ایک اور سال بیت گیا۔آغازِ سال تو مجھے یاد نہیں ،جنوری کی ایسی ہی کوئی صبح ہوگی البتہ ابھی کل ہی کی بات لگ رہی ہے کہ دنیا ایک ایسے وبا سے آشنا ہوگئی جس نے سبھی چھوٹی بڑی طاقتوں کوقدرت کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کیا۔سال 2020 تاریخ میں ایک الجھے ہوئے سال کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا ۔اس سال ہم نے پہلی بار دنیا کے چھوٹے،بڑے کمزور اور طاقتور ممالک کو بے بس دیکھا۔یہ سال کیسے پَر لگا کر اُڑ گیا خبر ہی نہ ہوئی اور خبر ہوتی بھی کیسے کچھ تو نیا ہوتا ،کوئی بات، کوئی خبر ،کوئی واقعہ تو ایسا ہوتا جس کا ہونا اس سال کو بیتے اوران گنت سالوں سے ممیز کر جاتا۔سال رفتہ میںجب کشمیرسیاسی لاک ڈائون سے ابھرنے لگا ہی تھا توعالمی وبا کورونا وائرس کی آفت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور طبی لاک ڈائون نے اہلیان ِ جموںوکشمیر کو اپنے گھروں تک محدود کرکے رکھ دیا۔کوروناکی یہ لہر آتے آتے وادی میں بہار آچکی تھی بلکہ موسم گرما نے بھی دستک دی تھی تاہم لوگوں میں گرم جوشی مفقود ہی رہی کیونکہ راحت رسانی کا کوئی سامان میسر نہ ہوا۔ اہلیانِ وادی نے بہار میں بھی خزاں کا سماں پایا اور خزاں آتے آتے ان کی امیدیں کافور ہوگئیں۔یہ سال اسلئے بھی ناقابل فراموش ہے کیونکہ کورونا کے پیش نظر مسلمان نہ صرف رمضان کے بابرکت ایام میں باجماعت نماز وںاور تراویح کی سعادت سے محروم ہوئے بلکہ مقدس مقامات مکہ اور مدینہ کی زیارتوں سے بھی روک دئے گئے ۔اللہ کرے ایسا سال پھر کبھی نہ آئے کہ لوگ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے گریزاں ہوں،گلے لگنے اور خوشیاں بانٹنے سے بھی محروم ہوں ۔
اللہ کرے ایسا سال پھر کبھی نہ آئے کیونکہ اس سال نہ صرف بہت سے لوگوں کے کاروبار ختم ہوگئے بلکہ بہت سے سفید پوشوں کے بھرم بھی ٹوٹتے رہے تاہم کچھ لوگوں نے جی بھر کے صدقات و عطیات دیکرانسان دوستی کا فرض نبھایا۔اسی سال حالات کے جبر کی وجہ سے کچھ اچھے کام بھی ہوئے، لاک ڈائون کے دنوں میںایک مدت کے بعد لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے کی مشق کرتے دیکھے گئے ۔ لوگوں کو احساس ہوا کہ مہنگے ہوٹلوں میں پکوان کھائے بغیر بھی انسان کا پیٹ بھر سکتا ہے۔ہم نے یہ بھی دیکھ لیاکہ خاندان کے چند لوگ جمع ہوئے اور شادی کا فریضہ انجام دیا گیا۔اِس سال کا سب سے بڑا حاصل یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ انسان کم پیسوں سے گھر کے کھانوں اور کم اخراجات پر بھی اچھی زندگی گزار سکتا ہے۔
