غلام قادر
ماہ رمضان برکتوں، رحمتوں اور مغفرت کا مہینہ ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب روحانی عبادات اور قربِ الٰہی کی جستجو میں ہر مسلمان کا دل روشن ہوتا ہے۔ روزہ رکھنے کا مقصد جہاں نفس کی پاکیزگی اور صبر کا امتحان ہے، وہیں اس مقدس مہینے کا اصل فلسفہ محبت، اخوت، مساوات اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا بھی ہے۔ تاہم، بدقسمتی سے ہمارے معاشرتی رویوں میں ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک کے دوران خواتین پر اضافی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے ۔ یہ روش نہ صرف ان کے لیے ذہنی اور جسمانی تھکن کا باعث بنتی ہے بلکہ رمضان کے اصل مقاصد سے بھی روگردانی کے مترادف ہے۔ہمیں یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ خواتین بھی اسی طرح روزہ رکھتی ہیں جیسے مرد، ان پر بھی بھوک اور پیاس کا اثر ہوتا ہے، ان کا جسم بھی تھکن محسوس کرتا ہے اور انہیں بھی عبادات، تلاوتِ قرآن، ذکر و اذکار اور دعا کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں عام طور پر خواتین کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسے ان کی اصل ذمہ داری محض سحر و افطار کی تیاری کرنا ہو۔ اکثر گھروں میں خواتین کو افطاری کے وقت اتنا مشغول رکھا جاتا ہے کہ وہ خود کھانے پینے کا وقت بھی صحیح طریقے سے نہیں نکال پاتیں۔ انہیں دن بھر کی مشقت کے بعد کھانے پینے کے مناسب مواقع بھی میسر نہیں آتے اور نتیجتاً ان کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف ظلم کے مترادف ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ہمیں خواتین کے ساتھ حسن سلوک کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ آپؐ نے ہمیشہ خواتین کو عزت دی، ان کے آرام کا خیال رکھا اور گھریلو کام کاج میں بھی حصہ لیا ۔ مگر ہمارے معاشرے میں مردوں کا عمومی رویہ اس کے بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ گھروں میں خواتین کو باورچی خانے تک محدود کر دینا، ان پر غیر ضروری دباؤ ڈالنا اور ان کی محنت کی ناقدری کرنا ایک عام بات بن چکی ہے۔ رمضان کے دوران تو یہ معاملہ اور زیادہ سنگین ہو جاتا ہے کیونکہ خواتین پر کام کا بوجھ دوگنا ہو جاتا ہے۔ انہیں نہ صرف دن بھر کے معمول کے کام انجام دینے پڑتے ہیں بلکہ سحری و افطاری کے خاص اہتمام کے باعث ان کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔
یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ رمضان میں خواتین کو بازاروں کے چکر بھی لگانے پڑتے ہیں، کیونکہ سحری و افطاری کے لیے مختلف اشیاء کی خریداری ضروری ہوتی ہے۔ ایک طرف بازاروں میں رش، دوسری طرف روزے کی حالت میں تھکن اور اس پر مزید یہ کہ افطار سے کچھ دیر پہلے کھانے کی تیاری کے لیے کچن میں موجودگی ،سب چیزیں خواتین کو سخت پریشان کر دیتی ہیں۔ مرد حضرات اکثر اپنی راحت کا پورا خیال رکھتے ہیں، آرام دہ کمروں میں لیٹے رہتے ہیں اور افطار کے وقت صرف دستر خوان پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جس کھانے کو وہ مزے سے کھا رہے ہیں، اس کی تیاری میں کسی عورت نے کتنی محنت کی ہے اور اس عمل میں اسے کتنی مشقت اور تھکن کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔یہ رویہ سراسر ناانصافی پر مبنی ہے اور دین اسلام کی حقیقی روح کے خلاف ہے۔ اسلام نے خواتین کو عزت و وقار دیا ہے اور انہیں بھی وہی حقوق عطا کئے ہیں جو مردوں کو حاصل ہیں۔ ایک مثالی اسلامی گھرانے میں عورت اور مرد دونوں کو ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہیے، نہ کہ عورت کو صرف خدمت گزار سمجھا جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض گھروں میں رمضان کے دوران افطار پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے،جس سے خواتین کی مشقت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے،اس دوران یہ بات یکسر نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ خواتین بھی انسان ہیں، انہیں بھی آرام، عبادت اور سکون درکار ہوتا ہے۔ بہت سی خواتین اپنی جسمانی کمزوری، بیماری یا دیگر مسائل کی وجہ سے زیادہ کام کرنے کے قابل نہیں ہوتیں، پھر بھی ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہر کام میں حصہ لیں، جس کے نتیجے میں ان کی صحت مزید متاثر ہو جاتی ہے۔ لازم ہے کہ ہم اپنے ذہنوں میں یہ بات بٹھائیں کہ خواتین کو بھی عبادت کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا مردوں کو۔ اور اس کا اصل مقصد قربِ الٰہی حاصل کرنا ہے، نہ کہ سارا وقت محض کھانے پینے کے انتظامات میں ضائع کر دینا۔ ہمیں چاہیے کہ رمضان میں خواتین پر غیر ضروری کام کا بوجھ نہ ڈالیں اور گھر کے تمام افراد مل کر کام بانٹیں تاکہ خواتین کو بھی عبادات کے لئے مناسب وقت مل سکے۔مردوں کو چاہیے کہ وہ سحری اور افطاری کی تیاری میں خواتین کا ہاتھ بٹائیں۔ اگر خواتین دن بھر کے کام کاج سے تھکی ہوئی ہوں تو انہیں کچھ دیر آرام کرنے دیا جائے، تاکہ وہ بھی تازہ دم ہو کر عبادات میں مشغول ہو سکیں۔ اسی طرح بازار کے کاموں میں مرد حضرات کو زیادہ متحرک ہونا چاہیے۔ اگر ممکن ہو تو کھانے کے انتظامات کو سادہ رکھا جائے تاکہ غیر ضروری مشقت سے بچا جا سکے۔
اپنے بچوں کو بھی اس بات کی تعلیم دینی چاہیے کہ وہ خواتین کا احترام کریں اور رمضان کے دوران ان کے کام میں ہاتھ بٹائیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر روز پرتکلف افطار کا اہتمام کیا جائے۔ سادہ اور کم محنت طلب افطاری بھی کی جا سکتی ہے جو کہ سنتِ نبوی ؐ کے زیادہ قریب ہے۔ اس طرح خواتین بھی سکون اور خوش دلی سے رمضان کی عبادات میں مشغول ہو سکیں گی۔ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ خواتین کو خود بھی اپنی صحت اور حقوق کے بارے میں شعور ہونا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ غیر ضروری دباؤ قبول نہ کریں اور گھر کے دیگر افراد سے تعاون طلب کریں۔ اگر کسی خاتون کو محسوس ہو کہ وہ حد سے زیادہ تھک رہی ہے اور عبادات کے لیے وقت نہیں نکال پا رہی، تو اسے اپنے گھر والوں سے اس بارے میں بات کرنی چاہیے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ رمضان عبادات، محبت اور مساوات کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ ہمیں صبر، شکر، ایثار اور دوسروں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم اس مقدس مہینے میں بھی خواتین کے ساتھ نرمی اور محبت کا سلوک نہیں کر سکتے تو پھر ہم نے اس مہینے سے کچھ نہیں سیکھا۔ خواتین کو صرف افطاری اور سحری تک محدود رکھنے کے بجائے انہیں بھی رمضان کی برکتوں میں شریک ہونے کا موقع دینا چاہیے تاکہ وہ بھی اس مہینے کی روحانی خوشیوں سے مستفید ہو سکیں۔
[email protected]