الیکشن کیلئے رسانہ کی درندگی کیوں؟
ماہ صیام کا متبرک مہینہ اختتام پذیر ہوا اور نہایت عقیدت و احترام سے عیدالفطر منائی گئی۔اس بار ماہ مبارک میں مسلمانوں کیساتھ ساتھ ان غیر مسلم بھائیوں نے بھی خیر سگالی اور آپسی بھائی چارے رواداری کو فروغ دینے کیلئے سحری اور افطار کیلئے خصوصی انتظام و اہتمام کئے جو ملک کے موجود حالات سے سخت نالاں ہیں اور بی جے پی آر ایس ایس کی مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور ریشہ دواینوں سے ناراض ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستانی قوم میں مذہبی آہنگی اور رواداری قائم ہے اور رہے گی۔چاہے شیطان صفت لوگ،لیڈران اور ان کے زرخریدایجنٹ کتنا بھی تفرقہ پھیلائیں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
ہماری ریاست میں ہم نے دیکھا۔جہاں ایک طرف کچھ نا عاقبت اندیش لیڈر اور تنظیمیں درپردہ اور ظاہری طور پر صرف اپنے مفادات خصوصی کیلئے جموں میں ماحول بگاڑنے کی سرتوڑ کوششیں کرتے نظر آئے۔وہاں ہندو،مسلم سکھ عیسائی کے اتحاد نے ان سازش کرنیوالوں کو درکنار کر دیا اور ماہ صیام میں غیر مسلم بھائی افطار و سحری کا اہتمام کرتے رہے اور افطار کے پروگراموں میں زیادہ سے زیادہ شرکت کرتے رہے اور شرپسندوں کو واضح اشارہ دیا کہ بالالحاظ مذہب و ملت ایک ہیں
عید کے روز مسجدوں کے باہر اور عید گاہوں میں اس بار جموں میں غیر مسلم بھائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ گلے مل کر اور ماتھے چوم کر جس طرح خوشی کا اظہار کیا یہ70سال میں پہلی بار ہوا ہے اور فرقہ پرست لوگوں کو شائد ہی شرمندگی کا احساس ہو لیکن ایک عرصے تک وہ سکتے ہیں رہیں گے۔اسکے بعد کوئی نئی حکمت عملی بنائیں گے کہ کس طرح لوگوں کو لڑوایا جائے حالانکہ گاہے بگا ہے شر پسندی جاری ہے۔
بہر حال یہ یہاں کے لوگوں کا احسان اور فراخدلی ہے کہ سالہا سال سے جموں سے بھید بھائو کا نعرہ لگانیوالوں کو ایوانوں تک پہنچا کر یہ آزمالیا کہ کھوکھلی باتیںکرنیوالے صرف اعلیٰ منصبوں اور عیش عشرت کی زندگی گذارنے کیلئے لوگوں کو گمراہ کرتے رہے۔4سال گذرنے کے بعد ان لیڈروں کی خرمستیاں ظاہر ہونے لگیں۔ان کیلئے ایک سنہرا موقع تھا کہ جموں کیلئے عملی طور پر کچھ کر جاتے۔مگر اپنی ناکامی چھپانے کیلئے ان لیڈروں نے متنازعہ بیان بازیاں شروع کر دیں۔یہاں تک کہ اپنی غلیظ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کا مسلمان اور جموں کا ہندو جیسی باتیں کرنے لگے۔
گذشتہ دنوں ڈوگرہ سبھا کے صدر گلچین سنگھ چاڑک نے بھی ایک جلسے میں ان حرکتوں پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا کہ ڈوگروں کو پریشان کرنے کے لئے جموں کیساتھ سازش کرنے والے سبکدوش وزراء ڈوگروں کے نام کا جائز استعمال کرتے نظر آرہے ہیں۔
