متوازن دنیا :انسان اور وحوش میں توازن کی ضرورت!

گزشتہ کئی مہینوں میں انسانی بستیوںکے اندر جنگلی جانوروں کی گھس بیٹھ کے متعدد واقعات پیش آئے، جن میں کئی شہری زخمی ہوگئے جبکہ کئی ایسے معاملے بھی پیش آئے جن میں ان جانوروں کو زندہ پکڑ کر محکمہ وائلڈ لائف کے سپرد کیا گیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ کنگن علاقہ میں پیش آیا ،جس میں تیزی کے ساتھ نایاب ہو رہےہانگل کے ایک بچے کو زخمی حالت میں ایک نوجوان نے پکڑ کر اُسکے زخموں کی مرحم پٹی کرکے اُسے متعلقہ کے حوالہ کرکے نہ صرف انسانیت کا ثبوت دیا ہے بلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ ابھی ہمارے سماج میں ایسے نفوس موجود ہیں جنہیں من حیث المجموع کرۂ ارض پر ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کےلئے ان بے زبانوں کی ضرورت اور موجودگی کا احساس ہے ۔ حالانکہ کئی معاملات میں دو طرفہ ہڑا بڑا ہٹ کے ماحول میں طرفین کی طرف سے ایک دوسرے پرحملے بھی ہوتے ہیں تاہم کنگن کے واقعہ نے ایک نئی طرح کا احساس اُجاگر کیا ہے۔ اسی طرح خطہ چناب کے کئی دیہات میں بھی رواں موسم کے دوران متعدد حوش کو قابو کرکے متعلقہ حکام کے حوالے کیا گیا، جنہوں نے بعد اذاں انہیں واپس اپنی آماجگاہوں میں چھوڑ دیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ پہاڑی علاقوں میں انسانی مداخلت سے ان وحوش کے لئے غذا کے وسائل محدود ہو جاتے ہیں اور وہ قریبی بستیوں کی طرف رُخ کرتے ہیں۔یہ صورتحال ماضی میں بھی پیش آتی رہی ہے، لیکن حالیہ برسوں میں ان واقعات کی تعداد میںکافی اضافہ ہوا ہے اور رواں برس نہایت ہی تواتر کے جنگلی حیات کی انسانی بستیوں کے اندر آمد و رفت سے دو اہم سوال اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ کیا جنگلات کی صورتحال اس قدر زبو ں ہوگئی ہے کہ فطرت کے توازن کا ایک اہم ستون گردانے جانے والے ان وحشیوں کےلئے وہاں خوردونوش کی صورتحال دن بدن دگر گوں ہو رہی ہے یا پھر انسانی بستیاں اس قدر جنگلات کے قریب پہنچ گئی ہیں کہ یہ وحوش اپنی آماجگاہوں میں انسانی گھس پیٹھ سے برافرختہ ہو کر ایسے حالات پید اکر رہے ہیں۔ بہر حال دیکھا جائے تو دونوں صورتیں موجود ہیں۔ ایک جانب نہایت ہی سرعت کے ساتھ جنگلاتی اراضی سکڑتی جارہی ہے اور اس کے لئے ذمہ دارعوامل سے ہم مسلسل غفلت کے مرتکب ہوتے آئے ہیں۔ دوسر ی طرف انسانی آبادیاں بھی بہت تیزی کے ساتھ پھیل کر جنگلات سے متصل علاقوں سے رینگتے ہوئے جنگلات کی زیلی اراضی کے اندر گھستی جارہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں انسانوں اور وحوش کا متصادم ہونا لازمی ہے۔ول الذکر صورتحال کے لئے جنگل سمگلروں اور زمین دلالوں کے مافیا، جس میں سیاستدانوں اور انتظامی اہلکاروں کے مفادات مسلم ہوتے ہیں،پیش پیش ہوتے ہیں جبکہ بڑے ترقیاتی پروجیکٹوں کے حوالے سے بے محابہ تعمیراتی سرگرمیوں اور سلامتی کےلئے جنگلوں کے اندر سیکورٹی فورسز کی آمدو رفتسے ان وحوش کے مساکن متاثر ہوتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر انہیں اپنی آماجگاہوں سے منتقل ہونا پڑتا ہے۔ثانی الذکر صورت میں انسانی بستیوں کے بے ترتیب اور غیر منصوبہ بند پھیلائو نے جہاں زرعی اراضی کو بے بیان تباہی سے دو چار کر دیا ہے وہیں اب جنگلات سے متصل زیلی اراضی کو بھی زیر کرنے کا عمل جاری ہے ، جو بالآخر بچے کھچے جنگلات کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگلی جانوروں کی آماجگاہوں کے تحفظ کو سنجیدگی کے ساتھ لے کر ، ایسے علاقوں کو انسان کی دست برد اور دخل اندازی سے محفوظ کیا جائے وگرنہ ماحولیاتی عدم توازن میں مزید سنگینی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ، جو کم ازکم کائناتی اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔موجودہ ریاستی انتظامیہ نےجنگلاتی اراضی سے قبضے ہٹانےکے عہد کا اظہار کیا ہے، جو ایک خوش آئند بات ہے تاہم اس میں یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ سابق سرکار کی طرح ایسی کاروائی نہ ہو جن میں جنگلات کی بحالی کے بجائےفرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاسی انتقام گیری کے اثرات ہوں، جیسا کہ سابق سرکار نے جموں خطے میں کیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگلات سے متصل علاقوں میں اراضی کی باز یابی کو ترجیح د ی جائےنہ کہ شہروں کے اندر بر سہا برس سے موجود بستیوں کو نشانہ بنا کر جنگلات کی بحالی کے نام پر سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کی جائے۔ جموں وکشمیر جو صدیوں سے قدرت کی ان مہربانیوں سے مالامال رہاہے ، میں بھی آئندہ ایام میںتباہی کی صورتحال پیدا نہ ہو ، اس کے بارے میں یہاں کی حکومت اورعوام کو سنجیدگی اوردردمندی کے ساتھ غور وفکر کرنا ہوگا۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمہ گیر سطح پر ایک متوازن دنیا کےلئے جنگلی حیات کی ضرورت کو اُجاگر کرنے کےلئے عوامی بیداری پیدا کی جانی چاہئے۔