ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے مجاہد ِ آزادئ وطن مولانا ابوالکلام آزاد۔ مولانا کے یوم پیدائش 11 ؍نومبر، 1888ء کو ہندوستان میں قومی یومِ تعلیم منایا جاتا ہے۔ ان کی خدمات کے عوض بعد از مرگ سال 1992 میں بھارت کے اس ویژنری جیالے کو دیش کے سب سے بڑے سمّان "بھارت رتن" سے بھی نوازا گیا۔ دنیا جانتی ہے کہ عظیم قومیں اپنے اسلاف اور انکے کارناموں و خدمات کو یاد رکھا کرتی ہیں۔ جو قومیں اپنے اسلاف کی عظمتوں کو فراموش کردیا کرتی ہیں ان کی آنے والی نسلیں بھی انہیں بھلا دیا کرتی ہیں۔ یہی عملی زندگی کی ریت بھی ہے۔ فی زمانہ مولانا سی عظیم شخصیتیں عنقا ہوگئیں۔ بقول معروف و مقبول شاعر مخمور دہلوی : ـ؎
جنہیں اب گردش افلاک پیدا کر نہیں سکتی
کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گور غریباں میں
مولانا آزاد کے تخلیقی و تعمیری ذہن کی حساسیت نے تعلیمی موضوع کے دائرۂ کار کو اور بھی زیادہ وسیع تر بنا دیا۔ مثلاً مولانا کی تنظیمی اور تخلیقی صلاحیتوں نے ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں ماڈرن ایجوکیشن کے فیلڈ میں ٹھوس بنیادی تعمیری کاز کی بنیاد کا پتھر تصور کی جاتی ہے۔ دلیل کے طور بھارت کا پہلا آئی آئی ٹی ،کھڑگپور، مغربی بنگال کا قیام ہے مزیدآج AICTE, UGC اور NBA ان کے ہی افکار عالیہ ہیں۔ جدید بھارت میں اعلیٰ تعلیم کے پیش رفت نت نئے منصوبے، انجینئرنگ اور ماڈرن ٹیکنالوجی پر مبنی ہائر ایجوکیشن ان کی ہی دین ہیں۔ یہ منہ بولتے کارنامے مولانا آزاد کے ویژن اور ماڈرن تعلیمی مشن کے بین ثبوت ہیں۔ آج یوں ہی ان کا قابلِ قدر نام و کاز درسی و نصابی کتابوں میں شاملِ نصاب نہیں ہے! ایک جانب مولانا کثیر الجہات علم داں تھے تو وہیں دوسری جانب دوراندیش، بے مثال خطیب، بہترین نثرنگار، مدیر اور ماہر لسانیات بھی تھے۔ اس ضمن میں سرحد پار کے معروف و مقبول شاعر ممتاز گورمانی کا زیر نظر شعر قرطاس پر آنا چاہ رہا ؎
ہم نے اک عمر کتابوں کے حوالے کی ہے
تب کہیں جا کے کتابوں کے حوالے ہوئے ہیں
مولانا موصوف کو آزاد بھارت کے پہلے وزیرِ تعلیم ہونے کی سعادت ملی۔ 15؍اگست 1947ء سے 22؍فروری 1958ء تک وہ پر سرِ عہدہ رہے۔ ان کی پیدائش 11؍نومبر 1888ء کو مکہ ہوئی تھی جب ان کے والد بزرگوار کو 1857 کی جنگ آزادی کی وجہ سے وطن عزیر بھارت سے ہجرت کرکے مکہ میں سکونت اختیار کرنا پڑی تھی۔ تاریخی پس منظر میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نام محی الدین احمد تھا اور والد نے فارسی کے مصرعے۔ ع
’’جواں بخت و جواں طالع ، جواں باد‘‘ سے ہجری سن کا استخراج کرتے ہوئے تاریخی نام ’’فیروز بخت‘‘ رکھا تھا۔ مولانا آزاد نے اپنی کتاب ’تذکرہ‘‘ میں محی الدین کی جگہ اپنا نام صرف احمد لکھا ہے۔ ابو الکلام آزاد ان کی کنیت تھی۔واضح ہو کہ مولانا محض ایک عام روایتی مذہبی مولانا نہیں تھے بلکہ ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایک عظیم قائد و رہنما، متحرک جید عالمدین، بے مثال دانشور،بہترین اسکالر اور سچا محب وطن بھی تھے۔ تعلیم کے میدان میں ان کی ناقابلِ فراموش اور گراں قدر خدمات کے مدنظر ستمبر 2008 میں وزارتِ ترقی انسانی وسائل کی جانب سے یہ فیصلہ لیا گیا کہ تعلیم کے میدان میں ملک کے اس عظیم سپوت کی گراں قدر خدمات کی یاد کو باقی رکھنے اور نئی نسل کو ان سے واقف کرانے کے لیے ہر سال 11نومبر کو قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جائے گا۔ تب سے ہر سال اس دن کو پورے ملک میں قومی یومِ تعلیم (نیشنل ایجوکیشن ڈے) کے طور پر منایا جاتا ہے۔معتبر شاعر فردوس گیاوی یوں فرماتے ہیں:؎
علم کی ابتدا ہے ہنگامہ
علم کی انتہا ہے خاموشی