رسانہ کٹھوعہ معاملہ جن درندوں کی حرکت تھی وہ پھنس گئے اور عدالت سے سزاکے منتظر ہیں۔لیکن یہ سازش کس نے تیار کی اور کیوں کی اور کس کے اشاروں پر کی یہ بھی آہستہ آہستہ ظاہر ہونے لگا ہے۔CBIاس سازش کا راز کبھی نہیں کھول سکتی تھی۔لیکن مجرموں کی پشت پناہی کرنے والے اپنی حرکتوں سے خود ہی سامنے آرہے ہیں۔تمام معاملہ لوٹ مار کی پردہ پوشی کیلئے ایک فرقے کو لالچ دیکر دوسرے فرقے کے خلاف اکسانا اور آئندہ الیکشن کیلئے فرقہ پرستی کو ہوا دے کر دوبارہ اقتدار تک پہنچنے کا ہے۔جو کہ اب ظاہر ہوتا گیا ہے۔
یہ ریاست ہندوپاک کی باقی ریاستوں سے مختلف ہے۔یہاں کا قانون بھی علاحدہ ہے جسےRPCرنبیر پینل کوڈ کہا جاتا ہے۔
یہاں کے قانون کے مطابق،یہاں کی پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیاں،قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے ہیPOWERرکھتے ہیں جتنی کی مرکزی سرکار کے تحت کام کرنے والے ادارے ہیں۔چوں کہ ان سازشوں کے تار ریاست سے باہر بھی جڑے ہیں اسلئے CBIکی رٹ لگائی جاتی ہے اور یہ مانگ انصاف کے راستے میں روڑے اٹکانے اور مجرموں کی تسلی دینے کیلئے کی جاتی ہے واردات ہوئی صاف شفاف تحقیقات ہوئی مجرم گرفت میں آئے۔پھر باقی کیا رہ گیا۔اب تو مجرم کی سزا کے بعد ان کے اہل و عیال کی نگہد اشت ان کے ذمے ہے جنہوں نے ان مجرمان کا استعمال کیا۔
ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ جموں کے لوگوں کو بہکانے اور ان کے مذہبی جذبات بھڑکا کر تنائو پیدا کرنے والے یہ سیاسی مداری،سخت گرمی اور لوگوں کی عدم دلچسپی کیوں جب سے اب تک میڈیا کے سہارے چل رہے ہیں۔
وہ غیر ریاستی میڈیا جو ریاست کے بارے میں جھوٹے پروپگینڈے کرنے میں ماہر ہے اس میڈیا کو بھی ریاست کا ہی بلکہ جموں کا غدار چاہیے۔جس کا نام اور سہارا لیکر جموں کے بارے غلط بیانی کر کے یہاں کا ماحول خراب کیا جا سکے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ رسانہ معاملے میں انصاف پسندہستیاں کس طرح اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ فیصلہ ہوتے ہی سازش کرنے والوں پر بھی شکنجہ کسا جائیگا۔
حتمی الامکان ہے کہ انساف پسند انہ فیصلے میں رکاوٹیں پیدا کی جا سکتی ہیں تاکہ طوالت ہو اور الیکشن2019 ہونے تک معاملہ لٹکا رہے۔بالغ مجرم یا نابالغ مجرم کی بحث کی طول دہا جا سکتا ہے۔مجرم محض40دن کے فرق سے نابالغ نہیں ہو سکتا جو اتنا گھناونا جرم کر ڈالے اور پیشہ ور مجرموں کی طرف ثبوت بھی ہٹا نے کی جدو جہد کر ڈالے وہ جسمانی اور ذہنی طور پر بالغ ہی ہوتا ہے اور نہایت شاطر اور مکار بھی ہوتا ہے۔جموں کے لوگ سمجھدار ہیں خصوصی طور پر ڈوگرے تو اعلیٰ دماغ رکھتے ہیں وہ ہر طرح کے حربے کو سمجھتے ہیں اور کبھی نہیں چاہیں گے کہ جموں میں بدامنی پیدا ہو اور چند لوگوں کیلئے اور جموں برباد ہو جائے جموں کی تہذیب اور وراثت کو بچانا ہے تو ان شرپسندوں کا قلع قلع کرنا ضروری ہے۔
ایم اسلم خان جموں
7051106355
پی ڈی پی کی صفائیاں
دِل کوبہلانے کے لئے غالبؔ یہ خیال اچھاہے
