اس بار ہم نے کشمیر کے طول وعرض میں نامساعدحالات کے بڑھتے ہوئے مہیب سلسلے کے بیچ۹؍فروری کو کشمیر کے ایک مظلوم بیٹے محمد افضل گوروکو یاد کیا۔ چھ سال قبل یہ دن قوم کے لئے انتہائی سوگواری اور غم زدگی کی سوغات لئے طلوع ہوا تھا اور آج بھی پوری وادی خون خرابے اور بشری حقوق کی پامالیوں کے درمیان سسک رہی ہے، چیخ رہی ہے ، تھر تھرکانپ رہی ہے۔ یہاں ہر طرف مشکلات ہی مشکلات کھائی دے رہے ہیں ،کہیں کسی کی جان چلی جاتی ہے، کہیں کوئی زخمی ہو رہاہے ،کہیں کوئی اذیتیں اور صعوبتیں برداشت کر رہا ہے۔ یہ سب اس لئے ہورہاہے کہ اس مظلوم قوم سے ایک نعمت ِعظمیٰ چھین لی گئی ہے،اس کی عزتِ نفس ، داؤ پر لگا ئی گئی ہے ، اس کی سیاسی تقدیر پر آلام و مصائب کے پہرے بٹھائے گئے ہیں ۔ قابل دید بات یہ ہے کہ ہر طرح کی مصیبتوں کے باوجود بھی اس نعمت عظمیٰ کا مطالبہ کرنے والے اپنی منزل سے مایوس نہیں ہیں بلکہ وہ اس نعمت کی بازیا بی اور حصول منزل کے لئے قربانیوں کے بل پر محو جد وجہد ہیں۔ بقول شاعر ؎
میری رات منتظر ہے کسی اور صبحِ نو کی
یہ سحر تجھے مبارک جو ہے ظلمتوں کی ماری
آج سے چھ سال قبل سوپور دوآب گاہ کے حریت پسند محمد افضل گورو جرم بے گناہی کی پاداش میں دارورسن کی سزا دی گئی ۔ تب سے ہر سال۹؍فروری کو پوری وادی میں ہڑتال کی جاتی ہے اور مصلوب محمد افضل گورو کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ تمام شہدائے قوم کو خراج عقیدت پیش کیا جاتاہے ۔اس روز کی مناسبت سے قوم اپنا یہ عزم دہراتی ہے کہ آزادی جیسی عظیم نعمت کو کسی بھی قیمت پر حاصل کیا جائے گا او ر قوم کے جن جیالوں نے اس راہ میںاپنی عزیز جانیں نچھاور کی ہیں،انہیں کسی صورت فراموش نہیں کیا جائے گا۔ محمد افضل گوروکو۹؍فروری۲۰۱۳ء کو دلی کے بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی۔ اگرچہ اُن پر یہ تحقیق طلب الزام لگایا گیا تھاکہ پارلیمنٹ حملے میں ملوث نامعلوم حملہ آوروں کو اُن کی مدد حاصل رہی تھی مگر مصلوب افضل کو فئیر ٹرائل نہ ملی جس سے وہ ثابت کر تے کہ یہ الزام کبھی سچ پر مبنی نہیں ، اُدھر عدالت نے بھی محض’’اجتماعی ضمیر‘‘ کامان رکھنے کے لئے انہیں سزائے سخت سنا دی جو کسی ملزم کو مجرم ٹھہرانا نہیں بلکہ اس کو بلّی چڑھانے کے برابر ہے ۔ جب افضل صاحب کے اہل خانہ نے صدر ہند پرناب مکھر جی سے ان کی جان بخشی کی اپیل کی تو وہ بیک جنبش قلم مسترد کی گئی۔ فی الحقیقت اُن کو اسی لئے پھانسی پر چڑھایا گیا کیونکہ وہ کشمیری حریت پسند تھے ، اُن کی رَگ رَگ میں جذبۂ آزادی موجزن تھا، وہ اپنے اندر آزادی کا ولولہ رکھتے تھے۔ وہ اس قوم کے نامایہ ناز سپوت تھیمگر ظلم یہ کہ اُن کی صلیب دینے کے بعد اب تک بھی ان کا جسد خاکی واپس نہیں کیا گیا بلکہ مزاحمتی قیادت سمیت وقت کی ریاستی حکومت کی اپیل کے باوجود ا نہیں جیل میں ہی دفنایا گیا ۔ جسد خاکی کی واپسی کے حق میں یہاں کے ہر گوشہ سے مانگ کے باوجود بھی کشمیریوں کے جذبات کی قدر نہ کی گئی بلکہ حکومت ہند نے پہلے ٹال مٹول کیا ، پھر اس مطالبے کی اَن سنی کر کے کشمیری عوام کو مزیدزخم دئے ۔ یہ ساری کہانی انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی پردلالت کرتی ہے ۔ ویسے بھی سنہ نوے سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں جو اب بلا ناغہ روز بروز بڑھتی ہی جا ر ہی ہیں ۔
