دھند اور کہرے میں لپٹی راہیں اور میں ۔
سڑک کے دونوں اطراف جمی برف کے ڈھیر اور میں ۔
دور تلک خاموشی۔۔۔خاموشی ہی خاموشی۔۔۔ صرف گونجھتا سناٹا اور۔۔۔۔
اور میں
وہ سوچنے لگا ۔
ابھی لوگ گھروں میں ہی ہیں، چمنیوں سے دھواں اُٹھ رہا ہے۔
دھواں ۔۔۔۔۔
دھواں میرے دل سے بھی تو اُٹھ رہا ہے ۔
پیکٹ میں موجود آخری سگریٹ نے میرے دماغ میں عجیب کھلبلی مچا رکھی ہے کیوں نہ اسے پھونک ڈالوں ۔۔۔۔۔ اس کے دماغ میں خیال کوندا ۔
میں اسے پھونک دوں گا۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔یا یہ مجھے پھونک دے گی ۔
اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی ۔
اتنی صبح۔۔۔۔ میں کیوں نکل آیا ہوں ۔ مجھے واپس مڑنا چاہیے پر ۔۔۔۔پر ۔۔۔۔۔۔اچانک اسےخیال آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔کمرہ سرد ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ہاں بہت سرد ہے ۔اسی لیے ہی تو باہر نکل آیا۔سرد کمرے کا خیال آتے ہی اسکے رونگھٹے کھڑے ہوگیے۔سرد کمرہ۔۔۔سرد کمرہ بالکل میری زندگی جیسا۔۔۔۔۔ایک دم ٹھنڈا ۔۔۔۔۔۔۔۔پر میرے دل میں سلگتے شعلے ہیں ۔
"تین چیونگم اور تین ٹافیاں لائیں گے" ۔
راہ چلتے تین بچوں میں سے ایک بچی نےباقی دنوں کو سمجھایا۔دستانے اور ٹوپیاں پہنے اتنی صبح ۔۔۔۔۔۔اچھّا اچھّا پڑھنے جارہے ہونگے ۔اس نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا۔
یہ بھی دلچسپ بات ہے۔۔۔ حال سورہا ہے ۔۔اور ۔۔۔۔اور مستقبل جاگ رہا ہے ۔
خالی پیٹ سگریٹ کچھ الگ مزہ دیتی ہے ۔بچّے بھی آگے چل کر راہ مڑ گئے وہ وہاں سڑک کے ساتھ والی گلی سے چلے گئے۔۔۔۔اب صرف راستہ ہے ، دھند ہے ، اور۔۔۔ اور میں ہوں۔ برف کی چادر سے ڈھکا ہوا یہ وسیع قبرستان کسی بڑے میدان جیسا لگ رہا ہے ۔
وہ۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔وہ قبر ہے۔۔۔ وہ بڑبڑایا۔
اور اپنے باپ کی قبر کے قریب بیٹھ گیا۔ اسے وہ سانحہ یاد آیا اور بے حد اداس ہوگیا ۔
غسّال نے کہا
"اس میّت کے کپڑے نکالتے وقت اس کی جیب سے تیس روپے نکلے" صرف تیس روپے ۔۔۔۔۔
لاکھوں کروڑوں کے خواب دیکھنے والے کی جیب سے صرف تیس روپے۔۔۔۔ خود چلا گیا, آگے نکل گیا ۔پیچھے ۔پیچھے اگر چھوڑ گیا تو۔۔۔ کچھ قرضہ ,کچھ ذمہ داریاں ۔۔۔۔۔
نہ کوئی جائیداد،نہ زمینیں نہ مکان۔۔۔۔۔؟کچھ بھی نہیں ۔۔۔کچھ بھی نہیں
اور اپنے ساتھ لے گیا۔۔۔ اپنی ساری جمع پونجی۔۔۔۔۔۔۔۔کئ خواب۔۔۔۔کئ ارمان ۔۔۔۔
یہ سراسر نا انصافی ہے ۔۔۔ ۔وہ اپنے ساتھ بڑبڑایا۔
اس نے ایک لمبی آہ بھری ۔
یہیں۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔وہاں۔۔۔۔میرے دوست کی قبر ہے۔
اس نے گردن گھما کر دیکھا ۔
وہ وہاں سو رہا ہے ۔
ساتھ کھیلے ,ساتھ جوان ہوئے ۔اور پھر ساتھ جوانی کےمزّے بھی لوٹے پر ایک دن۔۔ چلتے چلتے وہ تھک کے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔بیٹھ گیا اور سو گیا ۔
کیوں اور کیسے! ۔۔۔ پتا نہیں ۔بس شاید بہت جلدی تھک گیا یا پھر ہار گیا تھا۔
اس نے پھر ایک لمبی آہ بھری ۔
اس نے سڑک کی طرف دیکھا ۔
اب کچھ کچھ لوگ گھروں سے نکل آئے ہیں ۔اِکا دُکا گاڑیاں بھی چلنے لگی ہیں ۔
وہ اٹھا اور چل پڑا ۔
واپس جاؤں ۔۔۔۔پر۔۔۔۔۔۔۔پر کمرہ سرد ہوگا ۔۔۔۔
اسے پھر خیال آیا ۔
اس یخ بستہ صبح شہر کی سڑکوں پر اب دھیرے دھیرے تھوڑی سی چہل پہل شروع ہونےلگی ہے۔
مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا ہے ۔۔۔ہاں شاید بھو۔۔۔ بھوک لگی ہے۔
ہاں مجھے بھوک لگی ہے۔
کچھ کھالیتا ہوں ۔
جیب میں صرف پانچ روپے ہیں۔
اس نے کوٹ کی جیبیں ٹٹولیں
پانچ ۔۔۔۔پانچ۔۔۔۔۔۔۔۔روپے ؟؟؟؟؟
ان پانچ روپیوں سے کیا ہوسکتا ہے ؟
کیا ہوسکتا ہے بھلا ؟
تھوڑی دیر کچھ سوچنے کے بعد ،
کیوں کچھ نہیں ہوسکتا!
بہت کچھ بہت کچھ ہوسکتا ہے ۔۔۔
اس نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا ۔
بلکہ کیا کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔
ایک سستی سی سگریٹ یا ایک قہوے کی پیالی یا پھر چنّے۔۔۔ چنّے
بھی تو کھائیں جاسکتے ہیں ۔پھٹّے پرانے کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ٹھونسے گلے پہ سرخ رنگ کا مفلر لپیٹے وہ چلتے چلتے سوچ رہا تھا ۔ پانچ روپے میں بھی بہت کچھہ آسکتا ہے ، وہ بنا شیو کیے ہوئے چہرہ، جس پر کچھ کچھ داڑھی اُگ آئی تھی، کو کجھانے لگا ۔
پھر یہ خیال آتے ہی دل میں مسرت کی ایک لہردوڑ گئی کہ کوٹ کی اوپری جیب میں میرا کل سرمایہ،میری زندگی کی کل اثاث یا جاگیر ہے۔
اینا کی تصویر۔
ذرا نکال کر دیکھتا ہوں ۔اس نے تھوڑی خوشی، ذرا سی راحت محسوس کی اور ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر خود کے ساتھ بڑ بڑانے لگا ۔
دن میں سو بار تو دیکھتا ہوں یہ بلیک اینڈ وائٹ تصویر ۔
میں بھی کتنا ۔۔۔۔۔۔۔
اس نے تصویر نکالی اور اسے دیکھتے ہی تصویر سے مخاطب ہوا۔
کیسی ہو اینا ؟
ویسی کی ویسی۔۔۔۔۔بالکل وہی خوبصورتی،وہی معصومیت۔۔۔ واہ ۔۔۔ارے اب بھی مسکرا رہی ہو۔
میں تمہارے غم میں دربدر مارا مارا پھر رہا ہوں ۔اور تم۔۔۔۔
اسکے لبوں پر پھر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی ۔
شاید میں اپنی زندگی کی تمام ناکامیاں, تلخیاں بھول جاتا اگرمجھے تم۔۔تم مل جاتیں مگر ۔۔میری قسمت میں یہ بھی نہیں تھا۔
اینا !
اینا میں تمہیں بہت یاد کرتا ہوں ۔ہر پل ,ہر گھڑی۔۔۔۔ کیا ۔۔۔۔۔۔کیا میں بھی تمہیں یاد آتا ہوں کبھی؟
تمہاری یاد جب آتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ اندر ہی اندر بہت کچھ مسمار ہورہا ہے ۔ بہت توڑ پھوڑ مچتی ہے اندر۔۔۔۔ اور یہ سوال ہمیشہ پریشان کرتا ہے
جب ہمیں زندگی ساتھ گزارنی ہی نہیں تھی تو پھر ہم ملے ہی کیوں تھے ؟
میں تمہارا دیوانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھو زندگی تباہ کر بیٹھا ۔میں کچھ کہہ رہا ہوں تم سے اینا ۔۔۔۔
اینا !۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔اور تم مسکرا رہی ہو ۔
جانتی ہو اینا ؟ میری جیب میں صرف پانچ…….. روپے ہیں ۔صرف پانچ روپے ۔۔۔۔۔۔کیاکروں میں ۔۔۔کیسے کاٹوں گا دن زندگی کے ۔
مجھ جیسے کو ،نہ کوئی نوکر رکھے نہ کوئی کام کرائے، صحت و طبعیت ایسی کہ مزدوری تو دور کی بات کوئی بیگار پر بھی نہ لے۔۔۔۔
وہ مایوس سوچنےلگا ۔
سب قسمت کا چکر ہے ۔
والد کی کسمپرسی ، دوست کا جوانی میں مر جانا یا پھر میرا یوں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے ترسنا۔۔۔۔۔۔۔۔
سب قسمت کا کھیل ہے -سچ میں سب قسمت کا ہی تو کھیل ہے یا پھر کچھ اور ہے ۔۔۔۔۔؟
آہ !
