سعودی عربیہ میں پسر پس از پدر کا ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان کو جنوبی ایشیا میں بیٹے کو باپ کا سیاسی مقام سنبھالنے سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔جنوبی ایشیا کی جمہور نواز حکومتوں میں بیٹا باپ کے سیاسی مقام پہ فائز ہو جائے اِس کا جمہوری اقدار میں کوئی جواز نہیں البتہ سعودی طرز حکومت چونکہ موروثی ہے لہذا ولی عہدسلطنت کیلئے باپ کی گدی پہ فائز ہونا ایک امر عادی ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان اپنے والد شاہ سلمان کے دور سلطنت میں ہی جس انداز سے سعودی عربیہ کی داخلی اور خارجی پالیسی پہ اثر انداز ہو رہے ہیں اُس نے بین الاقوامی سیاسی،سفارتی و مطبوعاتی حلقوں کی توجہ اِس حد تک جلب کر لی ہے کہ اُس پہ دنیا بھر میں تبصرے ہو رہے ہیں۔تجزیہ نگار، سوق الجیشی (سیاسی و فوجی) مبصرین سعودی پالیسی تغیرات پر بھر پور تبصرے کر رہے ہیں چونکہ سعودی عربیہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
ولی عہد محمد بن سلمان ماضی کی روشوں کے برعکس نو جوان ہیں جبکہ دور گذشتہ میں آل سعود کے شاہاں اور اُن کے ولی عہد بھی پیشرفتہ عمر میں اِس مقام تک پہنچتے تھے۔ محمد بن سلمان کی عمر 31 سے 32 سال کے مابین بتائی جاتی ہے ۔محمد بن سلمان نہ صرف جواں ہیں بلکہ اُس حد تک ولی عہد کے دور میں ہی پالیسی سازی پہ اثر انداز ہو رہے ہیں جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاید شاہ سلمان اُن کے حق میں تخت شاہی سے دستبردار ہو جائیں۔ایسا ہوتا ہے یا نہیں اُس سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے کہ زمام اقتدار اُنکے ہاتھوں میں ہے ۔پالیسی سازی میں حالیہ مہینوں و دنوں میں جو تغیرات دیکھنے کو ملے ہیں اُن میں محمد بن سلمان کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔ سعودی عربیہ میں حال ہی میں یہ اعلان ہوا ہے کہ مستقبل میں خواتین کے گاڑی چلانے پہ کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ماضی میں اِس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی حالانکہ کئی اہل نظر حضرات کا ماننا تھا کہ دین اسلام ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کرتا جہاں خواتین کے گاڑی چلانے کی گنجائش نہ ہو۔ محمد بن سلمان قدامت پرست روشوں سے سعودی عربیہ کو دور لے جارہیں ہیں یا نہیں اور وہ اِس راہ پہ کس حد تک جائیں گے ابھی اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابھی تک اُنکے اقدامات کو مذہبی حلقوں کی تائید حاصل ہوئی ہے۔
سعودی عربیہ میں آل سعود اور محمد وہاب کے درمیان جو ایک رابطہ بنا اُس سے حجاز کی مملکت کا نام سعودی عربیہ قرار پایا۔حکومتی و مذہبی حلقوں کے درمیاں مفاہمت عرصہ دراز سے قائم ہے جہاں مذہبی دائر ے میں حفظ ماتقدم جسے قدامت پرستی سے تعبیر دی جا سکتی ہے کو روا رکھا گیا اور حکومتی حلقوں میں موروثی بادشاہت سے سیاسی امور طے کرنا قرار پایا ۔ولیہد محمد بن سلمان کے بارے میں مختلف مطبوعاتی حلقوں سے یہ خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ وہ قدامت پرستی کے بجائے جدید رحجانات کو ترجیح دیتے ہیں ۔خواتین کو گاڑی چلانے کے علاوہ یہ جدید رحجانات کیا رخ لیں گے یہ ابھی پوری طرح واضح نہیں ہے لیکن اِس ضمن میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کس حد تک مذہبی حلقے اُن کے جدید رحجانات کا ساتھ دیں گے؟ کچھ بھی ہو سعودی عربیہ میں قدامت پرست رحجان ابھی بھی سماج کے ایک وسیع حلقے پہ اثر انداز ہے گر چہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سعودی عربیہ کی نئی نسل مخصوصاََ و ہ افراد جو مغربی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں جدید روشوں کے قائل ہیں ۔ظاہر ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کو ایک درمیانی راہ چننی ہو گی اور سعودی سماج عموماََ کسی ایسے اقدام کی اجازت نہیں دے گا جو روح اسلام کے منافی ہو۔
