معراج مسکین ـؔ
اسلامی کلینڈر کے افضل مہینے ماہِ صیام کے مقدس ایام رواں دواں ہیں۔مسلمانانِ عالم کی طرح وادیٔ کشمیر کے مسلمان بھی رضائے الٰہی کے جذبے کے تحت ان پاکیزہ ایام کا تزک و احتشام کے ساتھ اہتمام کررہے ہیںاور بظاہر وہ سبھی کام کررہے ہیں جو بحیثیت اُمتِ محمدی ؐاُن پر لازم ہیںلیکن اِن افضل ایام میں کیا وادی کےتمام مسلمان حقیقی معنوں میں وہ سبھی کام کرتے ہیں جو اسلام کے احکامات اورپیغمبر اسلام ؐ کی تعلیمات کے مطابق اُن پر عائد ہیں؟ یہاں کے پیروکارانِ اسلام، اقوامِ آدمیت ،انسِ انسانیت ،باہمی محبت ،بھائی چارہ گی،خوش اخلاقی ،ایمانداری ،حق پرستی ،خطائوں کی معافی ،گناہوں سے توبہ ،میانہ روی اور انصاف کے اصولوں پر کتنے کاربند رہتےہیں،کس حد تک اصولِ دین پرعمل کرتے ہیں،انسان ہونے کے ناطے انسانیت کے اُن تقاضوںکا کہاں تک لحاظ رکھتے ہیں ،جس پر انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا گیا ہے؟یہ کچھ ایسی باتیں ہیں جن پر کافی حد تک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صدیوں سے غلامی کی منجدھارمیںپھنسے ہوئے اور عشروں سے مسائل کے دلدل میں اَٹے ہوئے ہم کشمیری مسلمان ایک طرف اپنے دین ِمبین کی پاسداری اور اپنے پیارے نبی ؐؐ کی تعلیمات کی پیروی کے روادار بنے ہوئے ہیںتو دوسری طرف اپنے دین سے بیزاری اور بنی کریمؐ کی تعلیمات سے کھلم کھُلا انحراف کررہےہیں۔زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ وادی کشمیر کا تقریباً ہر بالغ فرد نےجہاں ایمانداری ،انصاف اور فرض شناسی کی فضیلت اور اہمیت کو بھول کر حقوق ِ اللہ،حقوق العباد اور اسلامی اعمال کو ایک رسم بناکررکھ دیا ہے وہیں دنیاوی معاملات میںاپنی ذات ،اپنی خواہشات اور مرغوبات میں اپنے آپ کو بالکل آزاد سمجھ رہاہے۔اس نامراد اور نام نہاد آزادی کے خول میں جس طرز ِعمل، جس قول و فعل اور جس طور طریقے کے تحت وہ دینی اور دنیاوی کاموںمیںمست و مگن ہوچکاہے،اُس سے تونمایاں طور اُجاگر ہورہا ہے کہ ہم نے ایک نئے رنگ میں اپنی زندگی کو دو خانوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے ۔ایک خانہ عبادت یعنی نماز ،روزہ ،زکوٰۃ ،حج ،درود اذکار اور وعظ و تبلیغ کا ہے اور دوسرا خانے میں ہمارے دنیاوی معاملات ہیں ،جنہیں ہم جیسا چاہیں اپنی مرضی سے انجام دیتے ہیں۔چنانچہ ایک طویل عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیںکہ ایک طر ف ہمارے یہاں کے سرکاری انتظامیہ کے تقریباً ہر شعبے میںخود غرضی ،نااہلی،کورپشن،اقربا پروری اور ناقص کارکردگی عروج پاچکی ہے تو دوسری طرف ہر پیشے سے وابستہ ہمارےزیادہ تر لوگ جن میں تاجر ،کاروباری حلقے،دکاندار طبقہ،اعلیٰ وادنیٰ ملازم،کاریگراورمزدور بھی شامل ہے، زبردست بددیانتی اور بے ایمانی کا شکار ہوچکے ہیں۔یہ دونوں سرکاری اور غیر سرکاری لوگ کسی بھی معاملے میںاورکسی بھی مرحلے پر عام لوگوں اور ایک دوسرےکو دھوکہ دینے اور لوٹنے میں اتنے ماہر اور عادی ہوچکے ہیں کہ ان میں نہ صرف ایمانداری،حق پرستی اور انصاف کا شعور ناپید ہوچکا ہے بلکہ وہ مکمل طور پر شیطان کے پجاری بن کر رہ گئے ہیں۔اُن میں سچ اور جھوٹ،اچھے اور بُرے،حق اور ناحق ،حلال اور حرام میں فرق مِٹ چکی ہے ۔ہاں! یہ امر بالکل بجا ہے کہ انسان کے لئے مستقبل کی فکر کرنا ضروری ہے لیکن محض اسبابِ دنیا کے بارے میں فکرمند رہنا اور سامانِ آخرت کے لئے بے فکر ہونا کسی صورت میں درست نہیںبلکہ اصولی و عملی طورپر غلط ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب ہم رزقِ حلال کمانے اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاص سے پیش آنے کی سعادت و عبادت کو بغاوت سمجھتے ہیںاور بدستور ظاہر داری او ریا کاری سے ایک صالح،باکردار اور دیندار مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ہیںاور اپنی بد اعمالیوں و بُرائیوںپر سینہ ٹھونک کر فخر محسوس کرتے رہتےہیں۔
