ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے 25جنوری کو ایک بل کی منظوری دی کر پہاڑی زبان بولنے والوں کیلئے ریزرویشن کا قانون پاس کردیا۔ اس طرح سے پہاڑیوں کو ایک الگ کلچر ، نسل اور لسانی تشخص کا حامل قرار دے کر ریزرویشن کے دائرے میں لایا ہے۔ اگر چہ یہ قانون 2004 ہی میں پاس ہوا تھا اور اس کے بعد فروری 2018میں بھی اس حوالے سے پی ڈی پی حکومت نے ریزرویشن کا کام کیا تھا تاہم اس کو ایک بھرپورقانون بنانے کا کام اب ہوا ہے۔ اس بارے میں کہا گیا ہے کہ پہاڑیوں کو ریاست میں چھانٹنے یا وہ کون ہیں اور کہاں ہیں، اس کیلئے الگ سے کام ہوگا ۔پھر بھی ستیہ پال ملک نے اس قانون کو ایک فلاحی قانون قرار دیا۔ بتایایہ گیا ہے کہ پہاڑی مبینہ طور پر ریاست کے دور دراز نارسا علاقوں میں رہتے ہیں اور تاریخی طور سے بیک ورڈ رہے ہیں۔ اس قانون کے تعلق سے پہاڑی جماعتوں کے علاوہ ریاست کی لگ بھگ سبھی اقتدار پرست جماعتوں نے اُچھل اُچھل کر بنایات دئے کہ وہ اس بارے میں خوش ہوئے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ کے علاوہ سابق شوشل ویلفیئر منسٹر سجاد غنی لون نے بھی اس ریزرویشن کا بڑا خیر مقدم کیا اور سبھی نے یہ جتلانے کی کوشش بھی کی ہے کہ اس کا کریڈیٹ کسی نہ کسی درجہ میں انہیں دیا جانا چاہئے کیونکہ انہوں نے اس کیلئے کافی کام کیا تھا۔ واقعی کیا بھی تھا۔
اصولی طور پر اس بات پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا ہے کہ سماج کے کمزور طبقوں کیلئے فلاحی قانون اور اسکیمیں بنائی جائیں۔ ایک فلاحی ریاست کا یہ اولین فرض ہوتا ہے کہ وہ عوام کے مجموعی فلاح کیلئے کام کرے۔ لیکن ہماری ریاست میں اصول بالکل اُلٹ ہیں۔ یہ ریاست فلاحی ریاست کے بجائے دلی کے ماتحت ایک مقبوضہ ریاست ہے جو صرف عوام کو زبان اور مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کے درپے رہی ہے اور ایسے قوانین بناتی رہی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر افسوس یہ ہے کہ خود ریاست کے اندر ایسے گروہ اور جماعتیں موجود ہیں اور کام کررہے ہیں جو دلی کو ریاستی عوام کی مذہبی اور لسانی تقسیم کیلئے اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔اس بات کا اعتراف کیا جانا ضروری ہے کہ سب سے زیادہ اس حوالے سے خود کشمیری جماعتوںاور گروہوں نے کام کیا ہے۔
کشمیر ی زبان کے نام پر دو دہائیوں سے کی جانے والی سرگرمیاں بھی اس میں شامل ہیں۔ جہاں زبان کو ایک مخصوصی سیاسی اور تہذیبی ایجنڈا کیلئے استعمال میں لایاگیاہے ۔ یہ اس وقت ہماراموضوع نہیں ۔ اس پر آئندہ کسی کالم میں بات کی جاسکتی ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی میں اس موضوع پر لکھ کربعض’’ دیوتائوں‘‘ کی خوامخواہ نارضگی کا شکار رہا ہوں۔ اس وقت اصل سوال یہ ہے کہ کیا محض کوئی بھی شہری زبان بولنے سے بیک ورڈ یا ترقی یافتہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیا پہاڑی یا کسی اور زبان کے مقابلے میں کشمیری بولنے والے لازماً ترقی یافتہ قرار دے کر مراعات کے زمروں سے خارج قرار دئے جاسکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پوری ریاست میں ایک بھی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں صرف ایک ہی زبان مثلاً پہاڑی بولنے والے موجود ہوں ۔ یہاں پر ہر علاقہ اور ہر جگہ ملی جلی لسانی آبادیاں موجود ہیں۔اس لئے یہ اصولی طور پر قطعی غلط ہے کہ صرف نام نہاد پہاڑی ہی دور دوراز پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں پہاڑی ، کشمیری، گوجر، پشتو، وغیرہ سبھی لسانی قسم کے لوگ رہتے ہیں،صرف پہاڑی ہی پہاڑوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سماجی ترقیات میں پسماندگی کے اصولوں کی بنیاد پر ریزرویشن کا تعین کیا جاتا اور اس میں جو بھی آتا، وہ شامل کیا جاسکتا تھا ۔ صرف پہاڑی زبان کے نام پر کسی کو بھی بیک ورڈ قرار دینا غلط اور بدنیت سیاست پر مبنی ہے۔ یہاں پہاڑی کے نام پر جن لوگوں نے مہم چلائی ہے، انکا نہ غربت سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی پہاڑوں سے ہے۔ یہ مہم اول درجہ کے امیر ،بڑے افسروں اور سیاست کاروں نے چلائی۔ میرا کسی کے ساتھ کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔ صرف معاملہ کو سمجھانے کیلئے یہاں ایک مثال دو ں گا۔ پہاڑی فورم کا ایک نمایاں سرخیل شرافت احمد خان کا اصل تعلق اگرچہ کیرن سے ہے لیکن وہ ایک ضلع افسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوا اور گزشتہ چالیس برسوںسے کپوارہ قصبہ میں مقیم ہے ۔ وہ زبان کے نام پر اول درجہ کا افسر ہوتے ہوئے بھی پہاڑی کے نام پر غریب کہلائے گاجبکہ اس کے ہمسایہ کشمیری بولنے والے مزدور اور غریب کشمیری زبان کے نام پر بھی ترقی یافتہ لوگوں میں شمار ہونگے۔ اسی طرح لولاب دیور سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر عبدالحق خان پہاڑی کے نام پر اب دور درازباشندہ،مرعات کے مستحق اور غریب کہلائیں گے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ دیور میں دونوں کشمیری اور پہاڑی ایک ساتھ بغیر کسی تقسیم کے رہتے ہیں۔ دنوں ایک ہی پانی پیتے ہیں، ایک ہی سڑک پر چلتے ہیں ، ایک ہی مسجد میں جاتے ہیں۔ دونوں کے بچوں کیلئے ایک ہی قسم کے سکول ہیں۔ ایسے بہت سارے گائوں میں پہاڑی اور کشمیر کے نام پر ایک ہمسایہ ریزیرویشن کا مستحق قرار پایا ہے اور دوسرا کشمیری زبان کے نام پر ترقی یافتہ ہوگا۔ اس طرح سے اب سابق وائس چانسلر عبدالواحد قریشی کرناہ سے لیکرسابق سیکریٹری کلچرل اکادمی بھی پسماندہ لوگوں میں شمار ہونگے جبکہ لاکھوں کشمیری صرف زبان کے نام پر مراعات کے دائرے سے خارج ہونگے۔ پہلے یہ نا انصافی گوجر اور پہاڑی کے نام پر جاری تھی ، اب یہ دائرہ بڑھ گیا اور آہستہ آہستہ صرف کشمیری بولنے والے ہی محض کشمیری زبان بولنے کی وجہ سے ترقی یافتہ قرار دے کر لگ بھگ سبھی مراعات کے دائروں سے باہر دھکیل دئے گئے ہیں اور یہ سب ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔
دور دراز علاقوں کے اس طرح کے لوگ پہلے بھی بیک ورڈ کے زمرے میں بھی آتے ہیں اور بہت سارے لائن آف کنٹرول کے زمرے میں بھی ۔لوگ کہاں رہتے ہیں۔ آبادیاں ملی جلی ہیں۔ کولگام سے کپوارہ تک پہاڑی، کشمیری،گوجر مل جل کر رہتے ہیں۔ صرف زبان کے نام پر چند لوگوں کو ریزرویشن کا حقدار بنانے ظلم سے کم نہیں ہے۔ ا ب الطاف بخاری جیسے ارب پتی بھی پہاڑی کے نام پر غریبوں میں شامل کئے جاسکتے ہیں جبکہ نان شبینہ کے محتاج لاکھوں لوگ کشمیری کے نام پر ترقی یافتہ شمار کئے جاتے ہیں۔ نہ معلوم سجاد غنی لون نے کس طرح اس کا خیر مقدم کیاحالانکہ ان کا آبائی گائوںلون ہرے بھی میںایک پہاڑی گائوں ہے۔ اور اس کے مقابل کشمیری درد پورہ اور راشن پورہ میں پہاڑوں پر لٹکتے ہوئے گھر کشمیری ہیں لیکن پہاڑی نہیں کہلائیں گے۔ ہایہامہ میں منی گاہ کے لوگ پہاڑی ہیں اور میر ناگ کے کشمیری جو زیادہ مشکلات کا شکار ہیں، ترقی یافتہ کہلائیں گے۔ ایسا ہی حال اوڑی کے سارے علاقوں کا ہے۔ سجاد غنی لون سے لیکر عمر عبداللہ تک سارے شہزادوں کو معلوم ہی نہیں کہ پہاڑی ، کشمیری تقسیم کے نام پروہ اصل میں کسی فساد اور ظلم کی آبیاری کرتے ہیں اور وہ بھی محض ووٹ اور سیاست کیلئے۔ گوٹلی باغ گاندربل اورکاسے بن بارہمولہ کے پشتون کس زمرے میں شامل ہونگے۔کنگن اور وانگت میں ہمسایوں کی زبان کے نام پر تقسیم ہوگی لیکن اسکے ساتھ ہی پیر پنچال کی ساری ہندو آبادی بھی اب ریزرویشن کے دائرے میں ہے جبکہ بانہال سے کشتواڑ تک پہاڑوں سے لٹکنے والے کشمیری زبان کے نام پرریزرویشن کے دائرے سے باہر ہونگے۔محض زبان کے نام پرتشخص ور مراعات کی دیواریں کھڑی کرنامجموعی طورپراس سماج کے ساتھ ظلم ہے جو ایک ہی جغرافیائی اور تہذیبی ماحول میں رہتے آئے ہیں۔یہ صرف مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کشمیری بولنے والی آبادی کشمیر میں اور وادی چناب میں اکثریت میں ہے۔ قدرتی طور پر سب سے زیادہ کمزور ، نادار اور پسمانداہ افراد کی تعداد بھی کشمیری ہی ہے۔ اس لئے انہیں محض کشمیری زبان بولنے کی یہ سزا تو نہیں دی جاسکتی ہے کہ انہیں ریزرویشن اور جائز مراعات سے باہر رکھو جبکہ پہاڑی زبان بولنے کے نام پر بڑے بڑے افسروں ، جاگیر داروں ، وائس چانسلروں، منسٹروں اور سرمایہ داروں کو غریب اور محتاج قرار دے کر کشمیریوں کا حق چھینا جائے ۔ غالب اکثریت ہونے اور سب سے زیادہ غریب اور محتاج کشمیری بولنے والوں کیلئے بھی کم از کم دس فیصد ریزرویشن ہونا چائے جس طرح سے مہاراشٹرا میں مراٹھی آبادی کیلئے سولہ فیصد اوراب ملکی سطح پر دس فیصد جنرل ریزرویشن دیا گیا ہے۔ یہ بہت ظلم ہوگا کہ ایک آبادی کوخود ساختہ طور پر محض زبان کی بنیاد پر مراعات یافتہ بنایاجائے جبکہ حقیقی پسماندہ اور غریب طبقوں کو محض کشمیری بولنے کے جرم میں سزایافتہ بنایاجائے۔
(نوٹ : مضمون نگار کی آراء سے ادارے کا کلّی یا جزوی طور متفق ہونا قطعی لازمی نہیں ہے)
ماخوذ: ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘ سری نگر