سرینگر// مرکزی حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی پر انگشت نمائی کرتے ہوئے نجی سکولوں کے اتحاد نے اس کو خامیوں سے بھر پور قرار دیکر متنبہ کیا کہ اس پالیسی کو نافذ کرنے سے تعلیمی شعبے کو نا قابل تلافی نقصانات پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی پر بھارت بھر میں مباحثے کرنے اور تحفظات و خدشات کو اجاگر کرنے کی کڑی کے تحت سرینگر کے ایوان صحافت میں نیشنل انڈپنڈنٹ اسکول الائنس اور پرائیوٹ اسکولز ایسو سی ایشن جموں کشمیر نے مشترکہ طور پر اس پالیسی کو تعلیمی شعبے کیلئے نقصان دہ قرار دیا۔ پریس کانفرنس سے نیشنل انڈپنڈنٹ اسکول الائنس کے صدر ڈاکٹر کلبھوشن شرما،معروف ماہر تعلیم تھامس انٹونی اور پرائیوٹ اسکولز ایسو سی ایشن کے صدر انجینئر غلام نبی وار نے مشترکہ طور پر نئی ایجوکیشن پالیسی کو ضخیم دستاویزات قرار دیتے ہوئے کہا کہ عام آدمی کو اس سے الجھن میں ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پالیسی قریب498صفحات پر مشتمل ہیں،جو3برسوں میں تیار کی گئی،جبکہ مثالی پالیسی دستاویز 20 سے 30 صفحات پر مشتمل ہونا چاہے تھا۔ڈاکٹر کلبوشن نے سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا کہ وہ پالیسی کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنائیں،کیونکہ یہ پالیسی پورے بھارت کو تشویش ہے۔ انہوں نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ اس دستاویزات میں کئی ایسے صفحات موجود ہیں،جنہیں گجرات کی ایک رابطہ گاہ(وئب سائٹ) سے نقل کیا گیا ہے۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اس نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق تعلیمی شعبے میں وزیر اعظم کی سربراہی میں قومی تعلیمی کمیشن(راشٹریہ شکھشا آیوگ) ہوگا،تو پھر وزارت انسانی وسائل فروغ اور محکمہ تعلیم کا کردار کیا ہوگا؟ ۔انہوں نے کہا کہ کئی حساس معاملات جن میںجنس،ذات اور ماحولیات کو مسودہ میں کھل کر ایڈرس نہیں کیا گیا ہے،جبکہ بشری حقوق،آئینی حقوق جیسے معاملات کو سرے سے نظر انداز کیا گیا ہے اور سنسکرت و یوگا کو پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ ہندو مذہب کے اصولی عقائد اور’’ ورنا شرما دھرما‘‘(زندگی کے مقاصد کے ویدیک نظام، سماجی تقسیم اور زندگی کے مرحلے) کو اخلاقی تعلیم کے نام پر نوجوان اذہان میں پیوست کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