پی ڈی پی کے بعض وزراء اورسابقہ وزیراعلیٰ محترمہ محبوبہ مفتی نے اقتدارکھونے کے بعدایک دفعہ پھر کشمیریوں کوبیوقوف بنانے کاسلسلہ زوروشورسے جاری کردیاہے ۔اس سلسلے میں سابقہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی پارٹی کے سابقہ وزیرنعیم اختراورپارٹی کے ترجمان اعلیٰ پیش پیش دکھائی دے رہے ہیں جواپنے بیانات کے ذریعے حکومت کی گذشتہ ساڑھے تین سالہ کارکردگی گنوانے میں مصروف عمل ہیں۔ ان لیڈران کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں پی ڈی پی اپنے ایجنڈے پرزوروشورسے کام کرتی رہی اورکشمیریوں کے حقوق کے لئے مرکزی سرکارکے ساتھ جدوجہدکرتی رہی ۔اس سلسلے میںان رہنمائوں کاکہناہے کہ مرکزکے دبائوکے باوجودانہوں نے 11ہزارسے زیادہ کشمیریوں پرمختلف واقعات میں ملوث دائرکئے گئے مقدمات کوواپس لیا۔دفعہ 370 اور35A کاتحفظ بھی پی ڈی پی نے زوروشورکے ساتھ کیا۔رسانہ معاملہ کی کرائم برانچ کے ذریعے تحقیقات کروانااور اس کیس کوسی بی آئی کے حوالے نہ کرناپی ڈی پی کی ایک اوراہم کارکردگی ہے ۔یہی نہیں ماہ رمضان میں یک طرفہ سیز فائر کاسہرابھی پی ڈی پی اپنے سرہی باندھتی ہے ۔وزیراعظم کاپاکستان کاچندگھنٹے کادورہ اوروزیرداخلہ کاکشمیری عوام کوبات چیت کی دعوت دیناگویاپی ڈی پی کاکیاہواکمال ہی ہے ۔حالانکہ یہ بات اب طے ہے کہ کشمیری اب اس جھوٹے فریب میں کبھی آنے والے نہیں ہیںکیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ اُن کے جذبات سے جو کھلواڑپی ڈی پی نے گذشتہ انتخابات کے بعدکیا ۔وہ ماضی میں کسی بھی سیاسی جماعت نے نہیں کیاہے۔ گذشتہ انتخابات میں کشمیریوں کی کثیرتعدادنے پی ڈی پی کومحض ووٹ اس لئے دیئے تھے تاکہ یہ جماعت بی جے پی کوریاست میں اقتدارسے دُوررکھے جس کاوعدہ پی ڈی پی سرپرست اعلیٰ مفتی محمدسعید نے عوام کے جلسوں میں باربارکیاتھا لیکن انتخابات جیتنے کے بعد مفتی محمدسعیدعوام سے کئے گئے تمام وعدے آناً فاناً بھول گئے۔ اُنہوں نے نہ آئودیکھااورنہ تائوفوراً بی جے پی کے ساتھ ایک ایجنڈاآف الائنس کے تحت سرکارکاوجودعمل میں لایا۔ عام عوام کواس ایجنڈاآف الائنس کاابھی تک پتہ ہی نہیں ہے کہ یہ کس بلاکانام ہے ۔پی ڈی پی کے لیڈران ا س ایجنڈا کے جن نکات کاذکرکرتے رہے اُن پرسرے سے کبھی ان ساڑھے تین سالوں میں کام ہواہی نہیں ۔سچ تویہ ہے کہ گزشتہ پی ڈی پی بھاجپادورمیں ریاست جس قدربدامنی کاشکار رہی اُس کی مثال جمو ں وکشمیر کی تاریخ میں ملنا مشکل ہے خاص کر محترمہ محبوبہ مفتی کے دوراقتدارمیں گویاریاستی سرکارنے پوری طرح مرکزکے سامنے سرنڈرکرلیاتھا۔ خاص کرمحترمہ کے دورمیں کشمیرمیں جوخون بہاوہ تاریخ کاایک سیاہ باب ہے ۔ایک طرف مرکزنے ملی ٹینٹوں کاخاتمہ کرنے کے لئے آپریشن آل آئوٹ شروع کیالیکن اس آپریشن کی آڑمیں جہاں چند ملی ٹینٹ مارے گئے وہیں دوسری طرف ہزاروں کی تعدادمیں عام شہری یاتوہلاک ہوئے یاپھراپاہج اورنابینا ۔پکڑدھکڑاورماردھاڑکی وارداتوں میں شدیداضافہ ہوا۔کھربوں روپے کی املاک تباہ وبرباد ہوگئیں۔ ہڑتالوں کانہ رُکنے والاسلسلہ ایک دفعہ پھرشروع ہوا۔ جہاں ملی ٹینٹوں کے گریبانوںتک ہاتھ نہ پہنچ سکاوہاں عام عوام کوتشددکانشانہ بنایاگیا۔