مذکورہ شعر کے مصداق مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے علم کی انتہا میں خاموشی سے ماڈرن ایجوکیشن پر ہنگامی پیرائے میں عدیم النظیربے لوث خدمات انجام دیئے۔ قابل غور بات ہے کہ مولانا کی تعلیمی دوراندیشی اور تنظیمی صلاحیت کا نتیجہ ہی تھا کہ مکمل آزادی سے قبل جب عبوری حکومت قائم ہوئی تھی، تب بھی مولانا آزاد کو وزارتِ تعلیم کا قلمدان ہی عطا کیا گیا تھا۔ جنگ آزادی میں جو لوگ سرگرم اور قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے، ان میں فراست علمی، مطالعہکی وسعت اور تنوع اور مختلف مشرقی و مغربی علوم پر گرفت کے اعتبار سے مولانا کی حیثیت امتیازی و منفرد تھی۔ مولانا وزارت تعلیم جیسے اہم اور سنجیدہ قلمدان کے یقیناً اہل تھے مگر ان کا مقام اس سے بالا تر تھا۔ مولانا آزاد کا شمار گرچہ ماہر تعلیم میں نہیں ہوتا ہے لیکن تعلیم پر ان کا مستقل اور مستحکم نظریہ تھا۔ وہ مشرقی علوم کے پروردہ ہونے کے باوجود جدید اور وقت کی متقاضی تعلیم کے حامی تھے ،جس کی تحریک سرسید پہلے ہی چلا چکے تھے۔ مولانا خود بھی جن شخصیات سے متاثر تھے ،ان میں سرسید کی شخصیت بھی شامل ہے۔ واضح ہو کہ 18فروری 1947 کو ایک پریس کانفرنس میں تعلیم پر اظہار کرتے ہوئے مولانا آذاد نے کہا تھا : ’’صحیح طور پر آزادانہ اور انسانی قدروں سے بھرپور تعلیم ہی لوگوں میں زبردست تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے اور انہیں ترقی کی طرف لے جاسکتی ہے۔‘‘یومِ تعلیم کے منانے کا مقصد تعلیمی اداروں کو مضبوط و مستحکم بنانے اور ملک میں معیاری تعلیم کو فروغ دینے کا عزم مصمم کرنے کے ساتھ ساتھ آزاد ہندوستان میں تعلیم کی بنیاد کو مضبوط کرنے میں مولانا آزاد کی خدمات کو ناقابل فراموش بنانا، موجودہ تعلیمی کار کردگی کا جائزہ لینا اور جدید ہندوستان کی تعمیر میں تعلیم کے شعبے میں مولانا کی عظیم خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا بھی ہے۔
جہاں ایک طرف شادمانی کی بات ہے کہ ہمارے اسلاف، آزادی کے متوالے اور محب وطن کی یاد میں کچھ مخصوص "یوم" منائے جاتے ہیں وہیں دوسری جانب یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ قومی یوم تعلیم حکومت کی ایک رسمی کارروائی ہے جو ہوتی ہے اور ہوا کرے۔ ہم اس کے لیے حکومت کے ممنون ہیں کہ اس نے مولانا آزاد کی یاد کو باقی رکھا۔ لیکن ہم مسلمان اگر اپنے طور پر یہ کوشش کریں کہ 6؍اگست سے 9؍ستمبر کو 'ماہِ تعلیم قرار دےکر تعلیمی بیداری کی ایک مہم چلائیں تاکہ ہمارے معاشرے میں مزید تعلیمی بیداری آئے اور وہ بچے جو اب بھی مفلوک الحالی، معاشی تنگی یا غفلت کے سبب تعلیم سے دور ہیں ،انہیں تعلیم سے جوڑ دیں تو مولانا کی یاد اور مولانا کے لیے ایک صدقہ جاریہ کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ حکومت نے مختلف اسکیموں کے ذریعہ ایک ایک بچے کو تعلیم سے جوڑنے کی مہم چلا رکھی ہے اور شاید کاغذی سطح پر اب ہر بچہ کسی نہ کسی اسکول کا طالب علم بھی ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ زمینی حقائق یہ نہیں ہیں۔ ہر شہر کے کچھ محلوں میں اب بھی بچے سڑکوں پر کچڑے چُنتے نظر آئیں گے اور ان کا تعلق اکثر و بیشتر اسلام و مسلمان سے ہوتا ہے۔
ہندوستان کے اس عظیم جیالے نے 25؍فروری 1958 کو 69 برس کی عمر میں اپنی آخری سانس لی اور ہندوستان میں ایک نا پرُ ہونے والا بڑا خلا پیدا کر کے ہمیشہ کے لیے سب کو خیر باد کہہ دیا۔مولانا آزاد کے چند گرانقدر اور ناقابل فراموش کارنامے تعلیمی میدان میں زیر نظر ہیں :
(1) آئی ائی ٹی کھڑگپور کا قیام (بھارت کا پہلا آئی آئی ٹی)۔(2)وہ 1920ء میں اترپردیش کے علیگڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کی بنیادی کمیٹی کے ممبر بغیر برطانوی حکومت کے سپورٹ کے بنے۔ (3) سال 1934ء میں یونیورسٹی(جامعہ) کی آگرہ سے دہلی میں منتقلی میں اپنا اہم تعاون دیا۔ اپنے اخبار الہلال کے ذریعہ ہندو مسلم اتحاد پر کام کیا۔(4) ان کی قیادت میں وزارت تعلیم نے اولین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی 1951ء میں عمل میں آیا۔(5) مزید 1953ء میں ہائیر ایجوکیشن کی انتظامی خدمات کے لیے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی بنیاد ڈالی۔انکی لکھی گئی کتابوں میں اہم نام غبار خاطر، الہلال، البلاغ، سورہ فاتحہ کا ترجمہ، قرآن مجید کا مکمل ترجمہ دو سیٹ، اور انڈیا وِنس فریڈم و غیرہ ہیں۔
)شعبہ:کمپیوٹر سائنس اینڈ انجینئرنگ،کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج)
رابطہ۔8820239345