ولی عہد محمد بن سلمان نے حال ہی میں کچھ ایسے اقدامات رو بعمل لائے جن کی توقعہ بھی نہیں کی جا سکتی تھی ۔حالیہ ہفتوں میں سعودی شاہی خاندان کے شہزادوں سمیت کئی معروف تاجروں کو گرفتار کیا گیا۔ مطبوعاتی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ یہ اقتصادی خلاف ورزیوں میں ملوث پائے گئے ہیں جبکہ کچھ حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ محمد بن سلمان اپنے ممکنہ حریفوں کو ایک ایک کر کے میدان سے ہٹا رہے ہیں۔ جیسا بھی ہو اِس بارے میں تجزیہ نگار متفق ہیں کہ تجارتی حلقوں میں ایسی روشیں سرایت کر چکی تھیں جنہیں قومی اقتصادی صحت کیلئے مضر مانا جا سکتا ہے۔ سعودی عربیہ خرید کے معاملے میں ایک وسیع بازار ہے۔ یہاں وسیع در آمد ہوتی ہے جن میں اور اجناس کے علاوہ فوجی اسلحہ کی خریداری بھی ہوتی ہے جس میں وسیع سرمایہ کاری ایک معمول بن چکی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اِس خرید میں با اثر تجارتی حلقے جن میں سعودی شاہی خاندان کے شاہزادے بھی شامل ہیں اثر انداز ہوتے تھے جس سے نا جائز طریقہ کار کو فروغ ملتا ہے حتّی کی رشوت خوری کے الزامات بھی لگ چکے ہیں ۔اگر واقعی ایسا ہے اور محمد بن سلمان سعودی اقتصاد کو پاک و صاف رکھنے کیلئے یہ اقدامات کر رہے ہیں تو یہ ایک تعریفی و قابل قدر اقدام ہو گا۔ اِس سے پہلے کہ اِس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کی جائے گرفتار شدہ تاجروں و سعودی شاہی خاندان کے افرد کے خلاف کیاقانو نی تعزیرات لگائی جائیں گی اُس کا انتظار کرنا ہو گا اور یہ بھی کہ تحقیقاتی عمل کی روش کیا ہو گی؟
محمد بن سلمان کے بارے میں یہ بھی کہا جا تا ہے کہ وہ سعودی اقتصاد میں بدلاؤ کے خواہاں ہیں۔حالیہ برسوں میں تیل کی قیمتوں میں کاہش کے سبب سعودی عربیہ کے پاس وہ سرمایہ میسر نہیں جس سے ایک طرف تو سریح قومی ترقی کے امکانات روشن ہوتے تھے اور سعودی عربیہ کے پاس وسیع پیمانے پہ امپورٹ کیلئے سرمایہ میسر رہتا تھا ۔امپورٹ بل میں ظاہر ہے اسلحہ کی خرید سر فہرست رہتی تھی تاکہ سعودی افواج کو وہ سب میسر رہے جو قومی سلامتی کیلئے ضروری قرار دیا گیا ہو۔ سعودی عربیہ میں کافی عرصے سے تیل کے علاوہ دیگر اقتصادی امکانات پہ غور ہو رہا ہے تاکہ آئندہ سالوں میں قومی بجٹ کو عملیانے کیلئے جس سرمایے کی ضرورت ہے وہ میسر رہے۔ کہنے میں تو یہ آساں ہے لیکن عملیانے میں کافی مشکل ہے کیونکہ آج گئے نصف صدی سے بیشتر عرصے کے دوران سعودی بجٹ کی اقتصادی آبیاری تیل کی فروخت سے حاصل شدہ ڈالروں سے ہوتی تھی جنہیں اصلاح عام میں پٹرو ڈالر کہا جاتا ہے۔ سعودی عربیہ کی اقتصادی مشکلات میں وہ خارجی لیبر فورس بھی ہے جس کے بغیر اقتصاد کو نہیں چرکھایا جا سکتا۔ ملی لیبر فورس جو کچھ بھی میسر ہے اُن میں خارجیوں کے ہوتے ہوئے کام کرنی کی عادت نہیں رہی ہے گر چہ یہ بھی صیح ہے کہ تعلیم عام ہونے سے آج کل سعودی عربیہ کے کئی نو جواں لیبر فورس میں جذب ہونے کے لئے تیار ہیں لیکن سعودی عربیہ کی اصل مشکل یہی ہے کہ سعودی شہری کام میں اپنے ہاتھ میلے نہیں کرنا چاہتے۔ اقتصادی اصلاحات میں اگر مستقبل میں سعودی عربیہ نیشنل لیبر فورس پہ تکیہ کرنے کی ترکیبات کو عملی شکل دے تو یہ بہت بڑی قومی خدمت اور صحت مند اقتصاد کی ضامن بھی ہو گی۔
محمد بن سلمان اپنے دور ولی عہدی میں جس انداز سے سعودی عربیہ کی خارجی پالیسی پہ اثر انداز ہو رہے ہیں اُس کی مثال بھی ملنا مشکل ہے۔ سعودی عربیہ خاجی امور میں عصر حاضر میں خاصا اُلجھا ہوا نظر آتا ہے اور کچھ مبصروں کا یہ ماننا ہے کہ یہ اُلجھاؤ محمد بن سلمان کی نا تجربہ کاری کی دلیل ہے۔ اِس نظریے میں کتنی حقیقت ہے اور کس حد تک مبالغہ آرائی یہ بحث طلب ہے۔ہو سکتا ہے اُلجھے ہوئے مسائل کو مزید اُلجھانے میں محمد بن سلمان کا ہاتھ رہا ہو لیکن کہا جا سکتا ہے کہ اُنکے صحنہ سیاست پہ آنے سے پہلے ہی اُلجھاؤ کی کیفیت نمایاں تھی۔ 1979ء میں انقلاب اسلامی ایران کے بعد سعودی عربیہ اور ایران میں تناؤ کی کیفیت طاری ہوئی جسے کم کرنے میں دونوں طرف سے مثبت اقدامات کا فقدان رہا اور ایسے میں تناؤ کم ہونے کے بجائے بڑھتا گیا۔سعودی عربیہ کو خدشات تھے کہ ایران اپنا انقلاب ایکسپورٹ کرنے کے درپے ہے جس سے خلیج میں طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ محمد بن سلمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یمن سے لے کر لبنان تک وہ ایران کے تئیں سخت سے سخت ترین اقدامات اٹھانے کے حق میں ہیں اور اِس بارے میں شواہد کی ایک لمبی فہرست پیش کی جا رہی ہے جو ہمارے آج کے تجزیے میں شامل رہیں گے۔
یمن میں کہا جاتا ہے کہ سعودی ایر فورس کی بمباری بڑھتی ہی جا رہی ہے اور یہ کئی مقامات پہ ٹارگٹ پہ نہ ہونے کے سبب معصوم جانوں کے تلف ہونے پہ منتج ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ سعودی محا صرے سے غذائی اجناس اور دوائیوں کی سپلائی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور کئی یمنی مقامات پہ بھوک و بیماری سے قیمتی جانوں کا زیاں ہو رہا ہے۔ یمنی محاز پہ بھی سعودی عربیہ اور ایران کے مابین خصومت اپنے سنگین اثرات دیکھا رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ یمن سعودی عربیہ کیلئے سوق الجیشی (فوجی و سیاسی) اہمیت کا حامل ہے۔ثقافتی و لسانی پہلو سے دیکھا جائے تو یمن اعراب کیلئے کافی اہم ہے۔عربی زباں کی نشو و نما یمن میں ہی ہوئی ہے اور یہ قدیم ملک عربی ثقافت کا انتہائی اہم مرکز رہا ہے۔ اور تو اور سعودی عربیہ میں آبادی کا ایک خاصا حصہ اصل میں یمنی ہے ۔یمنیوں کی خاصی تعداد طلوع اسلام سے پہلے ہی حجاز میں آباد ہوئی اور بعد از طلوع اسلام یہ سلسلہ چلتا رہا۔ مدینہ منورہ کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہاں بیشتر یمنی آباد ہیں۔جہاں دو ملکوں کا اتنا قریبی تعلق ہو وہاں سعودی عربیہ سے یہ توقعہ رکھنا کہ وہ یمن کے حالات سے غافل رہے ایک بیجا توقع ہو گی البتہ اِس حقیقت کی باوجود یمن کو استحکام بخشنے کی کوششوں میں علاقائی سطح پہ افہام و تفہیم کے امکانات کو فروغ دینا ہی ہو گا اور یہ ایران سے مذاکرات کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔جنگ یمن کے مسائل کا حل نہیں ہو سکتا۔
