ہندوستانی مسلمانوں کے نزدیک محمد علی جناح تقسیم ِ ملک کے ذمہ دار ہیں۔انہی کی بدولت تاریخ نے یہ دیکھا کہ ایک ہی مسلم قوم تین ملکوں میں تقسیم ہو گئی۔۔۔ہندوستانی مسلمان ، پاکستانی مسلمان اور بنگلہ دیشی مسلمان ۔اِس تقسیم سے کسے فائدہ ہوا اور کسے نقصان، ۷۰؍ برسوں کے بعد اب مطلع بہت حد تک صاف ہو گیا ہے۔مولانا ابو الکلام آزاد کی تقسیم ِ ملک کے بعد ہونے والی تباہیوں کی پیش گوئیاں حرف بہ حرف صحیح ثابت ہورہی ہیں ۔تقسیم کا عمل انجام نہیں پایا ہوتا تو مسلمانوں کی کُل آبادی متحدہ ہندوستان میں اس وقت ۵۵؍کروڑ کے آس پاس ہوتی اور مسلمانوں کے لئے یہ تعداد باعث رحمت ہوتی ۔سرکاری محکموں میں اِن کا تناسب ۵۰؍فیصدی نہیں تو ۳۵؍ فیصدی سے کم بھی نہیں ہوتا۔اسی کے ساتھ بڑے بڑے کارخانے اور فیکٹریاں بھی ان کے پاس ہوتیں ۔سیاسی طور پر بھی یہ کم مضبوط نہیں ہوتے اور اِس طرح پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں بھی اِن کی خاصی نمائندگی ہوتی۔ملک کے وسائل پر اِن کا حق و اختیار ہوتالیکن تقسیم کے عمل نے یہ سب خاک میں ملا دیا۔
تقسیم ِ ملک کی وجہ سے جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ ہندوستانی مسلمان ہیں ۔اس پر بھی طرہ یہ کہ اِنہیں ہی تقسیم کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے اور وقفے وقفے سے آر ایس ایس اور بی جے پی کے لوگ اِنہیں اسی بہانے طرح طرح سے ہراساں کرتے رہتے ہیں ۔وزارت میں براجمان بی جے پی کے لیڈران تک انہیں طعنہ دیتے ہیں کہ ’’انہیں پاکستان جانا ہوگا ‘‘ اور ’’ہندوستان میں اگر رہنا ہے تو وندے ماترم کہنا ہوگا۔‘‘جس کا دوسرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں رہنے کے لئے مسلمانوں کواکثریتی طبقے کے رسم ورواج اور دین دھرم کے ساتھ رہنا ہوگا۔ہندوتوادی سخت گیر تنظیمیں پوری آبادی کو ایک اکائی میں بدلنا چاہتی ہیں اور ایساقانون نافذ کرنا چاہتی ہیں جس کا سب پر یکساں اطلاق ہو۔کسی کا کوئی پرسنل لاء نہ ہو اور ہر کوئی چاہے وہ مسلمان ہو، عیسائی ہو،سکھ ہو کہ جین یا پارسی ایک ہی ’’ہندو توادی قانون ‘‘ کی پاسداری کرے۔ملک کی تقسیم کی یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی کیونکہ جناح صاحب سے پہلے ’’دو قومی نظریے‘ ‘کو آر ایس ایس کے گرو گوالکر ہی نے پیش کیا تھا۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تقسیم ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھی جس میں جناح جانے انجانے استعمال ہوگئے۔