محمد افضل گورو ابتداء سے ہی ذہین ، حسا س، باضمیراور فہیم تھے ۔وہ کشمیر کے ہنگامہ خیز قصبہ سوپور کے نزدیکی گائوں جاگیردو آب گاہ کے رہنے والے تھے،اس لئے زمانے کے سیاسی سردوگرم کے عینی گواہ تھے ۔ کشمیری روایت کے مطابق انہوں نے کم سنی میں ہی قرآن شریف پڑھنا شروع کیا تھا، چودہ سال کی عمر میں قرآن شریف کی تفسیر پڑھنی بھی شروع کی ۔ گورو صاحب بچپن سے ملنسار اور ہر اپنے پرائے اور چھوٹے بڑے کے غم گسار تھے۔ان کی شخصیت میں اللہ نے گونا گوں خوبیوںکا خزانہ رکھا تھا۔ چونکہ انہوں نے شعور کی آنکھ کھولتے ہی گردونواح میں مسئلہ کشمیر کی گونج سنی تھی اور ناگفتہ بہ حالات کو سر کی آنکھوں سے دیکھا تھا، اس لئے کشمیر کے خوشحال اور پُرامن مستقبل کاخواب ان کے دل ودماغ پر حاوی تھا۔ آج کی تاریخ میں کشمیر کاز ا س وقت دنیا کے مختلف ایوانوں میںپہنچ چکا ہے ۔اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ یہاں لوگوں نے اس کے لئے بیش بہا قربانیاں پیش کی ہیں۔ انہی قربانیوں کی ایک اہم کڑی حیات ِجاوداں پانے والے محمد افضل گورو بھی ہیں جنہیں۹ ؍فروری ۲۰۱۳ء کو صبح آٹھ بجے تہاڑ جیل میں تختہ دار پر چڑھا یا گیا۔ ایساکر کے کہنے کو کشمیر کی ایک آواز کو بند کیا گیا مگر سچ یہ ہے کہ اس سے کشمیر کاز کو ایک نئی زندگی عطا ہوئی ۔ اگر چہ افضل صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے مگر جاتے جاتے انہوں نے حل طلب مسئلہ کشمیرکو عدل و انصاف اور امن پسندانہ ذرائع سے حل کی ضرورت کو اُجاگر کیا۔
بھارتی پارلیمان پر ۲۰۰۱ء میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ کس نے کیا اور کیوں کیا، وہ ابھی تک صیغۂ راز میں ہے لیکن پولیس نے اپنے گھر سوپور سے افضل گورو کو گرفتار کر کے تہاڑ پہنچا دیا اور مجاز عدالت نے پارلیمنٹ حملے میں ان کو انہیں موت کی سزا سنائی۔ ا س پر کشمیر میں نئی دلی کے خلاف غم وغصہ کا طوفان برپا ہونا قابل فہم بات تھی ۔ واضح رہے ۱۳؍ستمبر۲۰۰۱ء میں پارلیمنٹ پر ہوئے حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں محمد افضل گورو کو گرفتار کر لئے گئے۔۲۰۰۲ء میںدلی کی خصوصی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی جب کہ ۲۰۰۳ء میں دہلی ہائی کورٹ نے اس کی تائید کر دی اور پھر۲۰۰۵ء کو سپریم کورٹ نے بھی سزائے موت منسوخ کر نے کی افضل کی اپیل خارج کر دی۔ یادرہے ا س دوران ہندوستان کے صدر پرنب مکھرجی نے ۱۳جنوری ۲۰۱۳ء کو ان کی رحم کی درخواست رد کر دی ۔افضل کے نام موت کا بلیک وارنٹ جار ی کرکے ملک کی کانگریس حکومت نے محض پولنگ میں ہندوؤں کا ووٹ پانے کے لئے انہیں پھانسی چڑھایا۔ قبل ازیں ۲۶ ؍نومبر کو تاج ہوٹل ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں اجمل قصاب کو ملزم ٹھہراکر پھانسی کی سزادی گئی تو کشمیر میں پتہ بھی نہ ہلالیکن ایک کشمیری نوجوان کے بارے میں عدالت کے ذریعے جاری کردہ سزائے موت پر کشمیر سرپا احتجاج ہوا مگر کشمیریوں کی سنتاکون ہے ؟ اور ہو تاوہی ہے جومرکز کی منشاء ہوتی ہے ۔ حالانکہ عالمی سطح کے تجزیہ نگاروں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی نامور شخصیات، مبصرین ، امن پسندوں ،دانش وروں اور حقوق انسانی کے معروف کارکنوں جن میں گوتم نو لکھا، رادھا کمار، اروندھتی رائے وغیرہ نے افضل گورو کی پھانسی پر حق بات کہی کہ ان کو راز داری کے ساتھ سُولی چڑھانا ایک مشکوک عمل ہے جس کی قانون وآئین اجازت نہیں دیتا ۔ یاد رہے کہ اُس وقت کے ریاستی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے افضل گورو کے حوالے سے اسمبلی کے پر ہجوم اجلاس میں یہ الفاظ دہرائے تھے ’’ فیصلے کہیں اور سے آتے ہیں لیکن سر میرے چڑھائے جاتے ہیں، جسدخاکی کو واپس نہ کرنے کا فیصلہ کہیں اور ہوتا ہے اور سر میرے چڑھایا جاتا ہے۔‘‘ تجزیہ نگاروں اور دانشوروں نے مصلوب نوجوان کی میت تہاڑ جیل کے صحن میں دفن کرنے اور لواحقین کو ان کی آخری زیارت سے محروم رکھنے کو غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر جمہوری عمل سے تعبیر کیا۔ الیکشن میںجیت کے لئے ایک بے گناہ کشمیری کو تختۂ دار پر چڑھانا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار پاتی ہے۔ یہ ایک مظلوم، بے کس اور بے بس انسان کی پھانسی تھی جسے صرف کرسی کے لالچ میںبے دردی سے ٹھکانے لگایا گیا۔ اس سے قبل انہیں تیرہ سال تک جیل میں رکھ لیاگیا اور پھانسی پر چڑھانے کے بعد تہاڑ جیل میںہی انہیں دفنایا گیا۔ ا س المیہ کے چھ سال گزر گئے مگر کیا کشمیر کاز کی سوچ قتل کی جاسکی ہے ؟ نئی دلی کو بھی اعتراف ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک ٹھوس حقیقت ہے ۔اس کا ثبوت ریاستی گورنر کے اعترافی بیانات بھی ہیں ۔ بہر حال ماہ فروری میں جہاں افضل گورو کو قوم یاد کرتی ہے ، وہیں محمد مقبول بٹ کو بھی کشمیر کے چپے چپے میں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔انہیں بھی تہاڑ جیل میں11فروری1984کو پھانسی چڑھاکر ابدی نیند سلا دیا گیا۔ وہ بھی حق پرست اور حریت پسند تھے اور ان میں جذبہ آزادی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔المختصر جو لوگ صداقت کے لئے اپنی جانوں اور جوانیوں کا نذررانہ پیش کرتے ہیں ،قوم انہیں ہمیشہ دل وجان سے یاد کرتی ہے اور حی وقیوم اللہ کے ہاں بھی وہ ابدی زندگی کا انعام پاتے ہیں ۔ محمد افضل گورو اور محمد مقبول بٹ نے یہ انعام پایا ہے مگر وقت کا تقاضا ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فی الفورروکا جائے اور کشمیر حل کے لئے تمام پر امن ذرائع اور وسائل بروئے کار لائے جائیں تاکہ یہ مسئلہ حل ہوکر پورے جنوبی ایشیا میں امن وسکون اور تعمیر وترقی کادور لوٹ آئے۔
(نوٹ مضمون نگار پیپلز پولٹیکل فرنٹ سے وابستہ ہیں)
9596483484