سیاسی قیدیوں کے ساتھ ملک کی مختلف جیلوں میں جوسلوک روارکھاگیااس سے بھی اخبارات ہمیں وقتاً فوقتاً آگاہ کراتے رہے۔جموں کی اقلیتوں کاکوئی پرسان حال نہیںرہا۔ رسانہ کیس کوحل کرنا ریاستی حکومت کی وجہ سے نہیں بلکہ کرائم برانچ کے قابل اہلکاروں کی وجہ سے ممکن ہوسکاورنہ حکومت اس کیس کوکب کاکاردی کی ٹوکری میں ڈال چکی تھی۔گزشتہ تین سال کے عرصے میں کشمیرمیں تعلیم کانظام درہم برہم ہوکررہ گیا۔ اسکولی طلباء کااحتجاج میں شامل ہونا اورپتھربرسانا اسی دورمیں ممکن ہوسکا۔ جن ہاتھوں میں قلم ہونا چاہیئے تھااُن ہاتھوں میں پتھرآگیا۔اس کے باوجود وزیراعلیٰ اور اُن کے صلاح کارخاموش تماشائی کارول اداکرکے سرکاری خزانے پرایک بڑابوجھ بنتے رہے۔ وزیراعلیٰ مرکز کی تعریفوں کے پُل باندھ کروزیراعظم اوروزیرداخلہ کوخوش کرنے میں مصروف عمل رہیں۔عوام کن مشکلات کا سامناکررہی تھی اس کی انہیں پرواہ نہیں رہی ۔بقول غلام نبی آزاد’’ سیکورٹی فورسزایک ملی ٹینٹ کے لئے 30 بے گناہ عام آدمیوں کاقتل کرنے میں مصروف عمل تھی ‘‘۔وزیراعلیٰ یہ ساراتماشابڑے اطمینان سے دیکھ رہیں تھیں ۔رشوت ستانی عروج پرپہنچ چکی تھی ۔حکومت صرف اورصرف ایک ٹرانسفرانڈسٹری کاہی کام کررہی تھی۔ اس دورحکومت میں ٹرانسفرانڈسٹری خوب پھلی اورپھولی۔چوردروازے سے کچھ محکموںمیں کافی تعدادمیں بھرتیاں بھی ہوئیں۔ پی ڈی پی کے وزراء نے کہاجاتاہے کہ چوردروازے کاسب سے زیادہ استعمال جموں وکشمیربنک میں کیاجہاں انہوں نے اپنے رشتہ داروں کی ایک کثیرتعدادبھرتی کردی۔ سرحدوں پرپاکستانی فائرنگ سے جوتباہی مچی اُس داستان کورقم کرنے کے لیے کئی سوصفحات درکارہیں۔گذشتہ ساڑھے تین سال میں شایدسرحدپرکوئی ایسادن رہاہوجوخاموش گذراہو۔ سینکڑوں بی ایس ایف کے اہلکاراورعام شہری پاکستانی گولہ باری سے شہیدہوئے اوریوں سرحدیں میدان جنگ میں تبدیل ہوکررہ گئیں۔ اس سب کے باوجودمحترمہ محبوبہ مفتی اوراُن کے ساتھیوں کایہ بیان بڑامضحکہ خیز لگتاہے کہ اُن کی حکومت نے کشمیریوں کے مفادات کے لئے کام کیا۔
دل کوبہلانے کے لیے غالب یہ خیال اچھاہے
محبوبہ مفتی مرکزی حکومت کی تعریفیں کرنے میں مصروف ہی تھیں کہ بی جے پی اعلیٰ کمان نے پی ڈی پی سے اپنی حمایت واپس لینے کافیصلہ آناًفاناًکر لیا۔ اس بات کاشایدمحترمہ مفتی نے اپنے خواب وخیال میں بھی نہیں سوچاتھاکیوں کہ وہ ریاست میں مرکزکے ایک وفادار سپاہی کاکام کررہی تھیں۔اس وفاداری میں اُن کے چندصلاح کاروں کابھی ہاتھ تھاجوانہیں زمینی سطح کے حالات سے بے خبررکھے ہوئے مرکزی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے میں مصروف تھے۔ حمایت واپس لینے کے بعد اب ریاست جموں وکشمیرمیں گورنر راج نافذکردیاگیاہے ۔ریاستی گورنر این این ووہرہ ایک سلجھے ہوئے حاکم ہیں۔ اس طرح کے حالات سے وہ اس ریاست میں پہلے بھی نمٹ چکے ہیں۔ اُمیدہے کہ جناب این این وزراء کی سوجھ بوجھ سے ریاست میں حالات ٹھیک ہونے میں کافی مددملے گی۔کشت وخون کابازارکم ہوگااورعام آدمی کے مسائل کواس حکومت میں حل کرنے کی پوری پوری کوشش کی جائے گی۔
پروفیسرشہاب عنایت ملک
94191-81351