مسلم لیگ کے قیام سے پہلے جناح کے ادوارِ زندگی دیکھ لئے جائیں تو اندزہ ہو جائے گا کہ وہ ’مسلم پرست‘ یا ’مذہب پرست‘ بالکل نہیں تھے۔ یہ کہا جائے تو نامناسب نہیں ہوگا کہ وہ سیاسی حا لات کا شکار ہو گئے اور اپنی راہ کانگریس سے الگ اختیار کردی۔’قائد ِ اعظم ‘کوئی اُن کا رکھا ہوا لقب نہیں تھا بلکہ گاندھی جی نے اس نام سے اُنہیں پہلے پہل پکارا تھا جس کا مطلب عظیم رہنما ہوتا ہے۔جب وہ گاندھی جی کے ساتھ ساتھ تھے ،اُس وقت بھی ہندومسلم ایکتا کے سفیر ہونے کے حوالے سے عظیم تھے اور آج پاکستانیوں کے نزدیک عظیم ہیں جنہیں اہل پاکستان فخر سے قائد ِ اعظم کہتے ہیں۔یہ بھی کیا عجیب بات ہے کہ ایک ہی شخص ایک حلقے کی نظر میں ’قائد اعظم‘ ٹھہرتا ہے اور دوسرے حلقے کی نظر میں ’ویلن‘۔۔۔۔لیکن کیا کیا جائے ،زندگی کی حقیقت بھی یہی ہے۔
برادران وطن کے ساتھ ہندوستانی مسلمان بھی جناح سے عملاً لاتعلق ہیں۔رہی جناح صاحب کے پورٹریٹ یا کوئی تصویر لگانے کی بات، تو ہندوستان بھر میں کسی مسلمان کے گھر یا ادارے میں یہ نہیں ملے گی۔اس کا کوئی جواز بھی نہیں ہے۔خواہ مخواہ ہندوتوادی تنظیمیں مسلمانوں کے دلوں میں جناح کی محبت جگا رہی ہیں اور اِس پر بحث شروع ہو گئی ہے کہ جناح کہیں ہندوستانی مسلمانوں کے بھی تو ہیرو نہیں ؟یہ کیسے اور کیوں کر ممکن ہے کہ جس ٹو نیشن تھیوری سے یہاں کے مسلمانوں نے ہمالیائی فاصلہ بنائے رکھا، وہی آج بلا وجہ اس شخصیت سے محبت کا اظہارکریں ۔ یہ تووہ اپنے خواب وخیال میں بھی نہیں سوچ سکتے،لیکن گوالکر کے چیلے چانٹے اور فکری مرید سورج کی طرح اُجلی یہ حقیقت مان گئے تو ان کا سارا بھرم ٹوٹ جائے گا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے سیکولر کردار کے لئے پوری دنیا بھر میں مشہور ہے۔یہاں کے فارغین نے اپنے عمل اور کردار سے تاریخ پر ایسا نقوش مرتب کئے ہیں جس کی مثالیں دی جاتی ہیں ۔بے شک اِن میں ہندو فارغین بھی شامل ہیں ۔ہندو یووا واہنی والے جنہوں نے بابِ سر سید پر توڑ پھوڑ مچائی ،ذرا اُن ہندو فارغین سے پوچھ لیں کہ یونیورسٹی میں کبھی بھی اُنہیںتعصب کا سامنا کرنا پڑا ؟جواب نفی میں ہوگا کیوں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وہ کردار ہے ہی نہیں ہے۔ علی گڑھ کا پہلا گریجویٹ بھی ہندو ہی تھا ۔واضح رہے کہ یہاں پروفیشنل کورسز میں ہندو بھائیوں کی تعدا ہمیشہ معتدل رہی ہے اور کبھی کبھی تو ایسابھی ہوا ہے اور ہوتا رہاہے کہ کسی کورس میں برادرانِ وطن کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ اقلیتی کردار ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی میں مجموعی طور پرمسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے اور یہی باشدت پسندوں کو کھٹکتی ہے۔کبھی وہ عدالت میں پٹیشن داخل کرتے ہیں کہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کیا جائے اورکبھی کوئی اور تنازعہ بلاوجہ کھڑا کرتے ہیں۔وہ کبھی کامیاب ہوتے ہیں تو کبھی ناکام ۔موجودہ مرکزی حکومت پوری طرح سے شدت پسندوں کے ساتھ ہے،یہی سبب ہے کہ ملک کی مختلف یونیورسیٹیوں کے حالات روز بہ روز خراب ہوتے جارہے ہیں ۔تازہ نشانہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے۔یہ فرقہ پرست تنظیمیں چاہتی ہی نہیں ہیں کہ مسلمان اعلیٰ تعلیم حاصل کریں ۔اسی لئے ان کے تعلیمی مراکز پر شب خون مارتی رہتی ہیں ۔ ان کا نعرہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ ایک ڈھکوسلہ ہے اور کچھ بھی نہیں۔