کتنی بھی بڑی مصیبت یا حادثہ کیوں نہ پیش آ جائے زندگی نہیں ٹھہرتی۔ ہاں! کچھ وقت کیلئے اس کی رفتا ضرور دھیمی پڑ جاتی ہے لیکن پھر اسے اپنے پرانے دھرے پر آنا ہی پڑتا ہے۔جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سینٹر برائے سائنس اینڈ انجینئرنگ کی جانب سے جاری تازہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا کے 191 ممالک میں کورونا وائرس سے دنیا بھر میں اب تک تقریباً 18 لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 8.24 کروڑ افراد اس جان لیوا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ اتنی بڑی تباہی کے بعد بھی دوبارہ زندگی دھیرے دھیرے ہی سہی پٹری پر آنے لگتی ہے کیونکہ جو ہو گیا ہم اُسے تو بدل نہیں سکتے جو اپنا چلا گیا اسے واپس تو نہیں لاسکتے لیکن اپنے آنے والے کل کو سنوار نے کی کوشش تو کر ہی سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے اور اپنے آس پاس کے باقی لوگوں کی خاطر جو ہوگیا اسے بھول کر زندگی میں آگے بڑھنا ہی پڑتا ہے۔
زندگی میں کئی مرتبہ ایسے واقعات یا حادثات ہوجاتے ہیں جو زندگی کا رخ ہی بدل دیتے ہیں لیکن ایسے حالات سے ہار مان کر جینا چھوڑا نہیں جاسکتا۔ ایسے حالات میں بھی آگے بڑھ کر زندگی کو سنوارنا اور نئے سرے سے زندگی کی شروعات کرنا ہی زندہ دلی ہے۔ کام ذرا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔وقت کی ایک خوبصورتی ہے کہ یہ کبھی بھی ایک جیسا نہیں رہتا۔زندگی رکتی نہیں، بدستور چلتی رہتی ہے۔ وقت کی ایک خوبصورتی ہے کہ یہ کبھی بھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ مشکل ہو تو آسانی بھی مل ہی جاتی ہے۔ حالات چاہے جتنے بھی کٹھن ہوں، مشکلات کے بادل جتنے بھی کالے کیوں نہ ہوں، آسانی کی صبح کا سورج ضرور طلوع ہوتا ہے۔ اسلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان کو کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ مشکلات کے آنے پر مایوسی کے اندھیروں میں بھی امید اور یقین کا چراغ جلاتے رہنا چاہئے کیونکہ اگر انسان مایوسی کے اندھیرے میں امید کا چراغ جلاتا ہے تو اس کی روشنی انسان کے وجود کو منور کردیتی ہے۔ اس روشنی سے انسان باطنی اور ظاہری طریقے سے مزید مضبوط ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ ناکامی اور مشکل وقت سب عارضی ہے۔ وہ اس حقیقت سے آشنا ہوجاتا ہے کہ یہ زوال، یہ مشکلات سب انسان کی ہمت کو جانچنے کیلئے قدرت نے پیمانے بنائے ہوئے ہیں کیونکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان اپنی فتح اور کامیابی سے اتنا مضبوط نہیں ہوتا، جتنا وہ اپنے زوال اور ناکامی سے مضبوط ہوتا ہے۔
اب ہم2021کی سیڑی پر کھڑے ہوگئے ہیں۔کہنے کو تو سب دن ، مہینے ایک جیسے ہوتے ہیں ۔دن رات کا عمل اپنی مخصوص رفتار سے گزرتا ہے ،وقت کا پہیہ گھومتا رہتا ہے۔انسان زندگی کے گزرے ہوئے لمحات کو پکڑ نہیں سکتالیکن آنے والے لمحات کو بہتر بنا سکتا ہے۔ سال بدلنے سے احوال تو نہیں بدلتے ،حالات بدلنا پڑتے ہیں ۔اس کیلئے عزم صمیم ہوناچاہئے ،درست راہوں کا تعین کرنا ہوتا ہے ،ایک دوسرے پر الزام دھرنے سے تو حالات اور بھی شکستہ اور خستہ ہوتے ہیں ۔برسوں کا سفر تو وقت کی رفتار کے ساتھ کٹتا رہتا ہے اور ہم یا وہیں کھڑے رہتے ہیں جہاں ہیں یا ہم منزل مقصود پہ جا پہنچتے ہیں لہٰذا لازم ہے کہ ہم صادق جذبوں کے ساتھ مسافتوں کو طے کریں اپنی کوتاہیوں کا ادراک کرتے ہوئے ان کا ازالہ کریں ورنہ سفر تو جاری ہے اور جاری رہے گا۔