ذرا غور کیجئےکہ جب بھی وادیٔ کشمیر کا ہر طبقہ کسی دینی تہوار کی آمد کی خوشیاں منانا چاہتا ہے ،رمضان کے مقدس ایام کی فضیلت بٹورنا چاہتا ہے ،عیدین کی مسرتیں بانٹناچاہتا ہےیا اُن موقعوں پر جب وہ کسی قدرتی آفات یا کسی اور وجوہات کے باعث شدید مشکلات میں مبتلا ہوکر اضطرابی کیفیت سے راحت پانا چاہتا ہے تو اِن موقعوں پر عموماً ہمارے یہاں کے تاجر حلقوں کا دین ِ ایمان غارت ہوکر رہ جاتا ہے۔حق پرستی ،دینداری اور ہمدردی یا مروت کی ہررَمق اُن میں کافور ہوجاتی ہےاورلالچ ،خودغرضی اور مکروہ ہتھکنڈوںکی ایسی شیطانی قوت اُبھر آتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔وہ اپنے ستم رسیدہ اور پریشان حال ہم ملت لوگوںکو اپنی استحصالی کارستانیوں کے تحت لوٹنے میں ایسےمصروف ہوجاتے ہیں،جیسے بھوکے درندے ایک کمزور شکار کو نوچ نوچ کر اپنا نوالہ بناتے رہتے ہیں۔وادی کے ستم رسیدہ لوگ خصوصاًغریب طبقوں کے لئے یہ صورت حال انتہائی پریشان کُن بن جاتی ہے اور وہ بے بسی اور بے کسی کے عالم میں آہیں بھرنے اور خاموش رہنے کے سِوا کچھ اورکربھی نہیں سکتے ہیں۔
ہم سب اس امر سے واقف ہیںکہ پچھلے چھ مہینوں سے موسم سرما کی یخ بستہ سردیوں،شدیدبرف باری اور بارشوںکے نتیجے میں پیدا شدہ صورت حال اور پھر وقفہ وقفہ کے بعد سرینگر جموں شاہراہ پر آمدورفت کی مسدودیت بھی وادی کی ساری آبادی کے لئے گونا گوں پریشانیوں کا سبب بن گئی کیونکہ یہاں کے تاجروں اور دکانداروں نے حسبِ روایت نہ صرف اشیائے خوردنی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کرنے کا عمل جاری رکھا بلکہ بعض چیزوں کے دوگنے اور تِگنے دام بھی وصول کرتے رہےجبکہ یہ عمل شدو مد کے ساتھ تا ایں دم جاری ہے۔اب جبکہ ماہِ صیام کے مقدس ایام چل رہے ہیں۔تو ان تاجروں اور دکانداروں کی پھر بَن آئی ہے،وہ کھلے عام دندناتے نظر آرہے ہیںاور اپنے روایتی کھیل کو مزید بڑھاوا دینے کی کہانیوں اور قصوں کے نئے باب مرتب کررہے ہیں۔ گوشت ،مرغ ،مچھلی اورپنیر کی حصول کے لئے متوسط طبقے کی قوت خرید پہلے ہی ٹوٹ چکی ہے جبکہ غریب اور محدود آمدن والوںکے لئے یہ چیزیں صرف دیکھنے کے لئے رہ گئی ہیں۔ظاہر ہے کہ وادی کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت،بے روز گاری کے باعث عرصہ دراز سے مختلف مسائل سے دوچار ہے لیکن اس کے باوجود اپنے ہی معاشرہ کا ایک مخصوص حصہ اپنی خود غرضانہ کاروائیوں سے اُنہیںنوچنے و لوٹنے سے باز نہیں آرہا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ جو چیزیں دوگنے ،تگنے اور چُگنے داموں پر فروخت کی جارہی ہیں وہ بھی نقلی ادویات کی طرح ناقص ،غیر معیاری اور مُضرِ صحت ہوتی ہیں ،ایک لمبے عرصے سے جہاںوادی میں تیسرے درجے کا گوشت اول درجے کے نام پر من مانی قیمتوں پر فروخت ہورہا ہے وہاںگلی سڑی سبزیاں اور بوسیدہ پھل و میوے بھی اونچے داموں پر بیچنے کا سلسلہ جاری ہے۔