در اصل کرناٹک میں جو اسمبلی انتخابات ہونے کو ہے،ابھی تک وہاںمودی اینڈ کمپنی کو کوئی موضوع ہاتھ نہیں لگا ہے۔ان کے جو بھی مرغوب موضوعات ہوتے ہیں تقریباًسبھی کووہاں کے کانگریسی وزیر اعلیٰ سدّا رمیا نے اُچک لیا ہے۔اب یہ بے چارے پریشان ہیں کہ موضوع کہاں سے لائیں؟مودی جی اپنی ریلیوں میں آج بھی سرجیکل اسٹرائک کی بات کر رہے ہیں۔اسے وہ یوپی کے الیکشن میں بھُنا چکے ہیں۔ بی جے پی کا یہ کہنا کہ سرجیکل اسٹرائک کے بعد کانگریس نے فوجی سربراہ کو’ ’غنڈہ‘‘ کہا تھا،بالکل لغو اور جھوٹ بات ہے جس سے کانگریس نے صاف انکار کیا ہے۔گجرات کی بات الگ تھی ، مودی جی کی بھاشا بھی اپنی تھی اور لوگ بھی اپنے تھے لیکن کرناٹک میں سب کچھ پرایا پرایالگ رہا ہے۔مترجم بھی ان کے ساتھ دھوکا کر رہے ہیں۔یہ روزانہ کا معمول ہے۔اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ مودی جی وہاں کے لئے باہری ہیں ۔اسی لئے سدا رمیا کے ستارے ساتھ دے رہے ہیں لیکن آخر تک مودی اینڈ کمپنی مختلف حربوں کا تجربہ کرتی رہے گی۔قارئین کو یاد ہوگا کہ کس طرح گجرات الیکشن سے پہلے ہندوتو کے عفریتوں نے کسی ’’نظامی‘‘کو بوتل سے نکالا تھا کہ یہ کشمیری ’’دہشت گرد ‘‘ ہے جو کانگریس کی مہم چل رہا ہے۔اب وہ نظامی کہاں ہے؟ کام نکل گیا تو دہشت گرد بھی کیسا اور کیا؟
اسی طرح کرناٹک الیکشن سے پہلے جناح کی تصویر کو بی جے پی والوں نے نکالا ہے۔خود ان کا علی گڑھ کا رکن پارلیمان یہ سب کر رہا ہے۔جناح کی ایک تصویر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلباء یونین کے دفتر میں ٹنگی ہوئی دریافت کی گئی ہے۔حالانکہ یہ تصویر ۱۹۳۸ء سے وہیں پر آویزاں ہے جس کا جواز یونیورسٹی والے یہ بتاتے ہیں کہ جناح اس کے تا حیات ممبر تھے ۔اگرچہ تصویر ہٹا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن ایم پی صاحب نے بات کا بتنگڑ بنا کر کیمپس میں خون خرابہ تک کروا ڈالا۔یہ کام کسی تشدد کے بغیر بھی ہو سکتا تھا لیکن بی جے پی اپنی عادت سے مجبور ہے۔اسے تشدد کرنا ہی کرنا ہے اور ملک کے کسی بھی حصے کو کبھی بھی آگ میں جھونک دینے کے لئے اس کے کارکنان کمر بستہ رہتے ہیں۔بات صرف اتنی سی پیش نظر ہے کہ کسی طرح زعفرانی پارٹی کاانتخابی فائدہ ہولیکن حالیہ واقعے سے لگتا نہیں ہے کہ کرناٹک والے ذرا بھی اس ناٹک سے متاثر ہوںگے اورممکن ہے کہ بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑے کیونکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ محمد علی جناح یہاں کوئی موضوع نہیںہیں۔وہ تاریخ کا حصہ تو ہیں مگر یہاں اُن کے پورٹریٹ پر تنازعے کا کوئی خریدار نہیں۔
…………………
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883