سال 2020 رخصت ہونے کے ساتھ ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے، یہ دنیا فانی ہے۔ اِس کا ایک ایک لمحہ ہمارے لئے بہت ہی قیمتی ہے۔ کائنات کے یہ ماہ و سال یونہی گزرتے رہیں گے، صبح و شام کی آمد ہوتی رہے گی اور ہم لمحہ بہ لمحہ موت سے قریب تر ہوتے جائیں گے۔
اگر ہم جموں کشمیرکی معاشی حالات کا جائزہ لیں تو صورتحال بڑی ناگفتہ بہ نظر آئے گی ۔ اس کا اندازہ ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھ کر بخوبی لگا سکتے ہیں۔بہت سے لوگ آج بھی غربت و افلاس کی زندگی جی رہے ہیں۔ دسمبر اور جنوری کی یخ بستہ راتوں میں کتنے بے سہارا لوگ پھٹے پرانے کپڑوں اور معمولی قسم کے لحافوں میں رہ کر سرد راتوں اور ہڈیوں میں سرایت کرنے والی برفیلی ہواؤں کا مقابلہ کرتے ہیں مگر افسوس کہ ہمیں اْن کے درد کا مداوا کرنے کی فکر نہیں ۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں، اپنا محاسبہ کریں، اپنی دولت و ثروت کو سرکشی کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ اسے صحیح مصرف میں خرچ کریں۔ اپنے اٹھنے والے ہر قدم کو اللہ کی خوشنودی میں آگے بڑھائیں۔ اپنی تہذیب وثقافت کی حفاظت کیلئے ہر ممکن کوشش کریں، غیروں کی نقالی کرکے انسانی اوراسلامی تشخص کو مجروح نہ کریں۔
ہماری محدود زندگی سے ایک اور سال کی کمی واقع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک دن یہ عمر بھی تمام ہوجائے گی اور ہم شہر خموشاں کی طرف کوچ کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔ ماضی کے احتساب کے ساتھ ساتھ ہم اپنے مستقبل کیلئے بھی ٹھوس منصوبہ بندی کریں اور فرصت کے لمحات میں غور کریں کہ یہ دنیا جو ہزاروں سال سے قائم ہے اب تک ہزاروں، کروڑوںاور اربوں لوگ اس کرہ ارضی پر آئے اور اپنی اپنی متعینہ زندگی گزار کر رخصت ہوگئے اور کسی دن ہماری زندگی کی بھی شام ہوجائے گی۔
ہر سال کے آغاز پر اور نئے سال کا سورج روشن ہونے پر انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے تا کہ ماضی کا جائزہ لے کر اپنے حال کی اصلاح کی جا سکے اور صحیح منہج کے مطابق مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کی جا سکے تا کہ اغراض و مقاصد پورے ہوں اور مفادات کا حصول ممکن ہو ۔سال رفتہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے آج ہم اپنے اپنے دائرے میں بہتری لانے کی سعی کریں،انفرادی اور اجتماعی طورسنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ تمام لسانی، مسلکی اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر قوم کی بھلائی کی کوشش کریں۔ صرف یہی ایک واحد حل ہے جس سے ہم اس نئے سال سے مرہم کا کام لے سکتے ہیں۔ ورنہ اگلے سال جنوری میں پھر حزن و ملال کی تصویر بنے اسی نہ ختم ہونے والی سیاہ شب کی داستان پھر سے لبوں پر ہوگی۔اللہ کرے آنے والا ہر سال صحت،تندرستی،خوشیوں اورمحبتوں کی رعنائیاں لئے ہوئے ہو۔ آمین