طرح سے سول سوسائٹیوں کے قیام پر مسرت کا اظہار کیا ہے وہیں دوسری جانب کچھ گلے شکوے بھی سامنے آئے ۔ یہاں پر دونوں جماعتوں یعنی سو سائٹیوں نے کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق کو خارج از امکان قرار دیا ہے اور دونوں نے ان سو سائٹیوں کے قیام کا مقصد صرف اور صرف عوامی فلاح و بہبود قرار دیا ہے ۔ چند سال قبل پیس اینڈ ویلفیئر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جنہوں نے وقتاً فوقتاًلوگوں کے مسائل اجا گر کئے ، ہڑتالیں کیں ۔ کئی مسائل بھی حل ہوئے ۔ اس طرح سے اب سول سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اس میں بھی پورے سب ڈویژن کے معزز شہریوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور تمام لوگوں نے سیاست سے اوپر اُٹھ کر عوام کی خاطر زمینی سطح پر کام کرنے پر زور دیا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں ان تمام سول سوسائٹیوں سے مل کر رہنا چاہئے اور جہاں جہاں بھی فلاح و بہبود کے کام ہوں ، نشہ کے خلاف ، بے راہ روی کو روکنے کے لئے ایک ہو کرکام کرنا چاہئے اوراُن کا بھر پور ساتھ دینا چاہئے تا کہ مستقبل روشن ہو اور ہماری نسل اس افرا تفری کے دور ، نشہ اور دوسری بری عادتوں سے بچ سکے ۔
زاہد بشیر…7051269761
ساکن گول،ضلع رام بن
موجودہ نسل ذہنی ڈپریشن کی شکار
پچھلے کئی سال سے ہماری ریاست میں ہونے والی دھاندلی نے عوام و خواص،امیرو غریب، تاجر و صنعت کار،خواندہ و نا خواندہ،مزدور وکسان،طلبہ و طالبات غرضیکہ ہر طبقہ کے افراد کو مایوسی و پریشانی کے کنویں میں دھکیل دیا ہے۔یہ دھاندلی سرکار اور انتظامیہ کی غیر سنجیدہ پالیسیوں کی وجہ سے معرضِ وجود میں آئی ہے۔ہماری اسمبلی سے لے کر پنچائتی حلقوں تک ممبران کی آپسی چپقلش نے جمہوریت کی ان اکائیوں میں ایک ناقابلِ بیان افراتفری کا ماحول پیدا کیا ہے۔اس افراتفری نے ترقی کی تمام راہوں کو بند کرکے ہر ایک مسئلے کو بیوقوف سیاست کی نذر کیا ہے۔تاجروں کا مسئلہ ہو یا پھر سرکاری ملازموں کا مسئلہ ہو، غریبوں کا مسئلہ ہو یا پھر ہماری نئی نوجوان نسل کا مسئلہ ہو ہر ایک ہمارے ملک و ریاست کی گھٹیا سیاسی چپقلش کے اندر سڑ رہا ہے۔جس سے پوچھو درد بھری داستان کے سوا کچھ نہیں۔میں حیران ہوں کہ ہماری کسی بھی سرکار نے آج تک عوام کا دل نہیں جیتا بلکہ اس کے برعکس اپنی اہمیت و وقعت کو کھو بیٹھے۔ملک یا ریاست کے ایوان کا ممبر ایک معزز و باوقار شخصیت ہوتاہے لیکن آج ان کا نام سن کے ہی ہر قسم کی منفی سوچ ذہن میں گردش کرنے لگتی ہے۔کرپشن سے لے کر قتل جیسے سنگین جرائم کا ان کی شخصیت کے ساتھ وہی وابستگی ہوتی ہے جیسے آگ کے ساتھ گرمی۔ برائے کرم اگر اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو بحال کرنے کی کوشش کی جاتی، عوام کا خلوص کے ساتھ دل جیتے جاتے، ہر مسئلے کو حقائق کی روشنی میں حل کیا جاتا تو یہ زمین جنت بن جاتی، لیکن ہائے افسوس خدا سے باغی ذمہ داران اور خواہشات کے پجاری ایسا کرنے کا نام نہیں لیتے۔ایک اہم ترین مسئلہ جس کو اگر بروقت حل نہ کیا جائے گا تو ہماری ریاست جموں و کشمیر کو خطرناک حالات سے دوچار ہونا پڑے گا۔وہ ہے ہمارے طلباء میں بڑھتی جارہی مایوسی جس نے ہماری نوجوان نسل کے چہروں کی رونق چھین لی ہے۔نوجوانی میں ہی چہرے پر جھریاں، بالوں میں سفیدی،طبیعت میں ترش روی اور پھر آخرکار اخلاقی گراوٹ ہماری ریاست میں خطرناک حالات کو جنم دے رہے ہیں۔جموں کے طلبہ کے مقابلے میں کشمیر کے طلبہ کی داستان مختلف اور زیادہ دگر گوں ہے۔ کشمیری طلبہ میں مختلف وجوہات کی بنیاد پرڈپریشن کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے .نوجوان نسل ہماری شان ہے اگر چاہے وہ کسی بھی خطے، مذہب یا ذات سے تعلق رکھتے ہوں۔حکومتی اداروں کو نوجوان نسل کے جذبات واحساسات کے ساتھ کھیلنا نہیں چاہیے۔تمام وہ ادارے جو طلبہ کو کسی post کے لیے منتخب کرتے ہیں وہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔پانچ سال، چار سال قبل دی گئی اطلاع برائے پوسٹ کا نہ ابھی تک نہ کسی written کی date جاری کی ہے بلکہ مزید طویل کھینچا جارہا ہے۔مثلاً 2014 میں نائب تحصیلدار کی پوسٹس کانوٹیفکیشن نکالا تھا چار سال تک کوئی اطلاع بے یارو مددگار طلبہ کو نہ دی گئی۔غریب طلبہ جو بیچارے چار سال سے ایک مخصوص نصاب کے تحت تیاری کرتے آیے ہیں آخرکار مالی اعتبار سے کنگال ہونے کے بعدڈپریشن کا شکار ہو کر ٹھیک طرح سے امتحان بھی نہیں دے پاتے ، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی تمام تعمیری صلاحیتیں بے کار رہ جاتی ہیں۔ jkpsc,jkssb دونوں ادارے اپنی غیر مستحکم پالیسی کی بنیاد پر طلبہ کی تباہی پر تلی ہوئی ہیں۔حکومت جموں کشمیر کو ان معاملات پر غور کرنا چاہئے کہ نوجوان نسل کے متعلق ٹھوس اور سنجیدہ اقدمات اٹھانے چاہیں۔حکومتی اداروں کو ہماری نوجوان نسل کے مستقبل کو تاریکی کی نذر نہیں کرنا چاہئے۔حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ سال کے اندر ہی متعدد بار ریاستی سطح کے امتحانات کو کبھی ملتوی اور کبھی کلعدم کرکے طلبہ کی محنت و مشقت کو دریا برد کیا جاتا ہے۔نوجوان نسل کا سنہرا دور 20 سال سے لیکر 30 سال مانا جاتا ہے جس کے دوران وہ اپنے مستقبل کو اچھا بنانے کے لیے کچھ خاص کر سکتے ہیں لیکن ان سالوں کے دوران ان کی زندگیوں کے ساتھ محض کھلواڑ کیا جاتا ہے۔کئی ضلعی، صوبائی اور ریاستی سطح کی اسامیاں پانچ پانچ سال سے ہی بلکہ کئی ایک ایسی ہیں جو دس دس سال سے عدالتی کارروائی کی نذر ہو چکی ہیں۔التواء جیسی اصطلاحات گویا اب ان اداروں کے شعائر بن چکے ہیں۔عدالت کا دیر سے فیصلہ دینا اور ہر غیر سنجیدہ پٹیشن کو قبول کرکے نہ جانے ہماری عدلیہ کس سمت جارہی ہے۔ہر طرف پریشانی اور مایوسی ہے ریاسی حکومت کے ہر سطح کے ذمہ داروں کو سوچنا چاہیے کہ جو کچھ بھی منصب انہیں نصیب ہوا ہے اس پر بیٹھ کر وہ حکمران یا تاناشاہ نہیں ہیں بلکہ عوام کے خادم ہیں۔خصوصاً قانون سازوں کو سوچنا چاہیے کہ لوگوں نے انہیں اپنا اعتماد دیا ہے ان پر بھروسہ کرکے ان اپنی معاملات میں حکم بنایا ہے۔لیکن نہ جانے انسانی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ جب اسے کچھ حاصل ہوتا ہے تو وہ تکبر اور غرور میں مبتلا ہو کر اترانے لگتا ہے۔طلبہ کے مطالبات کو غور سے سنا جانا چاہیے جس امتحان کا بھی انعقاد کرنا ہو تو اسے کے متعلق پہلے سے ہی کڑے انتظامات کیے جانے چاہیے تاکہ امتحان کے بعد محنتی طلبہ کی کاوشوں پر پانی نہ پھیرا جائے۔میں حیران ہوتا ہوں ریاست کا سب سے بڑا امتحان KAS کے متعلق جو کچھ دھاندلی مبینہ طور پر پبلک سروس کمیشن کی طرف سے ہو رہی ہے وہ بہت بڑے دکھ کی بات ہے۔کبھی طلباء عدالت میں کبھی اسمبلی کے سامنے، کبھی بازار میں اپنے غم اور غصہ کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں ۔انتظامیہ کو ان باتوں کا نو ٹس لینا چاہیے کہ غریب طلبہ ذہین و فطین ہونے کے باوجود بھی اپنی حالت کو درست کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔
شہباز رشید بہورو…8492856546
ساکن بھبھور ضلع ڈوڈہ