دیانت ،شفافیت اور پاکیزگی نام کی چیز یکسر غائب ہوچکی ہے۔روز مرہ استعمال ہونے والی کھانے پینے کی اشیاءمیں معیار و کوالٹی ناپید ہوگئی ہے اور ناقص ،غیر معیاری اور ملاوٹی چیزوں کی وباء ایک لمبے عرصے سے عام ہوچکی ہے۔بازار وںمیں کون سی چیز سستی ہے، یہ سب کہنے کی باتیں رہ گئی ہیں لیکن اس کے باوجود ہر چیز بک رہی ہےاور خوب بک رہی ہے؟ ہاں! جو بے چارے خرید نہیں سکتے، اُن کےلئے ضرور مہنگی ہوتی ہے لیکن عام آدمی کسی بھی مہنگی چیز کو خریدنے پر مجبور ہوجاتا تو چیزیں مہنگی ہوتی چلی جاتی ہیں۔چنانچہ تاجر یا دوکاندار جب دیکھتا ہے کہ ایک روپے کا مال تین روپے میں بھی خریداجا رہا ہے تو وہ مزید منافع کمانے کے لئےمہنگی کرتا ہےکیونکہ وہ جانتا ہے قیمتوں کو کنٹرول کرنے والایہاں کوئی مائی کا لال رہا ہی نہیںہے۔ظاہر ہے جب حکومتی دعوئوں میں کھوکھلا پن ہو تو حقیقی طور پر مہنگائی میں کوئی کمی کیسے ہوگی؟ حالانکہ دودھ، چینی،گھی ،تیل، چاول، آٹا، دالیں، بھیڑ ،بکری اورمرغی کا گوشت،سبزیوں اور پھلوںاور دیگر ضروریات ِ زندگی کی ہر غیر معیاری اور ناقص چیز کی قیمتوں میں سو سے پانچ سو فیصد تک کا تو اضافہ ہواہےلیکن پھر بھی چھوٹے بڑے تاجراقتصادی بدحالی کا رونا روتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ اور جب کبھی متعلقہ انتظامیہ کو اپنے مشاغل سے فرصت ملتی ہے تو اپنے وجودکے دکھاوے کے لئے مہنگائی کے خلاف عوام کے حق میں بیان داغ دیتی ہے، وہ بھی دراصل حکومت پر دبائو ڈالنے کے لئے کرتی ہےنہ کہ غریب عوام کی کسی بھلائی کے لئے۔ظاہر ہے کہ بیان داغنے میں کچھ نہیں جاتا، اس لئےوہ یہ بعض اوقات کر ہی لیتے ہیں۔ جس کے نتیجےمیں غریب مجبور و بے بس عوام اپنی حتی المکان ضروریات پورا کرنے کے لئے مہنگی اشیاء خریدنےپر مجبور ہوجاتے ہیں۔بغور دیکھا جائے تو تواتر کے ساتھ یو ٹی حکمراں اور انتظامیہ مست ِسحر سے آزاد نہیں ہوسکے ہیںاور وہ محض پروپیگنڈا سازیوں اور دعویٰ بازیوں میں ہی کھوئےہوئے ہیں،اس لئے اب یہاں نہ حکومت اس صورت حال پر قابو پانے کی پوزیشن میں نظر آرہی ہے اور نہ یہاں کے سرکاری انتظامیہ کا کوئی شعبہ انصاف نافذ کرنے کے قابل رہا ہے ۔جبکہ ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ معاشرے میں بھی ایسی کوئی اہلیت باقی نہیں رہ گئی ہے کہ اپنوں کے اس ظلم و نا انصافی کے خلاف کوئی موثر حکمتِ عملی اختیار کرسکیں۔ایسا لگتا ہے کہ معاشرے کا بھی ضمیر مُردہ ہوچکا ہےاور وہ سب کچھ دیکھتے ،سمجھتے اور سُنتے ہوئے بھی اندھے ،بہرے اور گونگے بننے کے قائل ہوچکے ہیں۔اب جبکہ غیروںکی تقلید بھی ہمارے فرائض میں شامل ہوگئی ہے تو زندگی کے سارے معاملات میں ہم اُسی کی پیروی کرنے لگے ہیں۔مغرب کے غیر مسلموں کا ہر منفی رویہ تو ہم بڑی خوشی سے اپنالیتے ہیںلیکن اُن کی کسی بھی اچھی اقدار کی طرف نظر اُٹھاکر بھی نہیں دیکھتےہیں۔افسوس صد افسوس!ہم نے اپنے مذہبی اقدار کو خود ہی خیر باد کہہ دیا ہے اور گمراہ ہوکر خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ ماہِ صیام کے باقی ایام میں ہمارے اندر کا انسان جاگ جائے ،ہمارا ضمیر بیدا ہوجائے اور ہم اپنے روایتی اصولوں سے ہٹ کر اپنی دنیا اور اپنی عاقبت کے لئے کوئی موثراور مثبت سامان حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیںاور جس بے حِسی و لذت ِ بد نے ہمیں بُرائیوں اور خرابیوں میں ڈبو دیا ہے، اُن سے نجات حاصل ہوجائے۔