مجھے بہت بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔بھو۔۔۔۔ بھوک۔۔۔۔ صرف۔۔۔۔۔پانچ ۔۔۔۔پانچ روپے ہیں ۔۔۔
ارے ہاں آج تو اخبار میں میری لکھی ہوئی کہانی بھی چھپّی ہوگی۔ کیوں نہ اخبار خریدوں ۔کم سے کم خوشی کا کوئی پل تو نصیب ہو۔ اپنی کہانی چھپی دیکھ کر یقینًا مسرت ہوگی ۔۔۔۔۔ پر بھوک کا کیا کروں ؟۔اگر اخبار خریدا تو کھائوں گا کیا ؟
پھر میں اخبار کیوں خریدوں بھلا۔؟
خبروں سے مجھے دلچسپی نہیں ،اپنی لکھی کہانی مجھے پڑھنی ہی نہیں۔۔ ویسے بھی میں نے ہی تو لکھی ہے ۔ پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ اوروں کا لکھا ہوا میں پڑھتا ہی نہیں۔ تو کیوں ، کیوں خریدوں میں اخبار؟
ویسے بھی جس دن میں کسی اور کا پڑھوں گا۔۔۔ اس دن میرے اندر کے کہانی کار کی موت واقع ہوگی ۔
قہوے خانے سے لوگ نکل رہے ہیں اور میری بھوک بہت پڑھ چکی ہے ۔میں نے رات کا کھانا بھی تو نہیں کھایا تھا ۔
ایک۔بار پھر تسلّی کرتا ہوں ہاں۔۔۔۔ہاں۔۔۔برابر ہیں ۔
دروازے سے ذرا سا دو قدم کے فاصلے پر ایک بوڑھی عورت چادر سے منہ چھپاے بھیک مانگ رہی ہے ۔
"دے دو بیٹا کچھ پیسے دے دو بیٹا"
پہلے منہ بنایا اور کچھ کچھ جھنجھلاتے ہوئے اس بوڑھی عورت سے نظریں چُراتا ہوا اندر داخل ہوا ۔
دروازے پر سے موٹی کمبل ہٹاتے ہی دیکھا اندر بہت بھیڑ ہے۔ لوگ سگریٹ پھونک رہے ہیں, قہوہ پی رہے ہیں۔پیالیوں کے ٹکرانے کی آوازیں ۔۔۔۔۔۔۔درمیان میں ایک بڑی سی اینگٹھی سلگ رہی ہے۔
اینگٹھی کے اندر بڑے بڑے شعلے ہیں ۔۔۔شعلے پر میرے اندر جو شعلے ہیں ان سے تھوڑے کم ہی ہیں ۔
کیوں نہ ایک کونے میں دبک کر بیٹھ جاؤں۔۔ ویسے بھی مجھے کون جانتا ہے یہاں ۔؟ کون پہچانتا ہے ؟اسی شہر کا ہوکے بھی میں کسی سے واقف نہیں نہ کوئی میرا شنا سا ہے ۔
وہ۔۔۔۔۔ وہ اس۔۔۔۔ٹیبل ۔۔۔۔۔۔تھوڑی سی جگہ ہے وہیں بیٹھتا ہوں ۔
تصویر نکال کر دیکھتا ہوں ۔ پتا نہیں میں بھیڑ سے کیوں اتنا گھبراتا ہوں۔ اور جب بھی گھبراتا ہوں تو فقط ایک ہی شئے ہے جو مجھے حوصلہ دیتی ہے ۔
اینا ۔۔۔۔۔۔۔۔اینا کی تصویر
وہ سب کی نظروں سے خود کو بچاتا ہوا اینا کی تصویر دیکھنے لگا ۔
میرے ہونٹ کیوں خشک ہورہے ہیں؟ سردی بھی بہت ہے۔کپکپی سی لگ رہی ہے ۔
گرم قہوے کی خوشبو میرے نتھنوں سے ہوتے ہوئے معدے میں سرائیت کر رہی ہے اور یوں میری بھو ک اور بڑھ رہی ہے ۔
"ارے سنو
ایک۔۔۔۔۔ایک ۔۔۔۔ایک پیالہ قہو۔۔۔۔
ٹھہرو "
اس نے ایک اونچی آواز لگائی اور تھوڑی ہی دیر میں گرم قہوہ۔۔۔۔۔اس کی نظروں کے سامنے ۔۔۔۔۔۔
وہ بوڑھی عورت ۔۔۔۔۔۔۔پتا نہیں کیوں اور کن حالات سے مجبور ہوکر ۔۔۔۔۔۔۔
وہ انگیٹھی میں جل رہے شعلوں کو گھورنے لگا اور سوچنے لگا ۔
ایک بے ترتیب اور بے ربط سوچ اسے دھیرے دھیرے گرفت میں لینے لگی۔
بھو۔۔۔۔۔بھوک ۔۔۔۔۔۔بوڑھی عورت ۔۔۔۔۔انگیٹھی میں شعلے ۔۔۔۔یہ شعلے میرے اندر ۔۔۔میرے اندر بھی سلگ رہے ہیں ۔۔۔۔ سرد کمرہ ۔۔۔۔۔گرمی۔۔۔انگیٹھیی۔۔۔۔ میں کتنا کم ظرف ہوں ۔
پر ۔۔۔۔۔پر میں کیا کر سکتا ہوں ۔میرے ہاتھ میں کیا ہے ؟
یا میرے بس میں کیا ہے؟
کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ بھی تو نہیں ۔میری جیب کیوں خالی ہے؟ میں کیوں بھوکا ہوں؟
میں کیوں مصیبت جھیل رہا ہوں؟ ۔۔۔۔۔۔میں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے ۔۔۔۔۔۔میں ہی کیوں۔۔۔۔۔ میری کیا غلطی ہے ؟
یا پھر۔۔۔۔یا پھر۔۔۔۔ اس بوڑھی عورت کی کیا غلطی ہے ؟
آخر سب کس کی غلطی ہے؟
کس کا قصور ہے ؟
بھوک۔۔۔۔سردکمرہ۔۔۔گرم شعلے۔۔۔انگیٹھی۔۔۔۔پانچ روپے۔۔۔باپ کی کسمپرسی۔۔۔۔جواں مرگ دوست ۔۔۔۔۔
اس بوڑھی عورت نے پتا نہیں کچھ کھایا بھی ہوگا یا نہیں ۔۔۔۔عورت نہیں۔۔۔۔۔۔ عورت نہیں بلکہ امّاں کہنا چاہیے ۔۔۔۔۔ بھو۔۔۔۔۔بھوک ۔۔۔۔۔۔اف یہ غربت ۔۔۔۔۔اف یہ مفلسی ۔۔۔۔۔اور یہ لوگ ۔۔۔۔۔قہوے خانے میں بیٹھے بے فکرے لوگ ۔۔گپ شپ۔ہنسی مذاق میں ڈوبے لوگ, ٹھاٹیں مار رہے لوگ ۔۔۔۔ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ،کوئی فکر نہیں ۔۔۔۔۔۔۔کوئی خبر نہیں ۔۔۔۔
جب ان سب کو میری پرواہ نہیں ۔۔۔۔۔۔میری فکر نہیں۔۔۔ ۔۔میری خبر نہیں ۔۔۔۔۔۔۔مجھے کیوں۔۔مجھے کیوں پھر ہر وقت ان کا دھیان پریشان کرے, ان کا خیال ستائے ۔؟
سچائی کتنی کڑوی ,سچ کتنا کسیلا ہے اور سچ یہی ہے ۔۔۔جو کچھ میں یا وہ بوڑھی امّاں بھگت رہے ہیں ،جو کچھ ہم سہہ رہے ہیں، جو کچھ ہم جھیل رہے ہیں۔یہی سب سچ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یہی سب سچ ہے باقی سب بکواس ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈھکوسلہ ہے ۔۔۔ ڈوھنگ ہے۔۔۔۔۔۔ اس لئے ۔۔۔۔ اسی لئے۔۔۔مجھے انکار ہے !
مجھے انکار ہے اس سماج سے،ان رسموں سے۔۔۔۔۔۔، رواجوں سے۔۔۔۔۔ ،کل سے ۔۔۔۔۔،آج سے۔۔۔۔۔، علم سے۔۔۔۔۔، قلم سے۔۔۔۔۔، قسم سے۔۔۔۔ ،یہاں تک کہ خود سے،اور ۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے ہی لمحے۔۔۔ وہ نم آنکھوں لیے سڑک پار کر رہا تھا پر مطمئن ضرور تھا کیونکہ وہ قہوے کا پیالہ دیوار پر پھینک آیا تھا اور پانچ روپے کا سکہ بوڑھی امّاں کی جھولی میں ۔
���
جلال آباد سوپور کشمیر
موبائل نمبرات؛7780889616،9419031183