یمن کی مانند شام میں بھی ایرانی و سعودی صف آرا ہیں جہاں ایران بشر الاسد کی حکومت کا حامی تھا وہی سعودی مخالف دستوں کی حمایت کر رہے تھے۔اِن دستوں کی حمایت امریکہ سمیت کئی غربی ممالک بھی کر رہے تھے۔ شام میں کافی تباہی ہوئی اور اِسی دوراں روس کئی دَہائیوں کی خاموشی کے بعد کھل کے بشر الاسد کی حمایت میں سامنے آیا اور کچھ ہی سالوں میں روس کی کھلی حمایت بشر الاسد کے کام آئی اور جنگ کا پانسہ اُن کے حق میں پلٹ آیا۔حالیہ مہینوں میں سعودی حکومت نے بھی روس سے تعلقات بڑھانے کی مہم شروع کی ہے جو بہر حال ایک صیح قدم ہے کیونکہ شام میں مختلف دھڑوں میں اگر مفاہمت کے امکانات کو روشن کرنا ہے تو روس کی حمایت اِس بارے میں بے حد اہم ہو سکتی ہے۔روس اور سعودی ہم آہنگی ایک اور دائرے میں بھی اہم ہے اور وہ تیل کی صنعت ہے ۔روس بھی تیل ایکسپورٹ کرتا ہے گر چہ وہ اوپیک ((OPEC)کا ممبر نہیں جو تیل ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی تنظیم ہے۔ اگر روس سے قربت بڑھانا محمد بن سلمان کی خارجی پالیسی کا شاخسانہ ہے تو اِسے خوش آئند ماننا ہو گاچونکہ کامیاب خارجی پالیسی وہی ہے جس سے عالمی پاور سنٹرس کے تئیں توازن قائم رکھا جا سکے۔
قطر کے خلاف سعودی اقدامات شدید تنقید کا شکار ہو رہے ہیں اور قطر کے خلاف موجودہ روش میں بھی محمد بن سلمان کا ہاتھ نظر آ رہا ہے۔ قطر ایک خلیجی ملک اور خلیجی ممالک کی تنظیم گلف کوپریشن کونسل (GCC)کا ممبر بھی ہے لیکن قطر کئی امور میں ایک ایسی روش پہ قائم ہے جو گلف کوپریشن کونسل کے دوسرے ممبر ممالک کیلئے قابل قبول نہیں۔قطر نے ایران سے اپنے تعلقات ٹھیک رکھے ہیں ثانیاََ قطر میں الجزیرہ نامی ٹیلی ویژن چنل نزاع کا باعث بن گئی کیونکہ اِس چنل کی نیوز و ویوز (News & Views) یعنی خبر و نظر میں کھلا پن ہے اور کھلی تنقید جو سعودی عربیہ اور گلف کوپریشن کونسل کے دوسرے ممبر ممالک کیلئے قابل قبول نہیں ثالثاََ سعودی عربیہ اور گلف کوپریشن کونسل کے دوسری ممبر ممالک کے خیال میں قطر اپنے رقبے اور سفارتی وزن سے بیشتر اپنے پَر پھیلا رہا ہے چناچہ قطر پہ پابندیاں لگائی جا رہی ہیں جن میں قطر کا محاصرہ بھی شامل ہے۔ قطر کے ساتھ ناروا سلوک خلیجی ممالک کے اتحاد کیلئے نیک شگون نہیں ہو سکتا۔
سعودی عربیہ میں حال ہی میں لبنان کے وزیر اعظم سعد حرارے پر واقف کار حلقوں کے مطابق دباؤ ڈال کے استعفی لیا گیا جبکہ وہ ریاض کے دورے پہ تھے۔ کہا جاتا تھا کہ وہ جنوبی لبنان کی تنظیم حزب اللہ کے خلاف کوئی بھی ایکشن لینے سے گریز کر رہے تھے ۔لبنان میں مسیح، سنی ،شعیہ و ڈروز قبیلے کے درمیان سیاسی اتحاد سے ملی جلی سرکار بنتی ہے اور یہ وہاں کے نظام حکومت کے عین مطابق ہے۔اِس حساس کولیشن میں سیاسی طاقت کے توازن کو بگاڑنا مناسب نہیں ہو گا اور سعد حرارے کا حزب اللہ کے خلاف ایکشن لینے سے انکار اِسی حقیقت کا عکاس ہے۔ لبنان میں جہاں حزب اللہ ایران کی طرفدار تنظیم ہے وہی وہاں سنی تنظیموں پہ سعودی عربیہ کا اثر ہے چناچہ سعودی عربیہ اور ایران کا خصومتی جال یمن سے لبنان تک پھیلا ہوا ہے۔
سعودی عربیہ اور وہاں کے نو جواں ولی عہد محمد بن سلمان کیلئے یہی مناسب ہو گا کہ خادم الحرمین کے عالی ترین منصب سے انصاف برتتے ہوئے اتحاد مسلمین کیلئے کام کریں اور ایران کیلئے بھی یہی مناسب ہو گا کہ اکیسویں صدی میں عظیم ایرانی سلطنت کا ماضی کا خواب بھول کے مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کیلئے سعودی عربیہ کے ساتھ مل کے کام کرے۔ایرانی سعودی خصومت نے اتحاد مسلمین کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیا ہے جو ایک انتہائی نا مناسب صورت حال ہے جسے ہر حال میں دیر یا سویر بدلنا ہو گا۔
Feedback on<[email protected]>